غیرت کی چڑیا، گھر کا باغیچہ


غیرت۔ یہ شاید جنوبی ایشیا میں ہی پائی جاتی ہے اور اس بلا کو صرف ایک صنف کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید ہی کبھی ایسی کوئی خبر سننے میں آئی ہو کہ ایک بہن نے غیرت کے نام پر بھائی کو قتل کردیا، یا ماں نے بیٹے کو قتل کردیا۔ 2015 میں رپورٹنگ کی غرض سے میرا ایدھی شیلٹر ہوم جانا ہوا جہاں نفسیاتی عورتوں کے درمیان میں نے ایک بہت ہی خوبصورت چہرہ دیکھا، چہرے پر بلا کی معصومیت اور ٓآنکھوں میں اداسی مجھے بار بار اس کی جانب دیکھنے پر مجبور کرتی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس کے قریب جا پہنچی جیسے ہی میں نے سوال کیا تو پاس کھڑی چند لڑکیوں نے جواب دیا۔ یہ گونگی ہے، اگلے ہی لمحے صحافت کا شوق ختم ہوا اور افسوس کا دور شروع ہوگیا۔ لیکن اس کے چند روز بعد مجھ پر اس ادارے کی انتظامیہ نے انکشاف کیا کہ وہ لڑکی گونگی نہیں تھی بلکہ اس کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ایک امیر و کبیر معزز گھرانے سے تھا، لڑکی پڑھی لکھی تھی اور چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور اکلوتی تھی، والدین نے اسے شہزادیوں کی طرح رکھا لیکن ان سے صرف ایک گناہ سرزد ہوا کہ انھوں نے اپنی کل جائیداد کا نصف کا مالک اپنی بیٹی کو بنا دیا، والدین حادثے کا شکار ہوگئے تو چھ بھائیوں نے اپنی بہن پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے، کسی نے کوئی حکم صادر کیا کہ اس کی قرآن سے شادی کردو، کسی نے کوئی اور قبیح رسم کی بھینٹ چڑھانے کی بات کی، آخر کار بات اس پر ٹھہری کہ وہ اپنی مرضی سے ساری جائیداد بھائیوں کے نام کردے اور کہیں چلی جائے تو اس کی جان بخشی ہے ورنہ نہیں۔ انتظامیہ نے بتایا کہ اسے وہاں کوئی دروازے پر چھوڑ گیا تھا اس کی خاموشی کو یہ سمجھا گیا کہ وہ گونگی ہے تاہم جو چھوڑ کر گیا تھا اس نے ڈاک کے ذریعے ساری تفصیلات انتظامیہ کو بتائی، شروع میں کوئی باپردہ خواتین اس سے ملنے آتیں لیکن اس کی خاموشی بدستور رہی لیکن ایک بار کسی نفسیاتی عورت نے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تو اس رات بخار میں وہ بڑبڑاتی رہی اور ماں باپ کو یاد کرتی رہی جس سے یہ عقدہ کھلا کہ وہ بے زبان نہیں۔

جن خاتون سے میری بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ اس شیلٹر ہوم میں کئی ایسی خواتین ہیں جنھیں غیرت کے نام کر قتل کیا جانا تھا لیکن وہ خوش قسمتی سے جان بچا کر آگئیں۔ یہ کیسی خوش قسمتی ہے جس میں آپ پر آپ کے گھر کی چھت کو تنگ کردیا جائے۔ آپ اپنوں کو دیکھنے سے محروم رہ جائیں، جو آپ کا ساتھ دینے کا سوچتے ہوں ان کو بھی اپنی جان کی پڑ جائے اور پھر آپ کو اپنے ہی گھر سے اپنے ہی شہر سے ہجرت کرنا پڑ جائے۔

2016 میں میری ملاقات ایک فیچر اسٹوری کے سلسلے میں صارم برنی ٹرسٹ میں ایک پندرہ سالہ بچی سے ہوئی جو پنجاب سے اکیلے ٹرین کا سفر طے کر کے کراچی پہنچی۔ اس کی داستان سن کر میں کئی روز تک شدید کرب میں رہی۔ اس بچی کو چار سال تک اس کاسگا باپ زیادتی کا نشانہ بناتا رہا جس پر اس نے اپنی سوتیلی ماں کو آگاہ کیا لیکن یہ شرمناک کھیل چلتا رہا بالاآخر وہ لڑکی بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔ رواں برس اس لڑکی کا باپ اسے دھونڈتے ہوئے کراچی آگیا اور عدالت میں پیش بھی ہوا کہ وہ اپنی بیٹی کو لے جانے آیا ہے وہ لڑکی عدالت میں پیش ہوئی لیکن باعث شرمندگی معزز عدلیہ کو یہ نہ بتا سکی کہ اس کے باپ نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی اس نے صرف یہ کہا کہ وہ خود کو اس گھر میں محفوظ نہیں سمجھتی اس کی جان کو خطرہ ہے اور وہ شخص یہ سن کر وہاں سے روانہ ہوگیا کیونکہ اسے نظر آگیا تھا کہ وہ جس لڑکی کے سامنے کھڑا ہے اب وہ، وہ نہیں رہی جس کے جسم ور روح کو وہ زخم لگایا کرتا تھا جس روز وہ عدالت میں پیشی سے واپس آئی میں اس ٹرسٹ میں اتفاقاً پہلے سے ہی ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ بنانے آئی تھی میں نے جب عدالت کا احوال سنا اور اس بچی سے پوچھا کہ تم نے کیوں نہیں بتایا کہ وہ آدمی کیا کرتا تھا تو اس لڑکی نے کہا! باجی وہ تو جانور ہے لیکن میری بھی کوئی عزت نفس ہے بھرے مجمع میں یہ کیسے کہتی کہنا ہوتا تو اتنا میلوں دور بھاگ کر آتی؟ یہ حساب روز محشر پر چھوڑا وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اس سے بڑا غیرت کے نام پر طمانچہ کیا ہوگا جو اس پندرہ سالہ بچی نے مارا۔

میں اس ادارے میں جس عورت پر رپورٹ بنانے گئی تھی اس عورت کو اس کے پہلے شوہر نے طلاق دے کر بچے چھین لئے تھے، والدین نے دوسری شادی کی تو اس شخص نے اسے جوئے میں ہار دیا وہ بدبخت جان بچا کر بھاگی، خلع لی تو ایک پولیس والے نے اس سے نکاح کرلیا اور بعد میں معلوم چلا کہ وہ اس کے دوسرے شوہر کے ساتھ ملا ہوا تھا اب وہ اسے ماردینے کی دھمکیاں دیتا ہے جس پر وہ اس ٹرسٹ میں پناہ لینے آگئیں۔ 2016 میں فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر بھائی نے قتل کردیا۔ سوشل میڈیا کو اپنی باتوں کے سحر میں رکھنے والی اور لاکھوں نوجوانوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دینے والی قندیل بلوچ کی اداؤں کے جلووں سے محظوظ ہونے والے کروڑوں مداح تھے جو دن میں سرے عام اسے گالیاں بکتے اور رات کو فیس بک، انسٹا پر اس کی تصاویر دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے لیکن جب وہ قتل ہوئی تو اس کے جنازے میں چند لوگ ہی تھے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اس کے بھائی کی غیرت اچانک ایسے جاگی جیسے کسی بند گھڑی میں نیا سیل ڈالا گیا ہو۔ ایسا کیا کہا گیا تھا اس کے بھائی کو وہ بہن جو گھر میں اچانک دولت کی ریل پھیل لانے لگی، کچا مکان پکا کرا گئی، ماں باپ کو بہترین پوشاک سے لے کر بھائی کو موٹرسائیکل دلانے سے لے کر کئی طرح کے کام دھندے کرانے کے لئے پیسے اجاڑتی رہی اور بھائی تجربے کرتا رہا اسے اپنی بہن بد چلن، بے حیا اور بے غیرت نظر آنے لگی۔ کون لوگ تھے وہ جنھوں نے اس کے بھائی کی سوئی ہوئی غیرت کو جھنجھوڑا؟

ایسے لوگ آپ کو اپنے خاندان، گلی، محلوں کے تھڑوں یا پان کے کھوکھوں پر لازمی ملیں گے۔ یہ وہ غیرت مند روحیں ہوتی ہیں جو نماز جمعہ کے اوقات میں سوتی ہیں لیکن بہن اگر باورچی خانے میں بغیر دوپٹے کام کرتی دکھائی دے تو انھیں شریعت یاد آجاتی ہے۔ یہ وہ غیرت مند لوگ ہوتے ہیں جو مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں لیکن محلے کی کوئی لڑکی اپنی نوکری سے واپس آرہی ہو تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ فلاں کی بہن وہ تو روز نوکری کے بعد باہر لونڈے لپاٹوں کے ساتھ کھانا پھوڑ کر آتی ہے۔ یہ وہ پنج وقتہ نمازی بھی ہوسکتے ہیں جن کی نماز قضاء نہیں ہوتی لیکن دوسری تیسری شادی کا خواب بھی زندہ ہوتا ہے اور لڑکی اٹھارہ بیس کے اندر اندر کی چاہیے ہوتی ہے اور اپنے اردگرد نظر آنے والی خواتین کا سر سے پاوں تک جائزہ لینا اور پھر ان پر بے حیائی کے فتوی جاری کرنا ان کے نزدیک دین کی خدمت ہوتی ہے۔ یہ وہ ایزی لوڈ کرنے والے محنتی دکاندار بھی ہوتے ہیں جو اپنی بہنوں کے ایزی لوڈ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ بجو، آپا کا سارا بیلنس تو ہم ہی کو بلانے میں خرچ ہوجاتا ہے لیکن محلے پڑوس کی خاتوں اور لڑکی کا نمبر لوڈ کے لئے آئے تو وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ فلاں لڑکی کے موبائل کا بیلنس بڑا خرچ ہوتا ہے کوئی چکر ہوگا اور اگر اس لڑکی کا بھائی نظر آجائے تو اسے چار پانچ لوگوں میں آواز کس دیتے ہیں کہ ہاں بھائی تیری بہن بڑی امیر ہے اس مہینے بڑا بیلنس خرچ کیا ہے۔ یہ وہ رشتے دار بھی ہوتے ہیں جو یہ قیاس آرائیاں لگاتے ہیں کہ فلاں خاندان کی لڑکی اپنے بھائی سے زیادہ کماتی ہے یقیناً لمبا ہاتھ مارا ہوگا، ہاں بھئی آزاد جو ہے، خودمختار جو ہے ایسے کچوکے وہ اس گھر کے سربراہ یا بھائی باپ کو لگا کر آگے کا کام آسان کردیتے ہیں آخر غیرت کا معاملہ ہے اور اگر یہ سوئی ہوئی ہو تو اسے جگانا ان سب کا ہی تو فرض ہے۔

ہم جس معاشرے میں بستے ہیں وہاں اب کسی بھی عورت پر تیزاب پھینکنا، غیرت کے نام پر جلادینا، گولی ماردینا، یا قتل کی دھمکیاں دینا اب اتنا ہی آسان ہے جتنا جمہوریت کے نام پر فراڈ کرنا، جعلی ووٹ ڈالنا، یا بوٹی مافیا سے میٹرک اور انٹر پاس کرناہے۔ ایک عورت اگر نوکری کرتی ہے اور اپنے اردگرد بیٹھنے والے مردوں سے پیشہ وارانہ انداز میں مخاطب ہوتی ہے تو وہ بے حیا بھی ہے اور بد چلن بھی لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ غیرت کے نام پر وہ تمام مرد کس کسوٹی پر اترتے ہیں جو یہ طے کرتے پھرتے ہیں کہ کون عورت بہتر ہے کون بدتر؟ اسلام میں عورت کو اعلی مقام دیا گیا، حضرت خدیجہؓ الکبری کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن سب بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک تاجر تھیں، انھوں نے نبیؐ پاک کو شادی کا پیغام خود دیا یہ وہ زمانہ جہالیت تھا جہاں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفن کیا جاتا تھا لیکن ایسا ہوا اور اللہ کے نبیؐ نے نہ صرف اس رشتے کو قبول کیا بلکہ ایک اعلی مثال رقم کی یہ ان کی امت اس سے کچھ سیکھ سکے کہ عورت کی حرمت اور تکریم کیا ہوتی ہے۔ حضرت صفیہؓ کو کون نہیں جانتا جو میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں، حضرت فاطمہؓ الزھرہ کی آمد پر ان کے والد، نبیؐ پاک بیٹی کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ جو کم عمری میں رسولؐ پاک کے نکاح میں آئیں ان کے ساتھ رسولؐ اللہ کا سلوک سب کو یاد ہے، حضرت زینبؓ کو کیوں بھولا جاتا ہے جنھوں نے اپنے خاندان کے سارے مردوں کی شہادت کے بعد علم تھاما اور سر اٹھا کر یزید کے سامنے کھڑی ہوئیں اور اسے بتایا کہ حق اور باطل درحقیقت کیا ہے۔

وہ عورتیں جو حقوق کے نام پر روز ڈرامہ کرتی ہیں، بن سنور کر این جی اورز چلاتی ہیں وہ شاید آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوں گی۔ لیکن وہ عورت جو آپ کے گھروں میں ہے اس کو سانس لینے کا حق کون دیگا؟ اس کو شرعی وراثت میں حصہ کون دیگا؟ مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار کون دے گا، اگر وہ عاقل بالغ ہے اور عمر کے اس حصے میں جہاں وہ نہ تو جوان ہے نہ بوڑھی تو اسے اس کی مرضی سے جینے کا حق کون دے گا؟ اگر غیرت صرف مرد کی شان ہے تو یاد رکھیے اس شان کو استعمال کرنے کا حق عورتوں کو بھی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بھائیوں، بیٹوں، شوہروں کی بے غیرتی، بے شرمی اور ان کا اندر کا درندہ لوگوں سے چھپانے میں وہ سب عورتیں خاموش رہتی ہیں جو نہیں جانتی کہ غیرت کے نام پر اگلی باری ان کی آسکتی ہے۔ ذرا سوچئے اگر یہ خاموشی ٹوٹنا شروع ہوجائے تو کتنے ہی معزز، خود کو دین اور شریعت کا رکھوالا سمجھنے والے اور حقوق العباد اور انصاف کے گھمنڈ کا طوق گلے میں سجانے والے سنگسار ہوسکتے ہیں۔

 

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar