عرفان مسیح خدا کو کیوں پیارا ہوا؟


عرفان مسیح مر گیا!

اسے مرنا ہی تھا۔

وہ اس لئے نہیں مرا کہ اس روز عمرکوٹ کی اس بند سیوریج لائن کو کھولنے کی کوشش میں اس پر زہریلی گیسیں اثر کر گئیں۔

وہ اس لئےنہیں مرا کہ اسے بروقت طبی امداد نہ مل سکی۔

وہ اس لئے بھی نہیں مرا کہ جب وہ آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو کسی نے جو سلنڈر اس کے منہ کو لگایا وہ آکسیجن سے خالی تھا۔

ہمارے ہاں شہرشہر، قریہ قریہ پھیلے ان جمعداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

نہ ان کا کوئی چہرہ ہوتا ہے نہ کوئی آواز۔

کون ہے جو ان جمعداروں کی موجودگی کا ادراک رکھتا ہو؟

کیا کبھی کسی نے گھڑی بھر کو سوچا ہے جمعدار ہمارے لئے کس قدر مشکل کام کرتے ہیں؟

کون ہے جو انسانی فضلےاور دیگر غلیظ ترین آلائشوں سے بھری زیر زمین سیوریج لائنیں رواں رکھتا ہے؟

ان میں جب کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے تو کون ہے جو گٹروں میں اتر کر اسے دور کرتا ہے؟

جن مقامات پر ہمیں نظر ڈالتے بھی گھن آتی ہے اس میں اتر کر ہی تو شروع ہوتا ہے ان جمعداروں کا کام!

اور اگر وہ اپنا کام نہ کریں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

کوڑے کے انبار لگ جائیں گے، گٹر ابل پڑیں گے، تعفن پھیل جائے گا، بیماریاں پھوٹ پڑیں گی۔

اتنا سب کرنے کے بعد، بجائے یہ کہ ان کے ہم جنس ان کے شکر گزار ہوں یا کم از کم ان سے ہمدردی رکھیں، ان کی مشکلات کا ادراک کریں، لوگ ان سے گھن کھاتے ہیں۔

وہ انسانیت کے اس نچلے درجے پر فائز کر دیے گئے ہیں جہاں کوئی ان سے بات کرنا تو درکنار، ان کی بابت سوچتا بھی نہیں۔

دور مت جائیے، اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں آپ خود کس قدر ان کی موجودگی سے اور ان کو درپیش مشکلات سے آگاہ ہیں؟

عرفان مسیح سوچنے والا ذہن رکھتا تھا۔ اس نے جب پہلی دفعہ ”انسانی حقوق“ کے الفاظ سنے تو وہ سوچا کرتا تھا کہ کیا یہ حقوق ہمارے لئے بھی ہیں۔ وہ منتظر تھا کہ شاید کبھی کوئی سیاستدان یا کوئی غیر سرکاری تنظیم یا کوئی میڈیا والا ان کے حقوق کے لئے بات کرے گا۔ جب یہ انتظار طویل ہو گیا تو اسے لگا جیسے انہیں کوئی انسان ہی نہ سمجھتا ہو۔ شاید وہ انسان سے کم تر کوئی مخلوق ہوں، انسانوں اور جانوروں کے درمیان کی کوئی تخلیق!

اس کا ایک عزیز جعلی کاغذات بنوا کر کینیڈا میں سیاسی پناہ لے چکا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا اس کے کچھ مخالفین اس پر توہین کا جھوٹا مقدمہ بنوا کر اسے مروا ہی نہ دیں۔ وہ ایک دفعہ عرفان کو بتا رہا تھا کہ عرصہ ہوا ترقی یافتہ دنیا کو اس بات کا ادراک کیے ہوئےکہ گٹروں میں اتر کر، انسانی فضلے سے بھری سیوریج لائینیں صاف کرنا انسانیت کی تذلیل اور اس کی معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ اب جہاں تک ممکن ہو وہ یہ کام مشینوں سے لیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کسی کو ان لائنوں میں اتارے بغیر چارہ نہ ہو تو انہیں ایسا لباس اورجوتے پہنائے جاتے ہیں جو سر سے لے کر پاؤں تک اچھی طرح انہیں ڈھانپ لیں۔ ماسک پہنتے ہیں کہ زہریلی گیسیں اور تعفن سے محفوظ رہ سکیں۔ ان کی ویکسینیشن کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی بیماری کا شکار نہ ہو جائیں۔ کسی بیماری، معذوری یا حادثے کی صورت میں بیمے کی رقم دلوائی جاتی ہے۔ تنخواہ کام کی سختی کی نوعیت سے میل کھاتی ہے اور ایک سینیٹری ورکربھی ایک معقول زندگی گزار سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرہ ان سے گھن نہیں کھاتا اور انہیں اپنا ایک لازمی جزو تصور کرتا ہے۔ ایسے تمام ملک سمجھتے ہیں کہ سینیٹیشن پر خرچ کیا ہوا ایک روپیہ بھی ضائع نہِیں جاتا بلکہ جس قدر ان معاملات میں زیادہ خرچ کیا جاتا ہے، اسی قدر قوم صحتمند ہوتی ہے۔ اور جو قومیں اس خرچ سے پہلو تہی کرتی ہیں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار رہتی ہیں۔

عرفان کو تو یہ سب باتیں خواب ہی لگتی تھیں۔ اپنے ہاں تو عالم یہ ہےکہ معاشی تنگیاں اور جسمانی بیماریاں تو ایک طرف، اس غلاظت میں رہ رہ کر، اور دوسرے لوگوں کا اپنے بارے میں نفرت آمیزرویہ دیکھ دیکھ کر، یہ جمعدار تو نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو انتہائی بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں اور ہر وقت دوسروں کے مقابل ایک عجیب طرح کی احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کسی پبلک مقام پر چلے جائیں تو خود بھی کرسی یا بنچ پر بیٹھتے جھجھکتے ہیں اور فرش پر ہی جا ٹکتے ہیں۔

غربت اور غلاظت کا شکنجہ ان کی ایک کے بعد دوسری نسل کو پھانسے رکھتا ہے جس کو توڑنا کم از کم ان کے بس کی بات تو نہیں ہوتا۔

اور پھر آئے روز وہ ان گٹر لائنوں میں حادثوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اخبار بھی ایسی خبروں کو شائع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ عمر کوٹ کی اس گٹر لائن میں تین سال پہلے بھی حادثے کا شکار ہو کر دو جمعدار موت کے منہ میں چلے گئے تھے لیکن اس سے بھی کچھ نہیں بدلا تھا۔

وہ گٹر لائن رواں رہنے کے لئے پھر کسی جان کا خراج مانگ رہی تھی اور اب شاید باری تھی عرفان کی!

گٹر لائن نے کیا کھلنا تھا، زہریلی گیسوں کے سبب عرفان بےہوش ہو گیا۔ وہ مضبوط قوت ارادی کا حامل شخص تھا۔ کسی نہ کسی طرح سانس کی ڈوری تھامے ہوئے تھا۔ جب بھی سانس اکھڑنے لگتی، وہ اپنی ہمت بندھاتا کہ اسے ابھی اور جینا ہے۔ ایسا سوچتے ہوئےوہ اپنی ماں، ارشد بی بی، کو بھی چشم تصور میں لے آتا تھا کہ وہ اس کے لئے بھی زندہ رہنا چاہتا تھا۔ اس کی آنکھیں بند اور دماغ ماؤف تھا لیکن وہ اب بھی اپنی آس پاس کی آوازیں سن سکتا تھا۔ ہسپتال پہنچ کر تو وہ اور بھی پر امید ہو گیا تھا کہ اب وہ محفوظ ہاتھوں میں تھا اور سب ڈاکٹر، نرسیں مل کر اسے موت کے منہ سے باھر نکال لائیں گے۔ اسی اثنا میں اسے ایک شناسا آواز سنائی دی جو شاید کسی ڈاکٹر سے التجا کر رہی تھی اسے بچانے کے لئے۔ اور پھر اس نے جو سنا، لمحے بھر کو تو اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ ڈاکٹر اسے غلاظت میں لتھڑا دیکھ کر اسے ہاتھ لگانے سے انکاری تھا۔ ڈاکٹر کو یہ بھی ڈر تھا کہ غلاظت اس کا روزہ خراب کر دے گی۔ یہی وہ گھڑی تھی جب عرفان کی ہمت جواب دے گئی۔ اس نے موت سے مزید لڑنے کی کوشش ترک کر دی۔ اب تو چشم تصور میں کھڑی اس کی ماں بھی اسے نہ روک سکی۔ وہ اس تکلیف کو تو سہہ گیا جو دم گھٹنے سے ہوئی تھی اور کسی نہ کسی طور زندگی کی ڈور تھامے، ہسپتال پہنچ گیا تھا لیکن اب اس پر اس معاشرے میں اپنے اصل مقام کی حقیقت آشکار ہوچکی تھی۔ اس حقیقت کا مکمل ادراک ہو جانے کے بعد، عرفان اس کے دکھ کی تاب نہ لا کر مر گیا کہ کسی کے ہاتھوں کا صاف رہنابھی اس جیسوں کی زندگی سے زیادہ ضروری تھا۔

ایسے جینے سے پھر مر جانا ہی بہتر!

اور پھر کاش ڈاکٹر صاحب اس روز روزے کا نام نہ لیتے۔ اپنے عمل سے روزے جیسی پاک عبادت کو زک نہ پہنچاتے۔ روزے میں تو انسان دوسروں کی تکالیف کو محسوس کرنا، ان سے ہمدردی کرنا سیکھتا ہے۔

ہسپتال کے بغل کی مسجد میں مولوی صاحب مقتدیوں کو حضورؐ کا فر مان یاد کروا رہے تھے، بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں روزے میں سوائے بھوک و پیاس کے، کچھ نہیں ملتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).