مہر النسا وِی لَب یو


میرے اسکول زمانے کی بات ہے، میں گرمی کی چھٹیوں میں راول پنڈی سے لاہور خالہ کے گھر آیا، تو فرمائش کی مجھے فلم اسٹوڈیو دیکھنا ہے۔ میری مرحومہ خالہ فرحت افزا ایل ایچ وی تھیں، سمن آباد موڑ کے قریب نواں کوٹ میں ان کا گھر اور سرکاری کلینک تھا۔ یاد یہی پڑتا ہے کہ کلینک کے چپڑاسی محمد بخش کا کوئی گرائیں اسٹوڈیو میں ہوتا تھا۔ محمد بخش نے مجھ کو سائیکل پر بٹھایا اور شاہ نور اسٹوڈیو لے گیا۔ اس کے گرائیں کیوں نہ ملا یہ معلوم نہیں، ہم دونوں شاہ نور اسٹوڈیو کے داخلی دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک ہجوم تھا جو فلمی ستاروں سے ملنے کا مشتاق تھا، دربان کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ محمد بخش مجھے واپس چلنے کو کہتا تو میں التجا کرتا، بس کچھ دیر اور۔

پھر وہ زمانہ کہ کسی کام سے باری اسٹوڈیوز، شاہ نور، ایورنیو اسٹوڈیوزجانا ہوتا تو کام نپٹاتے ہی وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا۔ ایسے میں مجھے وہ دور ضرور یاد آتا، جب میں محمد بخش کے ساتھ شاہ نور اسٹوڈیوز کے باہر کھڑا تھا، دربان نے اندر جانے کی اجازت نہ دی تھی، محمد بخش مجھ کو گھر چلنے کا کہتا تو میں ٹھہرنے کے لیے منت کرتا۔

ہم ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے ہوئے فلم ہی کو سوچا کرتے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے شوبز میں آنے والے ہر شخص کا خواب فلم ہی تھا۔ آج شوبز کا ہر شخص نہیں تو اکثر تو ضرور فلم ہی کا سوچتے ہیں۔ مجھ جیسوں کو یقین تھا کہ پاکستان میں فلم سازی کے دور کا دوبارہ احیا ہوا، تو اس کے پیچھے ٹیلی ویژن کے لیے کام کرنے والوں ہی کا ہاتھ ہوگا۔ پاکستان فلم انڈسٹری ابھی بنی نہیں، لیکن اس کے احیا کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ پچھلے دو چار سالوں میں جو کوششیں ہوئیں انہیں دیکھ کے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی فلم، ہندوستانی فلم کا مقابلہ کرتی ہے، یا مستقبل قریب میں اس کی جگہ لے سکے گی، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے، کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔ ابھی جو فلمیں بن رہی ہیں، ان پر ٹیلی ویژن ڈراموں کی چھاپ ہے۔ اس لیے بھی کہ چھوٹی اسکرین کے لیے کام کرنے والوں کی تربیت چھوٹی اسکرین کی مناسبت سے ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا جا رہا ہے۔

آج ہم جب فلم کی بات کرتے ہیں تو ہمارا دھیان کراچی میں بننے والی فلموں کی طرف جاتا ہے۔ حالاںکہ راول پنڈی اسلام آباد اور لاہور میں بھی اپنی مدد آپ کے تحت کچھ فلمیں بنائی جاری ہیں۔ اپنی مدد آپ اس لیے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری نام ہی کی انڈسٹری رہی ہے۔ یہ ایسی انڈسٹری تھی جس پہ پاکستانی سرکار نے بھاری ٹیکس ضرور لگائے معمولی اقدام کا ذکر ہی کیا، لیکن اس انڈسٹری کے لیے کوئی ایسا نمایاں قدم نہیں اٹھایا گیا، جو انڈسٹری چلانے یا بچانے کے لیے کیا جانا چاہیے تھا۔ آج کراچی میں بننے والی فلموں‌ کا چرچا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے ٹیلی ویژن چینل ہیں۔ یہاں بننے والی فلم کو کوئی نہ کوئی چینل خرید رہا ہے یا اسپانسر کرتا ہے۔ تشہیری مہم کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ پریس شو ہوتے ہیں، پریس کانفرنس ہوتی ہے، فلم کے بارے میں ٹیلی ویژن چینل پر خبریں چلائی جاتی ہیں۔

تئیس جون کو نیو پلیکس سینما کراچی میں “مہر النسا وِی لَب یو” کا پریس شو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وائے این ایچ کے بینر تلے بننے والی یہ دوسری فلم ہے۔ اس سے پہلے اسی ادارے کی ایک فلم “رانگ نمبر” ریلیز ہوچکی ہے اور کام یاب ٹھیری۔ “مہر النسا وِی لَب یو” کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہم ماحول کی خرابی کا شکوہ کرتے ہیں، من پسند ماحول کے لیے ہجرت کر جاتے ہیں، لیکن اپنے ارد گرد کا ماحول بدلنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ اسی نکتے کو لے کر فلم کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ علی جو بیرون ملک سے پڑھ کے آیا ہے، اپنی بچپن کی محبت مہرو کو بیاہ کے کراچی لے آتا ہے۔ کراچی کا بھی وہ محلہ جہاں کچرے کے ڈھیر ہیں، دیوار سے دیوار جڑی ہے، ایک گھر کے جھگڑے دوسرے گھر میں سنے جا سکتے ہیں۔ مہرو پہاڑی علاقے میں پروان چڑھی ہے جہاں سکون کا راج ہے، یہاں کا شور شرابا اس کو بیمار کر دیتا ہے۔ علی سوچتا ہے کہ اسے بیوی کو لے کر کہیں اور چلے جانا چاہیے؛ بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے، کہ کہیں اور جانے سے بہتر ہے، اپنے ماحول کو تبدیل کرے۔ پھر کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں، وہ دکھایا جاتا ہے۔ فلم کے نمایاں اداکاروں میں ایک دانش تیمور ہیں جن کی شناخت ٹیلی ویژن ڈراموں سے بنی، اس پہلے وہ “رانگ نمبر” میں بھی مرکزی کردار نبھا چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن ڈراموں ہی سے ابھرنے والی ثنا جاوید کی یہ پہلی فلم ہے۔ انہیں مہرالنسا کا کردار دیا گیا ہے۔ تھیٹر کی دنیا کے ہونہار اداکار ثاقب سمیر نے نہ صرف اس فلم کو لکھا ہے، بلکہ باپ بیٹے کا ڈبل رول بھی ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ نوشین شاہ، ارشد محمود، جاوید شیخ، نیئر اعجاز معاون کردار نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ آیٹم نمبر ہندوستانی، اور پاکستانی فلموں کا مستقل جزو بن چکا ہے۔ فلم کے آیٹم سانگ میں معروف ماڈل آمنہ الیاس کی پرفارمینس دید کے قابل ہے۔

کوئی فلم کیسی بھی ہو، باکس آفس پہ اس کی کام یابی کا فیصلہ شائقین ہی کرتے ہیں۔ فلم ساز اور ہدایت کار یاسر نواز کی اپنی فلم “مہر النسا وِی لب یو” سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ فلم تو میں بنا چکا، اس عید پر یہ ریلیز ہو رہی ہے، لہٰذا اب پبلک جانے اور فلم، میری ساری توجہ اپنی اگلی فلم “چکر” پہ ہے، جو ستمبر میں سیٹ پر چلی جائے گی۔

پاکستانی فلم شائقین کو چاہیے کہ وہ نہ صرف “مہر النسا وَی لِب یو” کو سینما ہال میں جا کے دیکھیں، بلکہ تمام پاکستانی فلموں کو توجہ دیں۔ شوبز انڈسٹری کے ہنر مندوں کے پاس دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہندوستانی سینما کا رخ کریں جہاں فلم کا ماحول سازگار ہے، دوسرا یہ کہ اپنی ہی فلم کو بہتر سے بہترین تک لے جائیں۔ جیسے ہم شہری اپنے ماحول پر کڑھتے ہیں کچھ یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں، کیوںکہ سب کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کہیں اور جا سکیں، اس لیے انہیں یہیں رہ کے حالات کی بہتری کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا ہی ہماری شوبز انڈسٹری کا احوال ہے، ہر اداکار، گلوکار یا ہنرمند کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ہندوستان یا ہالی ووڈ میں جا کے کام کرے۔ انہیں یہیں رہ کے اچھی فلم بنانے کی جستجو کرنا ہے اور فلم انڈسٹری کا وہ ماحول بنانا ہے، جس میں وہ راحت سے کام کر سکیں۔ یہ ایک دو روز میں ہوگا نہیں، یقیناً اس میں وقت لگے گا؛ امید ہے ایک نہ ایک دن یہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran