ہماری سیاست کی ”آنے والی تھاں“


ملکی سیاست میں اگر آپ ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو فی الوقت آپ کے پاس سوائے عمران خان یا نواز شریف سے اندھی عقیدت یا نفرت میں مبتلا ہوئے بغیر کوئی راستہ ہی باقی نہیں رہا۔ ایسے حالات میں صحافیوں کے لئے نام نہاد ”غیر جانبدارانہ“ رویہ برتنے کی ذرا سی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔ سیاسی حوالوں سے کسی موضوع پر بات کرنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ بہت احتیاط کے ساتھ لکھی تحریر مگر بے ساختہ دیانت سے قطعاََ محروم ہوتی ہے۔ خوفزدہ طالب علم کے لکھے اس مضمون کی مانند جو کسی سخت گیر استاد کو مطمئن کرکے بہتر نمبر حاصل کرنے کی خاطر لکھا جاتا ہے۔
سیاستدانوں کی طرح ہم صحافیوں کی بھی اب مخصوص Constituenciesبن چکی ہیں۔ ہم جو بھی لکھتے اور بولتے ہیں اس کا اصل مقصد اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے کسی ایک گروہ کے دلوں میں پہلے سے موجود جذبات وخیالات کی محض ترجمانی ہے۔ تعصبات کو مزید بھڑکاکر ”تخت یا تختہ“ والی ڈرامائی صورت حال کی طرف دھکیلنا ہے۔
برسوں کی روایات کی بدولت قائم ہوئے ”ریگولر“ میڈیا کی لیکن بے تحاشہ Limitsبھی ہیں۔ آپ قانونی اور ٹھوس معاشی وجوہات کی بناءپر انہیں نظرانداز کر ہی نہیں سکتے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مگر ”سوشل“ میڈیا بھی میدان میں آگیا۔ اب ہر وہ شخص جس کے پاس ارزاں نرخوں سے بھی خریدا کوئی سمارٹ فون ہے، Citizen Journalistبن چکا ہے۔ وہ کسی بھی واقعہ کو Uploadکرکے ہر انسان کی جبلت میں موجود منفی جذبات کی تسکین کے سامان بہم پہنچاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کی اس طاقت کو چند برس قبل پولینڈ کے ایک ذہین طالب علم نے بہت مہارت سے دریافت کیا تھا۔ اپنی دریافت سمیت وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی آیا تو اسے اس مہارت کو مارکیٹ کرنے والے بھی مل گئے۔ ان لوگوں نے مل کر بہت تحقیق کے بعد وہ نسخے ڈھونڈلئے جن کے ذریعے کوئی سیاستدان،لوگوں کے دلوں میں برسوں سے موجود تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے ریاستی فیصلہ سازی کا اختیار حاصل کرسکتا ہے۔
برطانیہ کا موجودہ وزیر خارجہ اس مہارت کو استعمال کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اس کی وجہ سے Brexitکامیاب ہوا۔ یورپی یونین کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہوئے۔ امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نے بھی Brexitکو کامیاب مہم کی شکل دینے والے کلاکلاروں سے رابطہ کیا اور بالآخر وائٹ ہاﺅس پہنچ کر دُنیا کو ششدر کردیا۔ صدیوں کے تجربات اور روایات کی بدولت قائم ہوئے ریاستی ادارے مگر بادشاہوں کے بنائے قلعوں کی مانند ہوتے ہیں۔ انہیں مسمار کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ بہت محنت اور بے تحاشہ سرمایے اور وسائل کے زیاں کے بعد انہیں مسمار کر بھی دیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ خالی ہوئی جگہ پر کیا تعمیر کیا جائے گا۔ قابلِ عمل متبادل کی عدم موجودگی لہذا پنجابی محاورے میں بیان ہوئی گدھی کی طرح اِدھر اُدھر گھوم کر اپنے اصل مقام یعنی برگد کے سائے تلے آکرکھڑی ہوجاتی ہے۔
Brexitاور ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ہالینڈ میں انتخابات ہوئے تو ”قدیم“ ہی کا سہارا لینا پڑا۔ فرانس کے صدارتی انتخابات میں نسل پرستوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ یورپی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ آئندہ ماہ میں جرمنی میں جو انتخابات ہونے ہیں ان کے نتیجے میں بھی کسی بڑے Upsetکی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ شاید موجودہ چانسلر ہی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
ہالینڈ، فرانس اور جرمنی کے سیاسی حقائق پر بہت دنوں سے نگاہ رکھنے کے بعد میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ وطنِ عزیز میں بھی 2013ءکے انتخابات کے بعد سے مسلسل جاری ہیجان اب اپنی حدت و توانائی سے محروم ہو رہا ہے۔ ہماری سیاست آئندہ کچھ ہفتوں میں ”آنے والی تھاں“ پر آنے کو مجبور ہوجائے گی۔ نفرت سے اندھے ہوئے اپنی اناﺅں کے اسیرہمارے سیاست دانوں نے معروضی طورپر ضروری ٹھہرے سمجھوتوں کا ادراک نہ کیا تو حالات کو ”معمول“پر لانے کے لئے شاید 1958ء1977 اور 1999ءوالے نسخے دوبارہ استعمال کرنا ضروری ہوجائے گا۔ ان نسخوںکے استعمال نے پاکستان کو طویل المدتی تناظر میں بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔ وقتی طورپر لیکن لوگوں کے دلوں میں ”ٹھنڈ“ پڑگئی تھی۔ انہیں اپنی روزمرہّ زندگی کی ضروریات پر توجہ دینے کے لئے ”سکون“ میسر آگیا تھا۔وقتی سکون پہنچانے والے نسخے اگرچہ دوررس اثرات واستحکام ہرگز نہیں پہنچاتے۔ نیندقدرتی ہی بہتر ہوتی ہے۔ نیند آور گولیوں کی محتاجی انسانی صحت کے لئے بالآخر کئی پیچیدہ مسائل کا باعث بن جاتی ہے۔ ان سے دوری ہی میں عافیت ہے۔
اپریل 2016ءسے ہمارے ہاں پانامہ-پانامہ کا شور برپا ہے۔ اس شور نے بالآخر سپریم کورٹ کو ازخود اختیارات سے کام لینے پر مجبور کیا۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی ہفتوں تک جاری سماعتوں کے اختتام پر 20اپریل 2017ءکو جو فیصلہ آیا اس میں دو معزز ججوں نے شریف خاندان کو یقینا ”گاڈفادر“ کہا مگر نواز شریف کو بقیہ تین ججوں کی بنائی رائے کی وجہ سے ان کے عہدے سے محروم نہ کرپائے۔اس فیصلے کے نتیجے میں ایک جے آئی ٹی بنی۔ اس کے سامنے پیشیاں ہورہی ہیں۔ یہ کالم چھپنے کی صبح کے بعد سے جے آئی ٹی کے پاس اپنا کام مکمل کرنے کے لئے محض تین دن باقی رہ جائیں گے۔ اس کی رپورٹ تیار ہوکر سپریم کورٹ کے روبروپیش ہوگئی تو کئی دنوں سے جاری ڈرامائی ماحول میں ایک نیا موڑ آجائے گا۔اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں فی الوقت خاموشی ہی بھلی۔
یہ بات مگر اب یاد دلانے کا وقت ضرورآگیا ہے کہ شریف خاندان کو ”تلاشی“ دینے پر مجبور کرکے ”رلانے“ کا دعوے کرنے والوں کو اب اپنا حساب بھی دینا ہوگا۔ الیکشن کمیشن بھی ایک قومی ادارہ ہے۔ اس کی جانب سے اٹھائے سوالوں کا جواب دینا بھی ضروری تھا۔ جوابات فراہم کرنے میں لیکن لیت ولعل سے کام لیا گیا اور اب 10جولائی ہی کو اس ضمن میں کوئی فیصلہ آنا ہے۔
سپریم کورٹ ہی کے ایک اور بنچ کے روبرو عمران خان اور جہانگیر ترین صاحب کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھادئیے گئے ہیں۔ ”منی ٹریل“ وغیرہ وہاں بھی دینا ہوگی۔ جوبیجو وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ ہاتھوں سے لگائی گرہیں جنہیں کھولنے کے لئے اب ”دانت“ استعمال ہوں گے۔ دانتوں کا یہ استعمال اگرچہ کئی لوگوں کے لئے بہت حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).