ڈاکٹر شاہد مسعود المعروف مولوی دبڑ دُوس


معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود المعروف دبڑ دُوس ، ڈاکٹر کم اور مولوی زیادہ ہیں اور پُورے تزک و احتشام سے اپنی مولویت میں رہتے ہیں ۔ وہ ایک عرصے سے وقت کے خاتمے پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں اُن کی کتاب ” دی اینڈ آف ٹائم” بھی شائع ہو چکی ہے ۔ اس بار رمضان کے دوران اُن کا ” دی نیوز ون” پر چلنے والا رمضان شو ، جس میں انعامات کی بارش ہوئی اور عمروں کے ٹکٹوں کے تحفے تقسیم کیے گئے، بہت مقبول ہوا ۔

یوں تو پاکستان کے بہتر کے بہتر ٹی وی چینلوں نے حسب توفیق رمضان کی پاکیزہ نشریات کا اہتمام کیا مگر ” دنیا ، اے آر وائی ، ایکسپریس اور بول ” کا بہت چرچا رہا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سحری اور افطاری کے بیشتر پروگراموں کی گہما گہمی اور رونق نہ صرف دینی بلکہ ریٹنگ افروز تھی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے مذہب اب میڈیا کا شعبہ ہے ، یا میڈیا مذہب کا شعار ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی رنگ میں یاد کیا جائے ، اُس پر انگشت نمائی جائز نہیں۔ تا ہم یہ خیال آتا ہے کہ ٹی وی شو کا دارومدار نیت پر نہیں بلکہ ریٹنگ پر ہوتا ہے کیونکہ شوبازی کے ضمن میں بزرگ کہہ گئے ہیں :

اُچّے کلمے سویو پڑھدے ، نیّت جیہناں دی کھوٹی ہو

لیکن میں نہیں جانتا کہ ٹی وی رمضان سپیشل کے اونچے اور سُریلے کلمات کو کھوٹی نیت کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن اقبال کے بعض منظوم ریمارکس یاد آ کر سوہانِ روح بن جاتے ہیں ۔ فرمایا:

نماز و روزہ و قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں تُو ، باقی نہیں ہے

تو کون ؟ مسلمان ۔ تو باقی نہیں ہے ۔ یعنی وہ مسلمان باقی نہیں جو عمل سے اسلام کی تعلیمات کو زندہ کرتا ہے ۔ جبکہ نمازیں ہو رہی ہیں ، تراویح کا سلسلہ چل رہا ہے اور روزے بھی پوری میڈیائی شان سے رکھے جا رہے ہیں اور یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ اب مذہب اور میڈیا لازم و ملزم ہیں ، ملا اور لاؤڈ سپیکر ایک ہی سِکّے کے دو رُخ ہیں ۔

رمضان کے ان شوز میں ایک بات بار بار سُننے میں آئی کہ رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے ۔ آخر اس بیان کا ترجمہ کیا ہے۔ مطلب کیا ہے۔

میں بہت دیر تک سوچتا رہا اور یہی سمجھا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان کی گناہ کرنے کی حِس سو جاتی ہے ، شر کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں اور رمضان کی برکت سے صرف نیکی ہی سر زد ہوتی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر رمضان میں یہ بم دھماکے ، یہ ڈاکے ، یہ خود کُش حملے ، یہ اعصاب شکن اور کمر توڑ مہنگائی ، یہ اشیائے خوردنی کا کفر انگیز معیار ، یہ موبل آئل میں تلے پکوڑے ، یہ بریک آئل میں نکلے سموسے ، یہ تارکول آلود دہی بھلے ، مردہ جانوروں کے گوشت کے شامی کباب اور مرگی سے مری مرغیوں کے چرغوں کی رسد کہاں سے آتی ہے اور لائی جاتی ہے۔ اور کیا یہ لوگ سچ مُچ مسلمان ہیں جو اپنے ہم مذہبوں اور ہم مسلکوں کو خوردنی زہر دے کر کر مارنا چاہتے ہیں ۔ کیا قتل کی یہ سکیم دہشت گردی نہیں ہے ۔

اس رمضان میں پاڑا چنار اور کوئٹہ میں ہونے والے خود کُش حملوں نے اس سوال کو شدت سے دوہرایا ہے کہ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں ۔ ان کی شناخت کو واضح ہونا چاہیے ۔ کیا دہشت گردی بھی سپہ گری کی طرح ایک باقاعدہ پیشہ ہے۔ سپہ گری غالب کے آباؤ اجداد کا بھی پیشہ تھی ۔ اور میرزا اسد اللہ خان غالب نے اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا اور فرمایا :

سو پُشت سے ہے پیشہ ء آبا سپہ گری

کچھ شاعری ذریعہ ء عزت نہیں مجھے

اب اس شعری تعلی کی تشریح درکار ہے کہ کیا غالب کی سوویں پشت حضرت آدم سے پہلے ہو گزری ہے یا یہ پشت ہمارے انکل قابیل سے شروع ہوئی جنہوں نے اپنے بھائی یعنی ہمارے مظلوم انکل کو شہید کیا اور یزید ابنِ معاویہ کو قتلِ حسین کی راہ دکھائی ۔ اس حوالے سے جو دہشت گردی دو بھائیوں کے درمیان دست درازی اور خونریزی سے شروع ہوئی تھی وہ اب ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی ۔

قابیل زادوں کو قتل کرنے کے کئی طریقے آتے ہیں ۔ ان میں سے ایک طریقہ سلو پوائزننگ کا ہے جسے قسطوں میں قتل کہا جاتا ہے ۔ اس میتھڈ یا طریقِ کار کے مطابق خُدا کے کمزور بندوں کا رزق چھین کر اُنہیں فاقوں کی چھڑی سے مار مار کر اُن کی چمڑی اُدھیڑ دی جاتی ہے یہاں تک کہ اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے ۔

علاوہ ازیں غریب عوام کو مہنگائی کے کوڑے سے مارنا اُن مظالم میں سے ایک ہے ، جس کا تعین آسان نہیں ہوتا ۔ کیونکہ جن جلادوں کے حکم پر کوڑے مارے جاتے ہیں ، اُن تک قانون کی رسائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ بیچ میں بھاری فیسوں والے وکیل پڑ جاتے ہیں جو ظُلم کو شریف الدین پیرزادہ کے منتر سے جائز قرار دے سکتے ہیں ۔اس ظلم کی ایک مثال یہ ہے کہ رمضان کے آخر میں گھر جا کر عید منانے والوں کو پاکستان ریلوے نے پینتیس فی صد رعایت دینے کا اعلان کیا لیکن سات سو کا ٹکٹ 1350 روپے میں فروخت کیا ۔ آج ٹی وی پر یہ روداد اور ٹکٹ دکھائے گئے اور لوگوں کی آہ و بکا سنائی گئی تو میں نے صرف یہی کہا کہ یہ گُڈ گورنینس کی شاندار مثال ہے ۔ اب ریلوے کے چیف جلاد سے کوئی اس کا سبب پوچھے تو کیا پوچھے کیونکہ بہانوں کی فیکٹری کا مال سستا بھی بہت ہے اور پھر وزرا شزرا ظلم کو رحمدلی میں بدل کر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

 

بسوں اور ویگنوں کے مالکان کی لوٹ مار کی کہانی اور بھی دلدوز ہے کہ گھر جا کر عید منانے کی ساری خوشی کرایوں کی نذر ہو جاتی ہے اور عید اذیت کی سویوں سے محرم بن جاتی ہے۔ لیکن گُڈ گورنینس اپنی جگہ ایک خوبصورت تصور ہے جسے بیان کرنے کا سلیقہ چاہیے ۔

بشکریہ: کارواں ناروے

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar