پانچ جولائی بار بار کیوں آتا ہے


پانچ جولائی 1977 کو ریڈیائی لہروں پر ”میرے عزیز ہم وطنوں“ کی آواز کے گونجتے ہی ملک بھر میں کئی مہینوں سے جاری شورش تھم سی گئی تو سب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والوں کو پکا یقین تھا کہ فوجی وردی میں ملبوس جالندھر کا آرئیں اپنے اس محسن کے، جس نے اس کو کئی قابل، لائق، فائق جنرلوں پر فوقیت دی تھی، خلاف نہیں جا سکتا اور بھٹو کے مخالفین الیکشن کے کالعدم ہونے پر خوش تھے۔ بھٹو کو بھی ایسا ہی یقین تھا کہ فوج کے جنرل اس کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں جو نوے ہزار جنگی قیدی ہندوستان کی قید سے چھڑا لایا تھا اور جس نے ملک کو ایک ایٹمی قوت بنانے کی راہ پر ڈال دیا تھا جس نے ایک ٹوٹے بکھرے ملک کو پھر سے یکجا کرکے دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اقتدار سے معزولی کے بعد جب تک بھٹو عوام کے پاس نہیں گئے تھے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس شخص کے خلاف کئی مہینوں سے جلسے جلوس ہورہے ہیں اور جس کے خلاف عوامی نفرت اپنے انتہا پر بتائی گئی تھی وہ پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہے۔ جب دیکھا کہ انتخابات میں بھٹو کو پہلے سے بھی زیادہ عوامی حمایت و تائید سے دوبارہ اقتدار میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا تو پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ قومی اتحاد کے نو ستارے بھی بھٹو کے اقتدار کے چاند کو گرہن لگتے ہی تاریخ کی تاریک شب میں گہنا گئے۔

کہنے کو تو پانچ جولائی کو یہ قومی نشریاتی رابطے پر کی جانے والی ایک تقریر تھی مگر حقیقت میں یہ تاریخ کا قتل تھا جس نے ایک نسل کو بے آئین رکھا اور ایک نسل کو اپنے ماضی سے جڑنے نہ دیا۔ اس ملک کے دو ٹکڑے دیکھنے کے باوجود آئین توڑنے والے اس بات پر بضد تھے کہ آئین کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کیا ہے۔ آئین کو کاغذ کے ٹکڑے سے ایک دفعہ پھر ملک کا متفقہ سماجی معاہدہ بننے تک گیارہ سال لگ گئے اور اس آئینی اکھاڑ پچھاڑ سے پیدا ہونے والے نقصانات کا ازالہ آج بھی ہو نہیں پایا۔ ملک کو آئینی راستے پر لانے کے لئے ایک پوری اسمبلی کو اصطبل بنا کر گھوڑوں کی بولیاں لگائی گئیں جو اس کے بعد سے ایک مستقل رواج ہے۔ قانون سازی کے لئے منتخب عوامی نمائندوں کے منہ کو ترقیاتی فنڈ کا ایسا خون لگا ہے کہ آج سیاست ایک کاروبار بن چکی ہے جہاں لوگ کروڑوں خرچ کرکے اربوں کمانے کے لئے آتے ہیں۔ ایک آمر کے ذاتی خواہشات کو تحفظ دینے کے لئے آئین کو ایسے تبدیل کر دیا گیا ہے کہ آج اس دستاویز کو حسب منشا استعمال کیا جاتا ہے۔ آئین توڑنے والے آمر کی قبر پر تو فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں جاتا مگر ملک کے بازاروں، عبادت گاہوں، سکولوں اورپارکوں میں ہر دھماکے کی گونج کے ساتھ اس کے زندہ ہونے کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔

میں نے پانچ جولائی کا نتیجہ بننے والی تحریک کو تو نہیں دیکھا اس کے بارے میں صرف پڑھا اور سنا ضرور ہے مگر اس کے بعد ملک کو جمہوریت کے راستے پر واپس لانے کی تحریک برائے بحالی جمہوریت کو دیکھا اور اس میں حصہ بھی لیا۔ میں نے اس اصغر خان کو بھی دیکھا جس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی پر لٹکانے کے لئے اپنے پیٹی بھائیوں کو خطوط لکھتے رہے۔ میں نے مولانا فضل الرحمان کے پچھتاوے کو بھی دیکھا جو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل میں مہرہ بن گئے تھے۔ عبدالولی خان اور نیپ کے زعماء کو بھی ملک کی بے آئینی کو دیگر مسائل پر فوقیت دیتے بھی دیکھا۔ سندھ میں تحریک برائے بحالی جمہوریت کو کمزور کرنے والے بد ترین ڈاکو راج کو بھی دیکھا ۔ میں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی کوڑے کھائی پیٹیں بھی دیکھی ہیں اور ان یتیموں سے بھی ملا ہوں جن کے باپ جمہوریت کی جدوجہد کی تاریک راہوں میں مارے گئے تھے۔ ان تمام واقعات اور حالات کو دیکھتے ہوئے میں اور میرے دور کے تمام لوگ اب بھی پانچ جولائی 1977 کو تاریخ کا ایک المیہ سمجھتے ہیں اور اس کو پھر دہرانے سے خوفزدہ ہیں۔

اس ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو آلہ کار بنا یا گیا۔ جمہوریت اور آئین سے خائف قوتوں کو ہمیشہ ایک اصغر خان دستیاب رہا جس نے طالع آزماؤں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی دعوت دی۔ جب بھی اس ملک میں جمہوری حکومتوں کو ختم کیا گیا تو کرپشن اور بد انتظامی کی ایک لمبی فہرست منظر عام پر لائی گئی اور احتساب کا ڈنڈھورا پیٹا گیا مگر نہ کرپشن ختم ہوئی اورنہ ہی احتساب ہوا ہاں البتہ کچھ نئے لوگوں کو پہلے سے بڑھ کر کرپشن کا موقع ملاجنہوں نے بد انتظامی کے بھی نئے ریکارڈ بنالئے اور نتیجہ یہ ہے کہ آج اس ملک میں بد انتظامی اور کرپشن 1977 کی نسبت کئی درجہ زیادہ ہے۔

جب تک ہمارا یقین آئین اور جمہوریت پر کمزور رہے گا اس ملک میں ہمیشہ پانچ جولائی کے دہرائے جانے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ جب تک ہم اس بات پر ایمان نہیں رکھیں گے کہ ایک ملک کو بندوق نہیں آئین یکجا رکھتا ہے اور حکومت بنانے اور ہٹانے کا ذریعہ بلٹ (گولی) نہیں بلکہ بیلٹ (ووٹ کی پرچی) ہے یہاں آئین اور جمہوریت کی بے توقیری کا خطرہ ہمیشہ رہے گا۔ جمہوریت میں کئی نقائص ہوسکتے ہیں اس میں کوئی برا شخص بھی منتخب ہو سکتا ہے حالیہ برسوں میں کئی ممالک میں ایسا ہوا بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں جمہوریت کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں جمہوریت کو مزید موقع دیا جائے۔

پانچ جولائی بار بار اس لئے آتا ہے کہ یہاں جمہوری نظام پر لوگوں کواب بھی مکمل یقین نہیں اور اس نظام میں منتخب ہو کر آنے والے لوگوں پر بھروسہ نہیں۔ یہاں حکومت جمہوری انداز میں چلانے کے بجائے شاہی انداز میں چلائی جاتی ہے جس میں افراد اداروں پر حاوی ہوتے اور ادارے کہیں جواب دہ نہیں ہوتے۔ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں صرف اپنے سفری اخراجات اور تنخواہیں لینے جاتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کا کام قانون سازی نہیں بلکہ ان کا زیادہ وقت اپنے عزیز و اقارب کی نوکریاں، ترقیاں اور تبادلے کروانے میں لگ جاتا ہے۔ حکمران پارلیمنٹ میں جانے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں اور پارلیمان صرف تقریری مقابلوں اور مباحثے کی جگہ بن جاتی ہے۔

جمہوریت میں چاہے لاکھ برائیاں سہی، آئین میں لاکھ سقم سہی لیکن عام آدمی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت بنا بھی سکتا ہے اور ختم بھی کر سکتا ہے۔ عام آدمی اپنے نمائندوں کے ذریعے اس آئین کو بدل بھی سکتا ہے۔ جہاں جہاں عام آدمی کو اس بات کو یقین ہے وہاں جمہوریت کی بساط کوئی نہیں لپیٹ سکتا اور ہمارے ہاں پانچ جولائی اس لئے بار بار آتا ہے کہ عام آدمی کو اس بات کا یقین نہیں کہ حکومت اس کے ووٹ سے بنتی ہے اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan