ضیاالحق، فلسطینی، بلیک ستمبر اور اردن


جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو کے بھروسے کا جرنیل تھا،1976ء میں جب اسے آرمی چیف بنایا گیا تو اس سے سنیئر سات جنرل گھر جا بیٹھے تھے اس لئے جب اپنی تقرری کے قریبا ایک سال بعد اس نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو اسے بھٹو کا ہی ایک سیاسی ڈرامہ سمجھا گیا، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اکثریت کا یہی خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ملک میں امن وامان قائم کرے گا اور الیکشن کرا دے گا،جس کے بعد پیپلز پارٹی پھر کامیاب ہو کر اقتدار میں آ جائے گی، عوامی سیلاب کو روکنا حزب اختلاف کے ستاروں کے بس کی بات نہیں تھی وہ مارشل لاء کی گود میں ہی کھیل سکتے تھے اور کھیلے….. اس وقت پاکستان جنگل نہیں بنا تھا، ابھی ایک زرعی ملک تھا اس لئے اصغرآلو ،فضل الرحمن گونگلو، اور پتہ نہیں کسے ٹماٹر کہہ کر چھیڑا جا تا تھا،اب تو شیر ، باندر اور چھچھلہپ کا زمانہ ہے،پاکستان میں ہر طرف خون ہی خون بہتا دکھائی دیتا ہے،

جنرل ضیاء الحق صاحب کے اس ملک پاکستان پرکئی احسان ہیں، انہوں نے اپنے جرنیلوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں روسیوں سے چھینی گئی کلشن کوفوں اور امریکہ سے ملنے والے سٹنگر میزائیل کی فروخت کا کاروبار کیا، ضیا الحق کے ان کارناموں سے کئی کتابیں بھری پڑی ہیں اورتازہ ترین گواہی پاکستان کے معلوم سیاستدان سلیم سیف اللہ کی والدہ کلثوم سیف اللہ کی کتاب my solo flight” ” میں ملتی ہے جس میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ جنرل ضیاء نے سٹنگر میزائیل ایران کو فروخت کر دئیے تھے جب امریکہ کو اس کا پتہ چلا اوراس کی ایک ٹیم اوجڑی کیمپ کے سٹور کا معائنہ کرنے کے لئے آنے لگی تو جنرل صیا الحق کے حکم پر 10 اپریل 1988ء کو اس سٹور میں دھماکہ کر دیا گیا جس سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے تیرہ سو سے زائد شہری ہلاک ہو ئے ، کئی معذور ہو گئے اور برستے میزائیلوں کی افراتفری میں ان دونوں شہروں کی بیشمار لڑکیاں اغواء کر لی گئیں، جن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا،میرا ایمان ہے کہ ضیا ء الحق سمیت اس جرم میں ملوث تمام جنرلوں کو 17 اگست 1988ء کا بہاولپور کا عبرتناک ہوائی حادثہ حاکم اعلی کی عدالت میں لے گیا ہے جہاں ان کے لئے جہنم کی آگ پہلے سے تیار موجود تھی، پتہ نہیں میرا یہ سوچنا درست ہے یا نہیں کہ جنرل اسلم بیگ اور ان کے ہم خیال فوجی افسروں کو باری تعالی نے اس حادثے سے اس لئے بچا لیا تھا کہ وہ شرمناک اعمال میں ضیاء الحق کے شریک کار نہیں تھے،

آج آپ کو ملک بھر میں جو دھماکے اور خود کش حملے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں وہ جنرل ضیاء الحق کی ہی دیں ہیں،جنرل ضیاء نے کلشن کوف کلچر کوعام کیا، لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں آباد کر کے سمگلنگ کے دروازے کھولے، ان افغانوں کا پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنا جانا لگا رہتا تھا، یہ اسلحہ اور روسیوں سے چھینے ہوئے جدید جنگی آلات سمگل کرتے تھے ، یہ اسی سمگلنگ کا فیض ہے کہ پاک فوج کوشمالی علاقے میں ایسے گروہوں سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے،جن کے پاس جدید آلات ،بہت بہتر ہتھیار ہیں جو تربیت یافتہ اور اپنی دھن کے پکے ہیں، ان کے ساتھ ایک بے مقصد لڑائی میں ایک طرف ہمارے بہت قیمتی فوجی ضائع ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ڈرون حملوں میں ہمارے پاکستانی بھائی ہلاک ہو رہے ہیں اور ہم…. پاکستانیوں کے خون سے امریکہ کو اوجڑی کیمپ کے ان سٹنگروں کا حساب دے رہے ہیں جو ملے تو پاکستان کو تھے مگر استعمال کہیں اور ہوئے، پھرجنرل ضیاالحق نے ا سلام کے نام پر کئی جنگجو تنظیمیں بنائیں، قتل و غارتگری کو عام کیا،ملک کے اندرشیعہ سنی فساد کی راہیں ہموار کیں اور دور دور تک دہشتگردی کو پھیلایا،ان کا ایک کرم سندھ میں ایم کیو ایم کا قیام بھی تھا،جس سے جماعت اسلامی تو کراچی سے فارغ ہو گئی تھی، پیپلز پارٹی کو بھی اس کے اپنے قائد بھٹو کے صوبے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ،مگر سب سے بڑا نزلہ سندھ میں آباد پنجابیوں پر گرا، جن کے متعلق پیارے بھائی کا فرمان تھا کہ ’’ ان حرامیوں کی لاشیں بھی یہاں دفن نہیں کرنے دی جائیں گی‘‘ ……وہ پنجابی خوش قسمت تھے جو اس دور کے سندھ میں اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر نکل آئے ، کئی تو ایسے تھے جنہیں سب کچھ چھوڑ کے آنا پڑا،

جنرل ضیاء الحق پربہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا، ان پر لکھی گئی چند کتابیں کے نام درج کر دئیے ہیں، انہیں دیکھیں…. پہلے پڑھنا، سمجھنا اور پھر قلم اٹھانا چاہئے…..اب اگر کسی کی یہ دلیل ہے کہ اسے ذوالفقار علی بھٹواچھا نہیں لگتا تھا اس لئے وہ ضیاء کا حامی ہے تو یہ دلیل درست نہیں…..اور اگر میں یہ کہوں کہ ضیاء نے اُس بھٹو کے ساتھ غداری کی تھی جو میرا لیڈر تھا تو یہ دلیل بھی ضیاء پر تنقید اور اس کی تذلیل کی کوئی معقول وجہ نہیں بنتی……اس پر لعنت کی وجہ بنتا ہے وہ کردار جو اُس نے ادا کیا…..میری گرفتاری 16 فروری 1978ء کومیرے 27 دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہوئی تھی،لاہور،کوئٹہ،پشاور اور راولپنڈی سے سات سات دوستوں کو ایک سال قید بامشقت ہوئی، ہم میں سے جو رہائی کے بعد ملک سے باہر نہیں چلے گئے انہوں نے گیارہ سال بڑی مشکل کے گزارے ہیں، لیکن یہ صرف میرا اور میرے ان ساتھیوں کا ذاتی مسلہ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ پچھلے 35 برسوں میں میں نے جنرل ضیا الحق کو کبھی آج کی طرح برا نہیں کہا ان کا نام ہمیشہ ادب سے لیا ہے، آج معاملہ مختلف ہو گیا ہے،

ضیا الحق برطانوی فوج میں افسر تھے اور دوسری جنگ عظیم میں لڑے تھے، پاکستان بنا تو وہ پاک فوج میں شامل ہو گئے۔ 1965ء اور 1070ء کی جنگوں میں بھارت کے خلاف لڑے، اور جب ان کی سربراہی میں ایک تربیتی مشن اردن بھیجا گیا تو آپ برگیڈئیر تھے، اس زمانے میں اردن اور فلسطین کا وہی حساب تھا جو پاکستان اور کشمیر کا ہے، آزاد کشمیر کی طرح اردن نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا، دریائے اردن کے مشرق میں 40 ہزار فلسطینی مہاجرتھے ، یہ اردن کی آبادی کا ایک تہائی بنتے تھے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں بھی اتنے ہی فلسطینی تھے ،فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اپنی آزادی کا بیس کیمپ بنا یا ہوا تھا، یہاں سے فلسطینیوں کو تربیت دے کر مقبوضہ علاقے میں اسرائیلیوں کے خلاف چھاپہ مار سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے بھیجا جاتا تھا، اردن نے جب یہ علاقہ اپنے قبضے میں لیا تو فلسطینیوں نے اسے اپی کمزوری نہیں بلکہ طاقت میں اضافہ سمجھا،مسلمان بھائی آ گئے تھے ناں، مقبول بٹ شہید نے آزاد کشمیر کو بیس کیمپ بنا کے یہی عمل شروع کرنا چاہا تھا، اس طرف ہم بعد میں آئیں گے،

شاہ حسین مرحوم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں فلسطینی دریائے اردن کے مغربی کنارے کو آزاد فلسطینی ریاست نہ بنا لیں لیکن ان کے لئے اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہماری طرح وہ بھی سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے اتحادی تھے، امریکہ کی ترجیح اسرائیل، اس کی بقا اور مشرق وسطی میں اس کی بالا دستی تھی، اس طرح کی صورتحال میں ہم نے جو کردار القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے ادا کیا وہی کردار اردن کو فلسطینیوں کو اکھاڑنے کے لئے ادا کرنا پڑا، 15 ستمبر 1970ء کو برگیڈئیر ضیا الحق کی در پردہ قیادت میں اردنی فوج نے فلسطینیوں پر حملہ کیا اور انہیں اردن سے باہر کر دیا، اردن فلسطینیوں کے دباؤ میں سے نکل آیا اوراسرائیل پر سے بڑا خطرہ ٹل گیا، بالکل اسی طرح جس طرح وسط ایشاء کے مسلم ممالک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے دباؤ میں آنے سے بچ گئے ہیں اور اسرائیل پر سے ایک اور خطرہ ٹل گیا ہے،

میں جب جیل میں تھا تو وہاں میری ملاقات دو فلسطینیوں سے ہوئی، ان کے شناختی نام ہاشم اور عبداللہ تھے، انہوں نے پاکستان میں شامی سفارتخانے پر حملہ کر کے شامی سفیر کوقتل کر دیا تھا، ان سے اکثر بات چیت ہوتی تھی، انہوں نے مجھے ابو مجاہد کی باتیں سنائیں….. ابو مجاہد، فلسطینی بچوں کو گوریلا جنگ کی تربیت دیا کرتے تھے، پی ایل او کی طرف سے یہ ان کی ڈیوٹی تھی، ایک دن ایک بچے نے تجسس میں دستی بم کی پن نکال دی، ابو مجاہد کی جب نظر پڑی تو وقت بہت کم تھا انہوں نے بچوں کو بھاگنے کا حکم دیا اور خود کو اس دستی بم پر گر لیا، بم پھٹا، ان کا ایک بازو ایک ٹانگ اور ایک آنکھ صائع ہو گئی، وہ بچ گئے اور باقی ماندہ جسم کو لے کر بچوں کو پہلے کی طرح تربیت دینے لگے

اردن میں15 ستمبر1970ء کو جوملٹری ایکشن شروع ہوا وہ جولائی 1971ء تک جاری رہا،جیل میں مجھ سے ملنے والے فلسطینی اسے بلیک ستمبر کے نام سے یاد کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ ابومجاہد کی منتیں کی گئیں کہ وہ اردن سے نکل چلیں مگر وہ نہیں مانے …یاسر عرفات طیارہ لے کر پہنچے ، انہوں نے انہیں منانے کی بہت کوشش کی ، مگر انہوں نے یہ کہہ کے انکار کر دیا کہ’’ میں اپنے بچوں (جہادی فلسطینیوں) کو موت کے منہ میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا ان کے ساتھ مل کر لڑوں گا، شہادت بہت اعلی منصب ہے، اس کی تمنا کرتا ہوں‘‘…. یہ قتل عام تھا، فلسطینیوں پر اچانک ٹینک چڑھا دئیے گئے، فلسطینی جنگجو تھے، اس وقت ان کے پاس کشمیریوں کی طرح اپنا کوئی ملک نہیں تھا وہ کہیں اپنا کوئی جنگی مرکز قائم نہیں کر سکتے تھے وہ مقبوضہ فلسطین اور اردن کے درمیان پھنس گئے تھے، اس موقع پر اسرائیلی بھی ان پر حملہ کر سکتے تھے وہ دو طرف سے نرغے میں آ سکتے تھے، مگر وہ اس سے بے نیاز آزادی…..فلسطینی قوم کی آزادی کے لئے لڑتے ہوئے شہید ہو رہے تھے، کشمیر میں ہندووں اور مسلمانوں کی جو تفریق موجود ہے، فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود ان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی کوئی تفریق نہیں تھی، مسلمان اور عیسائی شانہ بہ شانہ لڑے،انہوں نے فوجی پیش قدمی کو روکے رکھا، اپنے ساتھیوں کو اردن سے باہر نکالتے رہے اوراردن کی گلیوں اور بازاروں میں لڑتے ہوئے دس ہزار کے لگ بھگ شہید ہوگئے،

جیل کے میرے ساتھی فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم ضیاء الحق کو کبھی معاف نہیں کر سکتے، ابو مجاہد کو اسی نے شہید کیا تھا،فلسطینیوں کے لئے ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان کی پہچان ہے‘‘……ضیاء الحق سے مغرب پہلے بھی آشنا تھا مگر فلسطینیوں کے خلاف ایکشن نے اسے ان کے لئے بہت اہم بنا دیا، ادھر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، صدر سوکارنو، حافظ الاسداور معمر قذافی کے ساتھ مل کر امریکہ اور سو ویت یونین کے بلاکوں سے نکل کر تیسرا بلاک بنانے، اسلامی بینک قائم کرنے اور مسلمانوں کی سائنسی ترقی کو ایٹم بم بنانے سے شروع کرنے کی جو تیاریاں کر رہے تھے وہ امریکہ اور سوویت یونین ، دونوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی، اس سارے منصوبے میں مرکزی حیثیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی اوران تمام سرگرمیوں کا مرکز پاکستان نے بننا تھا، اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو مسلمان ملکوں کی حالت ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے اور پاکستانیوں کاشمار امریکہ کے تابعداروں میں نہ ہوتا،

یہ ہے ضیاء کا وہ ظلم ، جو صرف مجھ پر نہیں اس نے پوری مسلم امہ پر کیا ہے…… کچھ لوگ اسے اس لئے مرد حق کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا تھا….. نماز اول تو ہم اپنی بخشش اور اللہ پاک کی تابعداری کے اظہار کے لئے پڑھتے ہیں…… مسلمانوں کا، ہندووں کا، عیسائیوں کا، یہودیوں کا ناحق خون بہانے کے لئے نہیں پڑھتے ، اگر ہم نماز پڑھیں اور اللہ کی بے گناہ مخلوق کا خون بہانے لگیں تو ہم سچ سے ہٹ کے جھوٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور جھوٹے پر تو لعنتیں بے شمار ہیں،…… جھوٹے پہ لعنت سچے پر رحمت ، یہ نعرہ نہیں ایک حقتقت ہے اور ضیاء مجسم جھوٹ تھا، …….ان سب باتوں کو تولئیے اور سوچئے ،آج ہم کس منزل پر ہیں؟ ……عرض کیا ہے ؂ موت ہاتھ میں لئے ہم تم زندگی کی صدا لگاتے ہیں

اور ہاں دوستو تمغات سینے پر سجانے کے لئے ہوتے ہیں، خیرات مانگنے کے لئے نہیں، میری جیل یاترا میرا اعزاز، میرا تمغہ ہے، یہ یاترا ملتِ اسلامیہ کے حقوق و انصاف کے لئے تھی، جسے میں نے نہ کسی کو بیچا ہے اور نہ بیچوں گا،جس کی مجھے نہ ستائش قبول ہے ، نہ انعام ،میرے لئے میرا اللہ کافی ہے، وہ میرا نگہبان اور میرا گواہ ہے، شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).