ایک نئی افغان جنگ کی تیاریاں


امریکہ کے بعد اب 29 رکنی یورپی فوجی اتحاد نیٹو نے بھی افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ کل برسلز میں اس اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔ سیکرٹری جنرل ینس ستولتن برگ نے اجلاس کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے افغان حکومت اور فوج کی امداد جاری رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز نہایت دلیری اور مستقل مزاجی سے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 5 ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں 8 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور ضروری امداد کا کام کرتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن گزشتہ ہفتہ کے دوران کانگریس کی ایک کمیٹی کو یہ بتا چکے ہیں کہ وزارت خارجہ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی پر تفصیلی نظر ثانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس دوران افغانستان میں فوج بڑھانے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے اور اب نیٹو کے اعلان سے یہ واضح ہوا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور افغانستان میں قیام امن کےلئے سیاسی اور سفارتی کوششوں پر انحصار کرنے کی بجائے اب بھی طاقت کے بل پر اس مسئلہ کو حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس قسم کا تصور خود کو دھوکہ دینے اور افغانستان کے مصائب میں اضافہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ تاہم فی الوقت ایک انتہا پسند امریکی صدر کے دباؤ میں نیٹو ایک ایسا فیصلہ کر رہی ہے جو یورپی رائے عامہ میں قبول نہیں کیا جائے گا۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینس ستولتن برگ نے افغانستان میں فوجی تعداد بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ گمراہ کن بیان دیا ہے کہ اس طرح دہشت گردی کی روک تھام کےلئے موثر طریقے سے کام کیا جا سکے گا۔ حالانکہ وہ اس سادہ سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں گے کہ جب 2001 سے شروع کی جانے والی اس جنگ میں 16 برس کی لگاتار تباہی و بربادی کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی اور اگر ڈیڑھ لاکھ سے زائد اتحادی فوجی برس ہا برس کی کوششوں کے باوجود طالبان کی مزاحمت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اب اس فوج میں از سر نو اضافہ کرنے سے کون سا نیا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب یورپ بھر کے عوام یہ جان چکے ہیں کہ اگرچہ افغانستان کے طالبان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور امریکہ میں 9/11 حملوں کے بعد القاعدہ کی قیادت کو پناہ دے کر انہوں نے سنگین غلطی کی تھی لیکن افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی لڑائی کا بہرحال عالمی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ افغان طالبان نے کبھی ملک سے باہر نکل کر لڑنے یا حملے کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا اور اتحادی افواج کے ساتھ ان کی جنگ کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے غیر ملکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی قیادت اصولی طور پر اس بات کو تسلیم بھی کرتی رہی ہے تاہم اس کی خواہش رہی ہے کہ طالبان پہلے مذاکرات شروع کریں اور افغان حکومت کے ساتھ امن کے کسی معاہدے پر عمل کا آغاز کریں، اس کے بعد ایساف افواج کو مکمل طور سے افغانستان سے نکالا جائے گا۔ اس اختلاف کا حل تلاش کرنے کےلئے سفارتی اور سیاسی اقدامات کرنے کی ضرورت تھی لیکن اب ایک بار پھر عسکری آپشن اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کےلئے چار ملکوں پر مشتمل جو کمیٹی قائم کی گئی تھی، وہ اس حوالے سے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان ملکوں میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکہ اور چین بھی شامل ہیں۔ چین نے گزشتہ دنوں پاک افغان تعلقات میں حائل مشکلات میں مدد دینے کا قصد ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس چہار ملکی کمیٹی کو فعال کیا جائے۔ اس طرح افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہموار کرنا ممکن ہے۔ لیکن اب امریکہ اور اس کے اشارے پر نیٹو ممالک اگر پھر سے افغانستان میں فوجی قوت میں اضافہ کرنا شروع کریں گے تو اس سے افغان طالبان کو شکست دینا تو ممکن نہیں ہوگا لیکن افغانستان میں امن و امان کی صورتحال خراب اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے اس امریکی الزام کو بھی دہرایا ہے کہ باغی گروہ افغانستان میں کارروائی کرنے کے بعد پاکستان میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ اس لئے یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کےلئے امریکی سیاستدان اور سفارت کار عرصہ دراز سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ برس کے دوران بھارت اور افغان حکومتوں نے بھی ان الزامات کو شدت سے دہرانا شروع کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ بلکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خاتمہ کی وجہ سے اب کافی حد تک ان علاقوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحدوں کر محفوظ کرنے کےلئے باڑ لگانے اور کنٹرول کرنے کا بہتر نظام استوار کرنے پر کام کر رہا ہے۔ جبکہ افغان حکومت مسلسل ان کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر پاکستان سے دہشت گرد افغانستان داخل ہوتے ہیں تو افغان حکومت اور اس کے مغربی سرپرستوں کو بڑھ چڑھ کر پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کے کام کی حمایت کرنی چاہئے تھی۔

پاکستان نے گزشتہ چند برسوں کے دوران واضح کیا ہے کہ اس کے علاقوں میں ہونے والے حملوں میں افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہ ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان میں جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے اس ملک کو پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا مسکن بنا لیا ہے۔ اس علاقے میں دہشت گردی اور سرحد پار سے حملوں کی بات کرتے ہوئے امریکہ اور نیٹو الزام کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ اور افغانستان کی طرف سے پاکستان پر ہونے والے حملوں یا بھارتی ایجنٹوں کی تخریبی سرگرمیوں کو زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تو بھارت کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے اقتصادی مفادات بھی ہو سکتے ہیں لیکن اب افغانستان میں فوجی قوت میں اضافہ اور پاکستان کے خلاف الزام تراشی مین شدت کا اصل ہدف افغانستان میں امن کے علاوہ چین اور روس کے اشتراک سے وسطی ایشیا سمیت پوری خطے میں رونما ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں میں رکاوٹ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت اور ون روڈ بیلٹ منصوبہ کے ذریعے دنیا کے بیشتر حصوں کو تجارتی مواصلاتی رابطوں سے منسلک کرنے کے منصوبہ سے ہراساں ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اس طرح وہ اہم تجارتی منڈیوں سے محروم ہو سکتے ہیں اور ان کے ملکوں میں پیداواری اضافہ میں کمی واقع ہوگی۔ تاہم اگر نیٹو اور امریکہ تجارتی اہداف اور چین کا راستہ روکنے کےلئے ایک بار پھر افغانستان کو میدان کارزار بنانے کی کوشش کریں گے تو وہ تباہی و بربادی کے ایک نئے باب کا آغاز کریں گے۔

نیٹو کو یہ دعویٰ کہ افغانستان میں جنگ دراصل دہشت گردی سے نمٹنے کی جہدوجہد ہے، بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔ عالمی دہشت گرد گروہوں کا اصل مرکز اس وقت مشرق وسطیٰ ہے۔ یا امریکہ اور یورپ کی غیر منصفانہ اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان ملکوں میں آباد مسلمان نوجوانوں کے بعض گروہ جہادی پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر یورپی و امریکی عوام کی سلامتی کےلئے خطرہ بن رہے ہیں۔ یہ صورتحال تبدیل کرنے کےلئے امریکہ اور یورپ کو جنگ کو پھیلانے کی بجائے اسے سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی کے حوالے سے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ نئی امریکی حکومت نے اسلحہ برآمد کرنے کےلئے تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جو اقدامات کئے ہیں، انہی کا نتیجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے رجحان میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تصادم اور جنگ کے حالات کسی طرح بھی یورپ اور امریکہ کےلئے مستقل امن کا پیغام ثابت نہیں ہو سکتے۔

افغانستان کے بارے میں امریکہ اور نیٹو کی پالیسی میں تبدیلی اور اس حوالے سے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ سے اسلام آباد کےلئے خارجی اور داخلی محاذ پر سنگین چیلنجز سامنے آئیں گے۔ چند روز قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر مشترکہ اعلامیہ میں بھی پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس طرح امریکہ ، بھارت اور یورپ کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سفارتی گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اس نئی صورتحال میں کسی واضح حکمت عملی اور اپنا طرز عمل متعین کرنے کا اشارہ نہیں دیا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے بیان کے بعد اب یہ ضرورت زیادہ شدت سے محسوس کی جائے گی کہ اسلام آباد پوری صورتحال کا صحیح تناظر میں جائزہ لے کر واضح اور محتاط پالیسی اختیار کرے تاکہ یہ اپنے علاقائی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2788 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali