حبس کی سازش میں ۔۔غم بہ دل، شکر بہ لب، ترنگل بہ دست


منظر یہ تھا کہ کھلیان کے گرد مختلف درختوں اور جھاڑیوں کے بے نام سایوں کی اوٹ لیے کسان مرد و خواتین بیٹھے ہوتے۔ حبس ایسی کہ لگتا کسی بھٹی کے قریب سانس لے رہے ہوں ۔ پسینے سے لشکتی چمکتی کسانوں کی چمڑی یوں لگتا کسی دھات کی بنی ہوئی ہے۔ ماتھے سے آنے والا پسینہ بھنووں کی رکاوٹ کو روندتے ہوئے آنکھوں میں کڑواہٹ گھولتا تھا۔

ہاتھوں سے آنکھوں کی اس کڑواہٹ کو دور کرنے والے کسان فورا توجہ کھلیان کی جانب مرکوز کر لیتے جس کے سارے فرش پر بھوسہ اور دانے ابھی الگ نہ ہوئے تھے۔ کسان مرد وخواتین کے ہاتھوں میں ترینگل تھے اورانہیں ہوا کے جھونکے کا انتظار تھا۔

جیسے ہی ہوا کا جھونکا آتا یہ کسان دوڑ کر کھلیان میں زور زور سے ترنگل کی مدد سے بھوسہ اور دانے فضا میں اچھالتے۔ بھوسہ کہ “وزن میں ہلکا” تھا ہوا سے اڑ کر دور ہو جاتا اور دانے زمیں پر عمودی گرتے۔ دو تین ترنگل چلاتے ہی بھوسے کی سہولت کار حبس پھر سے سازش کا تانا بانا بن کر سانس لینا بھی عذاب بنا دیتی۔ کسان اپنی اپنی پناہ گاہوں کی جانب لوٹتے ۔ لوٹتے ہوئے ان کی گرفت ترنگلوں پر کمزور ہوتی۔ ترنگل کسان کے پیچھے گھسٹتے ہوئے تین انگلیوں سے زمیں پر لکیریں کھینچتے آتے۔

کبھی تو کسانوں کی پناہ گاہ میں پہنچتے ہی ہوا کا کوئی جھونکا آ جاتا اور کسان کھلیان کی جانب واپس دوڑتے اور کبھی پناہ گاہوں یعنی جھاڑیوں کے بے نام سے سایوں میں بیٹھے رہتے اور یوں لگتا ہوا کا آخری جھونکا آئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ ایسے میں پسینے کی کڑواہٹ کے پس منظر میں یہ صدیاں کھلیانوں کو گھورتی کسان آنکھوں میں واضح نظر آتیں۔

70 برس بیت گئے۔ بھوسہ اور دانے کھلیان میں پڑے ہیں۔ حبس کے مقاصد ایک قراداد سے واضح ہوئے۔ لیکن وہ ایک قراداد ٗ حبس کو اس قدر سہارا دے جائے گی خود حبس کو اندازہ نہ تھا۔

کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ترنگل والے۔۔۔ ابھی تین چار ترنگل فضا میں چلا کر آئے ہی تھے کہ ہوا کا ایک اور جھونکا آ گیا۔ اور کبھی وطن کی جھاڑیوں کےبے نام سائے میں بیٹھے ایسے لگا جیسے صدیاں بیت گئیں ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ 70 برس بیت گئے بھوسہ اور دانے الگ نہیں ہو سکے۔

حبس کی سازش کے سامنے یہ ترنگل اٹھائے کسان گنتی میں چند ہی تو ہیں لیکن ان چند سے بھوسہ اور حبس کچھ اس طور خوفزدہ ہیں کہ ہوا کا جھونکا اور ترنگل دیکھتے ہی اپنی بقا کی جنگ کے لیے اخلاقیات سمیت سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

پھر سے ہوا بند ہے۔ شدید حبس ہے۔ یوں لگتا ہے ہوا کے آخری جھونکے کو آئے صدیاں بیت چکی ہیں۔

70 برسوں میں وطن کی جھاڑیوں کے بے نام سائے میں بیٹھے ترنگل اٹھانے والے یاد آ رہے ہیں۔

سید سجاد ظہیر، محمود الظفر، حمید اختر، فیض احمد فیض، ایم ڈی تاثیر، راج آنند، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، کرشن چندر، ڈاکٹر رشید جہاں، امرتا پریتم، احمد فراز، سبط حسن، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، عاصمہ جہانگیر۔۔۔

غم بہ دل، شکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے

 جب تلک ساتھ ترے عمرِ گریزاں چلیے

رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ ملے

 سوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے

نذر مانگے جو گلستاں سے خداوندِ جہاں

 ساغرِ مے میں لیے خونِ بہاراں چلیے

جب ستانے لگے بے رنگیِ دیوارِ جہاں

 نقش کرنے کوئی تصویرِ حسیناں چلیے

کچھ بھی ہو آئینۂ دل کو مصفّا رکھیے

 جو بھی گزرے، مثلِ خسروِ دوراں چلیے

امتحاں جب بھی ہو منظور جگر داروں کا

 محفلِ یار میں ہمراہِ رقیباں چلیے

 

 

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik