پولیس کے شہید کا حق لینے کا خواہاں استاد قتل کر دیا گیا


بدھ 27 جون کی شام فون آیا کہ شیخوپورہ کے نواحی قصبے فاروق آباد میں شہزاد عبداللہ خان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اب زندگی کی چار دہائیوں سے زیادہ گزار دینے کے بعد موت کے متعلق نظریہ کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ خدا کا نظام سمجھ میں آیا ہے کہ جو دنیا میں آیا ہے اس نے ایک دن واپس بھی جانا ہے۔ مگر کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جن پر دل اب بھی غم سے تھم سا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی موت تھی۔ مثل مشہور ہے کہ سب سے بھاری تابوت وہ ہوتے ہیں جو سب سے ننھے ہوتے ہیں۔ مگر ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ ان لوگوں کے جنازے بھی کم بھاری نہیں ہوتے جن کے ننھے بچے ہوتے ہیں۔

شہزاد میرے دور کے عزیز تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول فاروق آباد کے مقبول اور محترم ہیڈ ماسٹر عبداللہ خان درانی مرحوم کا یہ فرزند خود بھی اسی سکول میں سینئیر ٹیچر کے طور پر تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ نرم مزاج ایسا کہ ہمیں یہی گمان ہوتا تھا کہ مکھی بھی نہیں مار پاتا ہو گا اور اس سے نرمی سے درخواست کرتا ہو گا کہ محترمہ آپ کہیں دوسری جگہ چلی جائیں ورنہ میں خود چلا جاؤں گا۔ شہزاد کے چار بچے ہیں۔ اٹھارہ برس کا حذیفہ، سولہ برس کی مریم، تیرہ برس کی زرتاشیہ اور چھے برس کا ابراہیم۔

شہزاد کے بہنوئی طاہر اشفاق الرحمان پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور سمن آباد لاہور میں تعینات تھے۔ ڈیوٹی کرتے ہوئے 2010 میں وہ اور دو کانسٹیبل دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بن گئے۔ طاہر کا ایک ہی بیٹا ہے جو کہ ذہنی طور پر معذور ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے طاہر کے اکلوتے بھائی طارق سیف الرحمان نے اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا اور اپنے شہید بھائی کی بیوہ اور ان کے اکلوتے ذہنی معذور بیٹے کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہا۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ محکمہ پولیس نے اس معاملے میں اپنے شہید کی بیوہ اور بیٹے کی رتی برابر مدد نہ کی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے برعکس فوج کا رویہ بہت ہی اچھا ہے اور وہ اپنے شہیدوں کے اہل خانہ کی جی جان سے مدد کرتی ہے۔

اس موقعے پر شہزاد نے اپنی بیوہ بہن اور اس کے ذہنی معذور اکلوتے بیٹے کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کے حق کے لئے جد و جہد کی۔ بالآخر سات برس کی مقدمے بازی اور بے شمار دھمکیوں کا پامردی سے سامنا کرنے کے بعد پنچایت کے فیصلے کے ذریعے عید سے چند دن پہلے فیصلہ ہوا اور طارق اپنے شہید بھائی کی بیوہ اور بیٹے کو ان کا حصہ دینے پر تیار ہو گیا۔ تصفیہ کرنے کی خاطر شہزاد نے اپنی بہن کے جائز حق سے دستبردار ہوتے ہوئے کم حصہ قبول کیا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے۔

ہفتہ 27 جون کی شام شہزاد اپنے چھے برس کے بیٹے ابراہیم اور اپنی چار برس کی بھانجی کو لے کر ان کو گھر سے کچھ دور چوک پر لگے جھولے دلوانے گیا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد ننھا ابراہیم حواس باختہ دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ بازار میں پٹاخے چل رہے تھے، وہ شاید بابا کو لگ گئے ہیں اور وہ گر گئے ہیں۔ بڑے بیٹے حذیفہ کو معاملہ سمجھنے میں دیر نہ لگی اور وہ دوڑتا ہوا جھولوں کی طرف گیا۔

شہزاد عبداللہ خان خون میں لت پت زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ ان کو پستول سے نو گولیاں ماری گئی تھیں۔ پہلی گولی گھٹنے پر لگی تھی اور بعد کی گولیاں زمین پر گرنے کے بعد ان پر برسائی گئی تھیں۔ وہاں مرحوم کا بھائی بھی موجود تھا جو اس سارے واقعے کا عینی شاہد تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں طارق سیف الرحمان اپنے تین بیٹوں کے ساتھ آیا اور اس کے حکم دینے پر اس کے بیٹے طلحہ عظام اللہ اور قدرت اللہ شہاب نے شہزاد مرحوم پر فائرنگ کی۔

ملزم طلحہ عظام اللہ رمضان میں اعتکاف پر بیٹھا تھا۔ اس کی واپسی پر عید کے فوراً بعد یہ کارروائی کی گئی۔ اس کا تعلق ایک ایسی جہادی مذہبی تنظیم سے بتایا جاتا ہے جو کہ فلاحی کاموں میں بھی معروف ہے۔ اب یہ سب باپ بیٹے اپنے گھر بار کو تالا لگا کر مفرور ہو گئے ہیں۔

ہم نے شہزاد مرحوم کے جنازے میں شرکت کی۔ اتنا بڑا جنازہ ہم نے بہت کم دیکھا ہے۔ حالانکہ بارش ہو رہی تھی مگر لگتا تھا کہ پورا فاروق آباد ہی امنڈ آیا ہے۔ علم ہوا کہ مرحوم شہزاد کی شفیق شخصیت کے باعث ان کے اپنے بھی بہت دوست احباب اور شاگرد ہیں مگر ان کے والد ماسٹر عبداللہ مرحوم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آدھا فاروق آباد ان کا شاگرد ہے اور ان سے محبت و عقیدت کے جذبات رکھتا ہے۔

پولیس نے اپنے شہید سب انسپکٹر کی بیوہ اور معذور بیٹے کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ الٹا ان کی جائیداد پر قبضہ ہونے کی حق تلفی سے انہیں بچانے میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ لیکن کیا ہم محکمہ تعلیم سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک سینئیر استاد کی بیوہ کو ملازمت فراہم کرے گا تاکہ مرحوم کے گھرانے کی دال روٹی کا سلسلہ تو چلتا رہے۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پنچایت کے ذریعے خوش اسلوبی سے سمجھوتہ ہو جانے کے بعد بھی یہ قتل کرنے کا قاتلوں کو کیا فائدہ ہوا؟ وہ اپنے شہید بھائی کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لالچ میں اپنی جائیداد سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ خود یا تو مفرور کی زندگی گزاریں گے یا پھر جیل میں برسوں اپنے مقدمے کا فیصلہ ہونے کا انتظار کریں گے۔ کھلے بازار میں قتل کرنے کے باعث عینی شاہدین کی موجودگی میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان کو سزائے موت ہو گی اور ان کی اپنی جائیداد بھی مقدمے بازی کی نذر ہو گی۔ ایک معمولی سے لالچ نے دو گھر اجاڑ دیے۔

لیکن مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ شہزاد کی بیوہ اور بچوں، اور شہید سب انسپکٹر طاہر اشفاق کی بیوہ اور بیٹے کو بھی اب جان کا خطرہ ہے اور وہ اپنے گھر میں محصور ہوئے بیٹھے ہیں۔ قاتل آزاد پھر رہے ہیں اور پولیس ان کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں کر رہی ہے بلکہ الٹا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ قاتلوں کو تلاش کرتے رہیں اور کوئی خبر ملتی ہے تو ہمیں مطلع کریں۔

انسانی جان اس ملک میں کتنی سستی ہے اور انصاف کا نظام کتنا ناکارہ ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar