سوات میں تحریک انصاف کے تعلیمی انقلاب کی باتصویر حالت زار


تحریر: ایچ ایم کالامی
عکاسی، مجاہد توروالی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں برسراقتدار آنے کے بعد صحت اور تعلیم کو پہلی ترجیح سمجھا اور ان کے لئے ہر سال بھاری بھرکم بجٹ مختص کیا گیا۔

پہلے سال 66.6 ارب، اگلے سال 33 فیصد اضافہ کے ساتھ 111 ارب روپے، تیسرے سال 97 ارب، چوتھے سال صرف پرائمری تعلیم کے لئے 12 ارب 45 کروڑ روپے رکھے گئے، جس میں سے سو نئے پرائمری سکول کی عمارتوں کی تعمیر بھی شامل تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں یکساں نظام تعلیم یعنی ’’سرکاری اور نجی اداروں میں یکساں نصاب اور یکساں طرز تعلیم‘‘ متعارف کرانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ گوکہ صوبائی حکومت نے تعلیمی معیار ٹھیک کرنے کے لئے کئی منصوبوں پر کام کیا۔ اساتذہ کی حاضریاں یقینی بنانے کے لئے سکول مانیٹرنگ سسٹم اور سکولوں میں بائیومیٹرک سسٹم بھی متعارف کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک مہم ’’پڑھو لکھو اور زندگی بناؤ‘‘ کے نام سے شروع کی گئی تھی جس کا مقصد صوبے کے چھیالیس لاکھ سکولوں سے باہر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس مہم کا اغاز کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے پشاور کے ایک پرائمری سکول میں پہلا بچہ اپنے دست مبارک سے سکول میں داخل کرایا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آخری بچہ سکول میں ہونے تک وہ اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے چاہیں اس ضمن میں دوسرے ملکوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا کیوں نہ پڑے۔ سکولوں سے باہر بچوں کو داخل کرانے کے لئے ایک اور’’ گھر آیا استاد‘‘ بھی شروع کی گئی، جس میں اساتذہ خود گھروں میں جاکر بچوں کو سکول میں داخل کرانا تفویض کیا گیا تھا۔

ان مہمات کے ذریعے اب تک کتنے بچے سکولوں میں داخلکیے گئے، اس کا اندازہ تازہ سروے رپورٹ شائع ہونے کے لگایا جاسکے گا اور یہ بھی جانچا جائے گا کہ یہ مہمات کس حد تک کامیاب رہیں!
صوبے میں سکول عمارتوں کا شدید فقدان اور تعلیمی اداروں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ بالخصوص سوات میں شورش کے دوران سینکڑوں سکول بم و بارود سے اڑادیے گئے۔ پھر سیلاب اور اس کے بعد زلزلے نے رہی سہی کسر پوری کردی اور مزید سینکڑوں سکول عمارتوں سے محروم ہو گئے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر ایسی صورت حال میں سب سے پہلی مہم سوات میں’’ تعمیر سکول‘‘کے نام سے شروع کی جاتی اور متاثرہ سکولوں کے علاوہ مزید سکول عمارتیں تعمیرکیے جاتے، سیدھی سی بات ہے اگر صوبائی حکومت کو معیاری تعلیم اور شرح خواندگی میں اضافہ کرنا مقصود تھا تو تمام علاقوں میں سکولوں کی تعمیر اور تمام سکولوں کو سہولیات کی فراہمی جنگی بنیادوں پر ہونی چاہیے تھی۔
مگر صوبے میں تعلیم معیار کیا ہے اس کا احاطہ اس نشست میں مکمن نہیں اس پر دفتر کے دفتر سیاہ کرنے پڑیں گے۔ بس مختصراً سوات بورڈ کے میٹرک امتحان منہ بولتا ثبوت پیش کررہا ہے کہ بورڈ میں کوئی بھی سرکاری سکول پوزیشن لینے سے قاصر رہا۔ راقم سکولوں کی حالت زار پر صرف چند مہینوں میں میڈیا پر رپورٹ ہونے والے پرائمری سکولوں کے تذکرے پر ہی اکتفاء کرے گا باقی آپ خود تعلیی ایمرجنسی کا حساب لگا لیں۔

میڈیارپورٹس ملاحظہ ہو!

سوات کی تحصیل کبل میں گورنمنٹ پرائمری سکول سربالا کے بچے کئی سالوں سے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

سوات کی تحصیل بحرین کے علاقہ آرین میں سیلاب سے تباہ شدہ سکول کی عمارت سات سال بعد بھی تعمیر نہ ہوسکی۔ بچے کرائے کی ایک دکان میں بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہیں۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے چند کلومیٹر پر واقع گورنمنٹ پرائمری سکول گاڑاسا میں تین سو طلبہ دو کلاس رومز میں ٹھونس دیے گئے ہیں، بلڈنگ تعمیر کرنے کا مطالبہ۔

سوات کے علاقہ کوزہ بانڈئی میں گورنمنٹ پرائمری سکول کے طلبہ و طالبات چوکیدار اور سویپر بن گئے۔ سکول میں کئی سالوں سے چوکیدار نہ ہونے باعث بچے صبح سویرے خود سکول کی صفائی کرتے ہیں اور سکول کی چوکیداری بھی کررہے ہیں۔

سوات کے علاقہ بلوگرام میں گورنمنٹ پرائمری کے بچے عمارت نہ ہونے کے باعث تیز دھوپ ہو یا بارش بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک اپنے دورہ سوات میں اسی سکول کے قریب تقریبات میں شامل رہے مگر سکول کی حالت زار نظر نہ آسکی۔

سوات کی تحصیل چ ارباغ میں اڑتیس سال سے سکول عمارت نہ ہونے کے باعث گورنمنٹ پرائمری سکول چنگئی کے بچے خستہ حال عمارت میں پڑھ رہے تھے، جو منہدم ہوگئی اور اب بچے مسجد کی چھت پر بیٹھ پڑھنے پر مجبور ہیں۔

اب ایک اور تازہ رپورٹ میڈیا پر آئی ہے کہ سوات کی تحصیل بحرین کے علاقہ بالاکوٹ میں دو سال قبل زلزلے سے تباہ شدہ عمارت کو خیبر پختونخوا حکومت تعمیر کرنا بھول گئی اور بچے مقامی مسجد میں بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہیں۔

اس کے علاقہ جن سکولوں کی عمارتیں ہیں ان میں سہولیا ت کا فقدان اور ہائرسکینڈری تک اساتذہ اور کتابیں میسر نہ ہونا ایک الگ کھتا ہے جس کا اس بلاگ میں احاطہ کرنے کی گنجائش نہیں۔ مگر راقم تو اپنی ناقص خیال کے تحت یہ تجویز دے سکتا ہے کہ خان صاحب موقع اب بھی ہاتھ سے گیا نہیں۔ جیسا کہ اس بار صوبائی حکومت نے اپنے آخری بجٹ میں تعلیم کے لئے 138 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ اب ضرور اس امر کی ہے کہ بے جا مہمات اور بجٹ کے ضیاع سے دستبردار ہوکر سکولوں کے لئے نئی عمارتیں تعمیر کی جائیں اور سکولوں میں سہولیات فراہم کی جائیں پھر بات پلے پڑجائے گی کہ بینرز آویزاں کرکے اور پبلسٹی کے ذریعے نہیں تعلیمی ماحول کی بہتری اور سہولیات کی فراہمی سے تعلیمی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).