اتفاقاً انسان ہونے کا کتنا انتقام لیں گے


جانور بھی اسی طرح پیدا ہوئے جیسے انسان۔ اسی نے پیدا کیا جس نے انسانوں کو۔ ابتدا میں جس کا جہاں بس چلتا دوسرے کو شکار کرلیتا یاخود ہوجاتا۔ لیکن انسان میں دیگر جانداروں کی نسبت خود کو ڈھالنے اور سیکھنے کی صلاحیت چونکہ زیادہ تھی لہذا وہ باقی جانداروں سے آگے نکل گیا اور اس نے لگ بھگ دس ہزار برس قبل کچھ جانداروں کو سدھانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ جیسے گھوڑا، گدھا، مرغی، گائے، بکری، کتا، بندر، کبوتر، طوطا، مینا وغیرہ۔ اور پھر ہر ایک کی مخصوص صلاحتیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس میں بنیادی فوائد بار برداری، خوراک اور چمڑے وغیرہ کا حصول تھا۔ پھر ان جانوروں کو سدھانے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ مثلاً یہ کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بجائے محض جبلت کے سہارے رہنے کے سبب جانور بھی درختوں، پانی اور آگ کی طرح ایک قدرتی دولت ہوتے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ سولہویں صدی کے مشہور فرانسسیی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکیل ہوتے ہیں انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔

ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا۔ اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب بلیاں کم ہوگئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔ اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔

رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نا اہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید، روشن خیال، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔ سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔ چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے، کتے، بلیاں، خرگوش، بندر، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کرکے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔ اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں۔ مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔ قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جونرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔

فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔ صرف دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ کے دوران جوتے، پرس، بیلٹس، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں چونتیس لاکھ بڑی چھپکلیوں، تیس لاکھ مگرمچھوں اور چونتیس لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔ اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔ گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔ لیکن اب سے تیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔ اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔ یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔ مگر بھارت جہاں گائے ہلاک کرنا جرم ہے وہاں صرف چند لاکھ گائیوں کے لیے گؤشالہ کی سہولت ہے۔ دیگر کروڑوں بھک مری یا آلودہ الم غلم کھا کے خود ہی سورگباشی ہو جاتی ہیں۔

مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔ لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔ انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔ شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں دو سو ڈالر فی باؤل تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔ لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہوجاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔ شمالی بحر اوقیانوس میں جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر کر کنارے تک لایا جاتا ہے اور انھیں تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ جس سے تا حدِ نظر پانی سرخ ہوجاتا ہے۔ مچھلیوں کے قتلِ عام کا یہ قدیم میلہ آج تک جاری ہے۔ لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلو وہیلز تھیں۔ مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہیں۔

اکیزوکوری ایک خاص جاپانی ڈش ہے۔ باورچی شیشے کے واٹر ٹینک میں سے گاہک کی مرضی کے مطابق زندہ مچھلی نکال کر اس کی کھال اتارتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑے کچھ اس مہارت سے کرتا ہے کہ دل دھڑکتا رہے اور سر میں جان باقی رہے۔ اور پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر قاب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ منہ کھولتی بند کرتی مچھلی آہستہ آہستہ مرتی ہے۔ تب تک اس کا گرم نرم گوشت چوپ سٹکس کے ذریعے گاہک کے معدے میں اتر چکا ہوتا ہے۔ ین یانگ فش چینی ڈش ہے۔ زندہ مچھلی کو اس طرح تلا جاتا ہے کہ سر میں آخر تک جان باقی رہے۔ جیاؤ لو رو ( آبی گدھے کا گوشت ) بھی ایک مہنگی چینی ڈش ہے۔ زندہ گدھے کی تھوڑی سی کھال اتار کر کچے گوشت پر مسلسل ابلا ہوا پانی ڈالتے ہیں اور جب وہ پک جاتا ہے تو اتنا پارچہ اتار کر گاہک کو پیش کردیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر، چمگادڑ، بلی، کتے، سور، چوہے، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔ اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔

بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ ایک بھینسہ جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مرجاتا ہے۔ جب گرے ہاؤنڈز کتے دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے۔ یوں ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سن اسی کے عشرے میں ہیونزگیٹ نامی فلم میں ایک منظر فلمانے کی خاطر زندہ گھوڑا ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا گیا۔ جانوروں کو ان جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ مثلاً ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کرائی جاتی ہیں۔ سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔ کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔ بارودی سرنگوں سے اٹے میدانوں پر سے پالتو جانور گذارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کے لیے محفوظ ہوجائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات جانوروں پر کیے جاتے ہیں۔ دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن جن ممالک میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کے لیے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔ جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کردینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔

کہا جاتا ہے کہ جانور چونکہ بے زبان ہوتے ہیں لہذا ان کی ہلاکت سے انسانی نفسیات پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور ایسے واقعات انسانی شعور میں زیادہ عرصے نہیں رہتے۔ لیکن ایف بی آئی کے مطابق چھتیس فیصد جنسی قاتلوں کے پروفائلز سے ظاہر ہوا کہ وہ بچپن میں جانوروں پر تشدد کے شوقین تھے اور اس شوق نے ان میں جو بے حسی پیدا کی وہ بڑھتے بڑھتے انسانوں کے متشدد شکار تک لے آئی۔ نہیں نہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو کہتا ہے کہ جانور بھی میری مخلوق ہیں اور اپنی اپنی زبان میں میری حمد و ثنا کرتے ہیں۔ جس نے اصحابِ کف کے کتے کے لیے بھی اجر کا اعلان کیا۔ جس نے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام قرار دیا۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جس کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو آپ چادر چھوڑ کے آہستگی سے چلے جاتے تھے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ آپ نے سختی سے منع کیا کہ جانور کو داغنا، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و لعنت ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔ آپ ایسے رقیق القلب کہ ایک پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔ آپ ہی کے ایک خلیفہِ راشد سے منسوب ہے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمے داری خلیفہِ وقت پر ہے۔ احادیث کی بات ہو تو ہم حضرت ابو ہریرہ ( بلیوں کا باپ ) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے نام بڑے فخر سے شاہین احمد، باز محمد، شیر علی، کلبِ صادق وغیرہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہے کہ آنکھیں خود پھیرتے ہیں اور الزام طوطا چشمی کو دیتے ہیں۔ مکار خود ہیں پر بدنام لومڑی ہے۔ سفاکی اندر موجود ہے مگر مثال بھیڑئیے کی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احسان فراموشی آپ کریں اور بدنام ہو آستین کا سانپ۔ نقالی کی داد خود وصول کریں اور نام لگائیں بندر کا۔ حرام خود کھائیں اور حوالہ دیں خنزیر کا۔

کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے کرکے بندھے بکرے، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔ سوچئے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا؟ ایک ہی کرہِ ارض پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود اتفاقاً انسان ہونے کا آخر ہم ان بے زبانوں سے اور کتنا انتقام لیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).