سیاست میں قوم قبیلہ ہی اصل طاقت ہے


دل خوش کرنا ہے تو جتنا چاہیں اتنی باتیں کرتے رہیں۔ آپ ذات برادری کے خلاف بولیں موروثی سیاست کا نشانہ لگائیں قبائلی نظام پر تبرہ بھیجیں۔ جو مرضی کریں حقیقت نہیں بدلنے والی۔ جب کھیل طاقت کا ہو گا تو ذات برادری قوم قبیلہ ہی اہم ہو گا فیصلہ کن بھی۔

افغانستان ہمارا تربور ہے یعنی اس سے ہمارا شریکہ چل رہا۔ نہ اس کے بغیر گزارا نہ اس کے ساتھ نہ یہ کہیں جا رہا نہ ہم۔ دونوں یہیں ہیں اور موجود رہیں گے۔مسئلہ ہے کیا افغانستان کا سب سے بڑا نسلی لسانی گروپ پختون ہے۔ پختون فاٹا بلوچستان اور کے پی میں اکثریتی نسلی لسانی گروپ ہیں۔

پاکستان اور افغانستان دونوں پختونوں کی اصل قیادت اور راہنمائی کے دعوے پر لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے حامی ہیں جنہوں نے اپنی اپنی پسند اور چاہت کے لیے کہیں بندوق اٹھا رکھی ہے کہیں قلم۔ بات اس وقت شدت پسندی اور عسکریت پسندی کی نہیں ہو رہی۔ بات قوم قبیلے ذات برادری کی ہو رہی۔ شدت پسندی کی اس جنگ میں قوم قبیلے کی کیا اہمیت ہے۔ یہ جاننا ہے تو افغان انٹیلی جنس کے سابق چیف امر اللہ صالح کا تبصرہ پڑھنے لائق ہے۔

امراللہ صالح پاکستان پر برستے ہوئے اچانک آفریدی اور خٹک قبیلوں پر بھی ایک ایک گولہ داغتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں پختون قبائل صرف پاکستان میں ہی ہیں۔ اس لیے یہ پاکستان کی آنکھ سے دیکھتے اور اسی کے دماغ سے سوچتے ہیں۔ وہ یہیں پر نہیں رکتے پشتو نہ بولنے والے ترینوں اور نیازیوں کا بھی نشانہ لگاتے ہیں۔

غور کرنے کی بات صرف اتنی ہے کہ زمینی حقیقت کیسے رنگ نسل سوچ میں فرق ڈالتی ہے۔ وزیرستان کے محسود بھی ایسے ہی ہیں ان کی اکثریت بھی صرف پاکستان میں ہی رہتی ہے۔ جو محسود شدت پسند فوجی آپریشن سے بھاگ کر افغانستان پہنچے ہوئے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر وہ اپنے میزبانوں کو ”میژ ٹیم ستا سو ٹیم نہ شہ دے“ کہہ کر ان کے دل جلاتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہزادے وہاں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ افغان کرکٹ ٹیم سے پاکستان کرکٹ ٹیم اچھی ہے۔ اس پر اب کیا تبصرہ کرنا ہے یہ نہ تو وسی بابے کو سمجھ ہے نہ کسی پاکستانی اہلکار کو سمجھ آئے گی نہ ہی محسودوں کے کسی افغان میزبان کو۔

قوم قبیلہ اور زمینی حقیقت یا زمین کہہ لیں طاقت کے کھیل میں فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ سیاست بھی طاقت کے حصول کا ہی ایک کھیل ہے۔ اس کو اخلاقیات قوانین پر پرکھا تو جا سکتا لیکن یہ فیصلہ کن فیکٹر نہیں ہوتے۔ طاقت کے کھیل میں بس طاقت ہی اصل فیکٹر ہوتی۔

سیاست سمجھنی ہو تو قوم قبیلہ بھی سمجھنا ہو گا۔ جام صادق جب سندھ کے وزیر اعلی بنے تو انہوں نے پی پی کو نتھ ڈال دی تھی۔ نتھ ڈالنا ایک برا لفظ ہے وہ بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے استعمال کرنا۔ اونٹ کی ناک میں چھید کر کے رسی ڈالی جاتی ہے تاکہ اس کو اپنی مرضی مطابق چلایا جا سکے اس کو نتھ یا نکیل ڈالنا کہتے۔ جام صاحب جب پی پی والوں کو اپنی انتظامی طاقت کے زعم میں نتھ ڈالتے پھر رہے تھے۔ اس وقت بھی وہ خیر پور کے وسانوں سے دور ہی رہتے تھے۔

یہ وسانوں کی قبائلی اور سیاسی طاقت کا اعتراف تھا۔

سندھ میں اک غیر اعلانیہ جماعت ہے جس کو سندھ سید لیگ کہتے ہیں۔ سید لیگ کتنی طاقتور ہے اس کا اندازہ ایسے لگائیں کہ آصف زرداری پی پی کے صدر ہو کر بھی سندھ میں غیر سید وزیر اعلی نہیں لا سکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سندھ کی سیاست پر حتمی اختیار رکھتے ہوئے بھی آفتاب شعبان میرانی کو زیادہ عرصہ وزیراعلی نہیں رکھ سکیں تھیں۔

سید قائم علی شاہ اور وسان خیرپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیرپور میں پیر پگاڑہ ایک مستقل سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ سیاست کے لیے انہوں فنکشنل لیگ کا پلیٹ فارم تشکیل دے رکھا ہے۔ پی پی کے پچھلے دور میں منظور وسان کچھ وقت کے لیے پی پی سے لاتعلق سے ہو گئے تھے۔ تب صدر پاکستان آصف علی زرداری ان کے گھر پہنچے منظور وسان نے کہا کہ سائیں بڑی مہربانی آپ آئے۔ آصف زرداری نے جواب دیا کہ آپ جب بہت ہی فنکشنل ہو گئے تو آنا ہی پڑا۔ قائم علی شاہ اب وزیراعلی نہیں ہیں۔ ان کی جیلانی فیملی اب خیرپور کے وسانوں کے بڑھتے اثرورسوخ سے شاکی ہے۔

قائم علی شاہ فیملی کےاعتراضات پر کہ انہیں اب کوئی اہمیت نہیں دیتا اور جیالوں کی کوئی سنتا نہیں ہے۔ منظور وسان نے بہت دلچسپ جواب دیا کہ اگر ساری عمر اقتدار میں رہ کر بھی کوئی آپ کی نہیں سنتا تو قصور آپ کا ہے یا پارٹی کا۔ ساتھ ہی معنی خیز تبصرہ کر کے جیلانی فیملی کی حالت زار بیان کی کہ میں نے ابھی جیلانی ہاؤس کے سامنے جلسہ کیا۔ سارا شہر میری بات سننے آیا تھا بس جیلانی ہی نہیں آئے تھے۔

بات کہیں دور نکل گئی مختصر بس اتنی ہے کہ وسان کئی دہائیوں سے اپنی طاقت برقرار رکھے ہوئے ہیں جو شاید سائیں قائم علی شاہ کی جیلانی فیملی نہیں رکھ پائی۔ یہ طاقت کا کھیل ہے تو آصف زرداری کی مجبوری ہے کہ وہ آج کی زمینی حقیقت کے مطابق وسانوں پر انحصار کریں۔

طاقت کے اس کھیل کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں۔ ایک بلوچ نواب سے اس کے پسندیدہ پنجابی ایم این اے نے شکایت کی۔ شکایت یہ تھی کہ نواب کا قبیلہ پنجاب کے اندر آ کر پنجابی سیاستدان کی برادری کے مال ڈنگر کبھی چھین کر کبھی کھول کر اپنی سائیڈ پر لے جاتا تھا۔ نواب نے کہا اس کا کوئی حل اس کے پاس نہیں ہے میرے لوگ غریب ہیں یہ ان کا روزگار ہے۔ تمھاری وجہ سے تمھارے لوگوں کو وقتی طور پر مطمئین کرنے کے لیے کچھ ڈنگر واپس کروا دیتا ہوں۔ بار بار نہیں کر سکوں گا۔ اگلی بار خود سنبھالنا جیسے مرضی اپنے لوگوں کو۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi