کاش انہیں ضیا مل جائے !


اس کرہِ ارض کی آبادی چھ ارب نوے کروڑ ہے۔اس میں ایک ارب ستاون کروڑ مسلمان ہیں۔ یعنی دنیا کے ہر چوتھے شخص کی وابستگی اسلام سے ہے۔ باون ممالک اور خطوں میں اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ اس دنیا کے تریپن فیصد مسلمان پندرہ ممالک میں بستے ہیں۔

انڈونیشیا کی پچیس کروڑ آبادی میں سے چھیاسی فیصد کلمہ گو ہیں۔انیس سو پچھتر میں قائم ہونے والی انڈونیشین علما کونسل شرعی قوانین کے نفاز میں حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔دو ہزار چھ میں انڈونیشیا میں چھ مذاہب کو سرکاری عقیدہ تسلیم کیا گیا۔اسلام ، کیتھولک ازم، پروٹسٹنٹ ازم ، بدھ ازم ، ہندو ازم اور کنفیوشس ازم۔انڈونیشیا کے پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چھپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔

انڈونیشیا کے ہمسایہ ملک ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے۔سیکولر عدالتوں کے ساتھ ساتھ شرعی عدالتی نظام بھی کام کرتا ہے۔ملیشین وفاق میں شامل کئی ریاستوں میں قانون سازی کا ماخذ شریعت ہے۔وفاقی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اور دو سو اٹھانوے اے کے تحت توہینِ مذہب کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ ہے۔

ملیشیا سے ذرا پرے آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا مسلمان ملک بنگلہ دیش ہے۔پندرہ کروڑ میں سے تراسی فیصد آبادی کلمہ گو ہے۔انیس سو ترانوے میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے ایک قانونی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جس کے تحت پاکستان کی طرز پر توہینِ قرآن و رسول پر عمر قید اور سزائے موت تجویز کی گئی۔لیکن یہ بل مسترد ہوگیا۔اس وقت بنگلہ دیشی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اے کے تحت توہینِ مذہب پر پانچ برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

افغانستان کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سن دو ہزار چار میں نافذ ہونے والے آئین کے تحت عدالتیں جرم کی سنگینی کے حساب سے توہینِ مذہب پر سزائے موت تک دے سکتی ہیں۔لیکن اگر مجرم سزا سنائے جانے کے تین روز کے اندر اظہارِ پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہوسکتی ہے۔

ایران کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور ملکی قوانین کا ماخذ فقہِ جعفریہ ہے۔ایرانی پینل کوڈ میں توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی شق نہیں بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت ، توہینِ مذہب اور اکثریتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر سزاؤں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان میں سے کسی جرم پر بھی اس کی سنگینی کے اعتبار سے سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔

سعودی عرب کی لگ بھگ سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔سعودی پینل کوڈ حنبلی مکتبہِ فکر کے تحت بنائے گئے شرعی قوانین ، فتاوی اور شاہی فرمانوں اور ان کے تحت وقتاً فوقتاً بنائے جانے والے ذیلی ضوابط کا مجموعہ ہے۔توہینِ مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے۔ جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جرمانے ، کوڑوں ، قید یا موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے۔

سعودی ہمسائے یمن کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔اسلام سرکاری مذہب ہے۔توہینِ مذہب کے مقدمات کا فیصلہ شرعی قوانین کے تحت کیا جاتا ہے اور جرم کی سنگینی کے اعتبار سے کوڑوں اور قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام سرکاری و نجی سکولوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم لازمی ہے۔توہینِ مذہب پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔لیکن انیس سو ترانوے میں وفاقی سپریم کورٹ کی دی گئی رولنگ کے مطابق شرعی سزاؤں کا اطلاق غیر مسلمانوں پر نہیں ہوگا۔

کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے۔ لیکن توہینِ مذہب کا معاملہ انیس سو اکسٹھ کے پریس اینڈ پبلیکشنز لا کا حصہ ہے۔ کوئی بھی تحریر و تقریر جس سے مذہب یا مقدس شخصیات کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس پر جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اردن کی پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت تین برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

ترکی کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں پچاسی فیصد مسلمان ہیں۔ ملک پر پچھلے دو ادوار سے اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی قانون نہیں ہے۔ البتہ ترک پینل کوڈ میں دو ہزار پانچ میں شامل کئے گئے آرٹیکل تین سو ایک کے تحت ترک قوم اور اس کی اقدار، ریاست، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کی ہتک پر چھ ماہ سے دو برس تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

مصر کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام نجی و سرکاری سکولوں میں اسلامک سٹڈیز لازمی مضمون ہے۔ ہر مصری شہری کے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بھی ہے۔ جامعہ الازہر کی اسلامک ریسرچ کونسل مذہبی امور پر حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کونسل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مذہبی کتاب شائع نہیں ہوسکتی۔ سن دو ہزار چھ میں بننے والے توہینِ مذہب کے قانون کے تحت چھ ماہ تا پانچ برس قید اور ایک ہزار پاؤنڈ جرمانے تک سزا ہوسکتی ہے۔

الجزائر کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ انیس سو نوے کے ایک قانون کے تحت وزارتِ مذہبی امور ایسی کسی بھی شے کی اشاعت کو روک سکتی ہے جس سے توہین مذہب کا پہلو نکلتا ہو۔ پینل کوڈ کے تحت مذہبی اہانت پر دو سال تک قید اور پانچ لاکھ دینار تک سزا ہے۔

نائجیریا کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی میں پچھتر فیصد مسلمان ہیں۔ ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شرعی و سیکولر عدالتی نظام کام کرتا ہے۔ پینل کوڈ کی شق دو سو چار کے تحت توہینِ مذہب کی سزا دو برس تک ہے۔

محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔

سوڈان کی چار کروڑ تیس لاکھ آبادی میں ستر فیصد مسلمان ہیں۔کرمنل ایکٹ کے سیکشن ایک سو پچیس کے تحت توہینِ مذہب کے مجرم کو جج جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے جرمانے ، قید یا چالیس کوڑوں کی سزا دے سکتا ہے۔

پاکستان کی سترہ کروڑ آبادی میں مسلمان ستانوے فیصد ہیں۔ پاکستان کے پینل کوڈ کی دفعہ ایک سو تریپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔ دفعہ دو سو پچانوے کے تحت مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے اے کے تحت زبان یا قلم سے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید ، جرمانے یا اشاعت شدہ مواد کی ضبطی ہوسکتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت قرآن سمیت تمام الہامی کتابیں اور رسولِ اکرم سمیت تمام انبیا کی توہین کا احاطہ ہوتا ہے۔

تیس برس تک چار گورنر جنرل ، چار فوجی و غیر فوجی صدور اور آٹھ وزرائے اعظم اور تمام دینی و سیاسی جماعتیں انہی تین دفعات کو احترامِ مذہب کے لئے کافی سمجھتے رہے۔ محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔ (تورات ، زبور اور انجیل سمیت کسی اورالہامی کتاب یا صحیفےپر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا)۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے سی کے تحت رسولِ اکرم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی کم ازکم سزا موت رکھی۔( اس دفعہ کے دائرے میں دیگر انبیائے کرام نہیں آتے)۔

یوں ضیا الحق نے پاکستان کو دنیا کا واحد مسلمان ملک بنا دیا جہاں توہینِ مذہب کا قانون پہلے سے نافذ ہوتے ہوئے بھی الہامی کتابوں اور انبیائے کرام کی توہین کو نئی درجہ بندی میں بانٹ دیا گیا اور شاہ خالد بن عبدالعزیز کے مشیر ڈاکٹر معروف دوالبی ، شریف الدین پیرزادہ ، اے کے بروہی ، ڈاکٹر تنزیل الرحمان ، جسٹس افضل چیمہ اور مولانا ظفر احمد انصاری وغیرہ کی رہنمائی میں مرتب کردہ حدود اور توہینِ مذہب کے قوانین کے مسودات کو الہامی دستاویزات کے مساوی سمجھ لیا گیا۔

چنانچہ ضیا الحق کے بعد آنے والی جس حکومت نے بھی اس قانون کے انتقامی استعمال کو روکنے کے لئے ترمیم کی بات کی اسے شریعت دشمن قرار دیا گیا۔ترمیم تو کجا اس قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کی جانب اشارہ بھی گناہِ کبیرہ اور لائقِ قتل قرار پایا۔زیریں عدالتیں ہجوم کے دباؤ میں آتی چلی گئیں۔اور مقدمے کے دوران یا با عزت بری ہونے کی صورت میں بھی ملزموں کو یا تو قتل ہونا پڑا ، یا چھپنا پڑا یا ملک چھوڑنا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں اکتیس برس سے نافذ توہینِ مذہب کا قانونی مسودہ واقعی الہامی حیثیت رکھتا ہے تو پھر سعودی عرب اور ایران سمیت دنیا کا کوئی اور مسلمان ملک اب تک اسے اپنا ماڈل نا بنا کر اسکے فیوض و برکات سے کیوں محروم ہے۔

تو کیا پاکستان کے علاوہ باقی مسلمان ممالک اور حکومتوں کا عقیدہ کمزور یا گمراہ ہے یا وہ اسلام کی اس تشریح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جسے پاکستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ درست سمجھتا ہے۔

پاکستان میں دنیا کی کل مسلمان آبادی کا صرف گیارہ فیصد بستا ہے۔اس گیارہ فیصد میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور نائجیریا کو بھی نصیب نہیں۔ حلانکہ ان تین ممالک میں مجموعی طور پر ساڑھے باون کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں۔

کاش انہیں بھی کوئی ضیا نصیب ہو جائے ۔کاش ان کی بھی زندگی اور آخرت سنور جائے ۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).