خاموشی کی تحریک


ایک  دوست نے  کل سوال کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے، کچھ لکھا کیوں نہیں؟ سادی سی بات تو یہی ہے کہ کچھ کہنے کو ہی نہیں۔ پچھلے دو دن کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ایک جنگ کا سا سماں ہے، فوجیں آمنے سامنے ہیں، نوحہ گری کے مقابلے جاری ہیں، ماتم بھی چل رہا ہے اور ساتھ ہی  دل خوں آشامی پر بھی آمادہ ہے ۔ ایسے میں مجھ جیسے لوگ درمیان میں کھڑے ہیں اور کبھی دوڑ کر ایک جانب سے بڑھنے والا ہاتھ روکتے ہیں اور کبھی دوسری جانب چیختے  حلق کو پانی کی چھاگل تھماتے ہیں۔ایسے میں  اگر میری بے وقعت سی رائے کی کوئی اہمیت ہے  اور کسی کو خاص طور پر اس میں کچھ  دلچسپی  محسوس ہوتی ہے تو میں  تو یہ اعتراف ہی کر سکتا ہوں کہ  میں کوئی روایتی طرز کا عاشقِ رسولﷺ نہیں۔ یہ اعتراف  اہم ہے کیوں کہ اس پر آنے والا ردعمل  ہمارے سماج کی نبض کی طرح ہے۔ جب عشق و  عاشقی  اور توہین و اہانت ذاتی  جذبات  سے آگے بڑھ کر  ا یک سماجی بیانیہ ٹھہریں  اور پھر  اپنا  سفر جاری  رکھتے ہوئے  سیاست کے ساتھ گڈمڈ ہو جائیں  تو سوال  اٹھنا چاہئے کہ عشق آخر ہے کیا؟ ایسے میں شروعات اپنے آپ سے ہی کی جا سکتی ہے۔

 میں اپنے اندر محبت کے کچھ مبہم سے پیمانوں پر تخمینہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں تو رسول اللہ ﷺکے لئے اپنے جذبات کو ’محبت‘ کا نام دے سکتا ہوں۔  اس  محبت کی ماہیت کیا ہے؟ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ یہ مجھے ’معقول‘ فکر اور عمل پر ابھارتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کوئی ایسا دیوانہ وار جذبۂ سرشاری نہیں جو  مجھے کسی بھی صورت میں اپنے آپ سے باہر کر دے۔ اگر یہ کوئی ایمانی کمزوری ہے تو میں بے بس ہوں۔ لیکن شاید میری ذات اس قسم کے جذبۂ سرشاری وغیرہ کے قابل ہی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ روضۂ  رسول ﷺ پر کھڑے ہوئے بھی میرے ذہن میں محبت اور ہیبت کا ایک ملا جلا جذبہ تو تھا لیکن اس سے آگے کی جذباتی منزلوں سے میری شناسائی نہیں۔ میرے ذہن میں یہی تھا کہ نبی پاکﷺ کی آرام گاہ کے سامنے میری اپنی ذات کا کتھارسس زمان و مکان کا محتاج تو نہیں، سو یہاں ایسا کیا ہے جسے میں تعقلی پیمانوں پر جانچ سکتا ہوں؟ ایک  ’معقول‘ عبادت یا ایک ’غیرمعقول‘ عشق؟ اس  سنہری جالی کو چھونے والے یہ سب لوگ کیا  متنوع جذبات نہیں رکھتے؟  میں سوچ رہا تھا کہ انہیں  کیا کسی ایک لفظ میں قید کیا جا سکتا ہے جو  جذبات کے اس سارے تنوع کو اپنے اندر سمو لے؟  کیا میں آگے بڑھوں اور جالی کو چھو کر دیکھوں؟ چھونے سے کیا ہو گا؟  لمس میں ایسا کیا ہے جو خیال میں نہیں؟ اگر  لمس کے بعد دل میں کوئی جذباتی کیفیت پیدا ہی نہ ہوئی تو کیا میرا دل مردہ ہے؟  لیکن یہ سرد مہری تو نہیں ،  کچھ   ناملفوظ سی  کیفیت تو ہے، اسے کیا نام دیا جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے میں عقل اور دل کی دوئی میں واضح طور پر دل کا منکر نہیں لیکن میرا دل مجھے کبھی عقل کا دامن چھوڑنے پر مجبور ہی نہیں کرتا یہاں تک کہ کبھی دور کھڑا ہو کر کوئی جھانسہ دینے میں بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ بے چارہ ناکام عاشق۔ کبھی عقل کو پھسلا کر  خود کشی پر آمادہ نہیں کر سکتا۔  گمان  ہے کہ ہمارے سماج میں بہت سے لوگ  کچھ اسی قسم کی ملی جلی کیفیت رکھتے ہیں لیکن اب ہمارے سماج میں اسے ظاہر کرنا بھی تہمتِ جفا  کے بغیر ممکن نہیں۔

ذاتی نوعیت کی  یہ بات چیت اس لئے ضروری تھی کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون کس درجے کی موضوعیت کے ساتھ سماج تک اپنی آواز پہنچانے پر مجبور ہے۔ یہی موضوعیت ہمارے اپنے اپنے تناظر قائم کرتی ہے۔ میرا  مخصوص تناظر ایک تیسرا تناظر ہے اور  بظاہر اقلیتی ہے۔ جب میں ان حالات میں اپنے وجدان کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے اندر جھانک کر اپنے محبت کے دعووں کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ یہ دعوے مذہب پسندی کے بھی ہو سکتے ہیں اور لبرل ازم کے بھی، انسان دوستی کے بھی اور خدائی حکم کی اطاعت کے بھی۔ آسیہ بی بی، سلمان تاثیر، ممتاز قادری اب ہمارے لئے محض علامات سے زیادہ نہیں۔ کسی بھی سماج میں المیے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور آنے والے دنوں میں یہ سب علامات ہمارے تجزیوں کے لئے ایک المیاتی تناظر فراہم کریں گی۔ تاثیر اور قادری  اب  ایک ناگزیر دوئی  میں پرو دئیے گئے ہیں  اور کسی بھی دوئی کی طرح ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، ایک دوسر ے کے معانی کو  مکمل کرتے ہیں۔
قریب نو برس پر پھیلے ہوئے  اس  تیسرے تناظر کا فوری اور پہلا سبق یہی ہے کہ ہمیں اب ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ سکوت کی تحریک ہے، خاموش رہنے کی پکار ہے،  جذبات کو ظاہر کرنے سے زیادہ ان پر غور کی ضرورت ہے۔ کچھ دن پہلے اپنے ہندوستان سے اپنے ایک عزیز دوست کے لئے وہاں کے مخصوص حالات میں  لکھی گئی ایک انگریزی عبارت کا ترجمہ کیا تھا  جو  اس تحریک کے منشور کے طور پر   پیش  کرنے کی جسارت کرتا ہوں:

’’اصل  بحران ’وجود‘ کا بحران ہے، ایک ایسا بحران  جو جبلی محرکات اور  عدم برداشت کے تکنیکی اصولوں کی پیداوار ہے۔ عدم برداشت اپنی اصل میں  جبلی محرک اور  برجستگی  کی  صنعت ہے  لہٰذا    جوں جوں  اس کی پیداوار بڑھتی ہے ،  پرسکون سماعت اور  فکر  کی صلاحیت  کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عمل اور پکار کی  جبلت  میں اضافہ ہوتا ہے  اور سماعت کی جبلت  کہیں تہوں میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ہمیں نہ صرف سکوت کے لمحوں بلکہ خاموشی کی  تحریکیں چلانے کی  ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف آس پاس موجود انسانوں بلکہ فطرت  کی آواز بھی سن سکیں۔‘‘

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments