نومولود بچے کی لاش 21 ہزار میں گروی: مسیحا یا قصائی؟


عموماً ہمارے معاشرے میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ غربت کی وجہ سے لوگ یا تو اپنی اولاد کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر اپنے گردے بیچ کر گذارا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثر لوگ صحت اور تعلیم کے معاملے میں نجی اداروں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیوںکہ سرکاری اسکولوں اور ہستالوں پر لوگوں کو اعتبار کم ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا ضلع جیکب آباد کے گوٹھ ابراہیم بنگلانی کے نجم الدین بنگلانی کے ساتھ اس نے اچھے علاج کی غرض سے سکھر کے ایک نجی میڈیکل سینٹر کا رخ کیا۔ جہاں پر اس کی بیوی حرمت کی آپریشن کے ذریعے 1 جولائی 2017 کو ڈیلیوری ہوئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچے کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور اس کو (این آئی سی یو) میں رکھنا پڑے گا۔ آپ مزید پیسوں کا بندوبست کریں۔

بقول نجم الدین بنگلانی کے مزید پیسوں کے بندوبست کے لیے ہم اپنے گھر چلے گئے اور وہاں ڈاکٹر کا فون آیا کہ بچہ فوت ہو گیا ہے اور 21000 روپے دے کر بچے کی لاش کو لے جاؤ۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے نومولود بچے کے والد نجم الدین بنگلانی نے بتایا کے پہلے بھی بیوی کے علاج کے لیے پیسے سود پر لیے ہیں اور مزید پیسے میرے پاس نہیں ہیں اور ڈاکٹر بچے کی لاش نہیں دے رہا ہے اور دو دن سے لاش ہسپتال والوں کے پاس گروی پڑی ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ میرے بچے کو ہسپتال والے لاوارث دفن نہ کر دیں۔

دیکھا جائے تو یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اس طرح کے واقعات ہمارے اس بے رحم معاشرے میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ آ پ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے مسیحا ینگ ڈاکٹرز اپنی تنخواہ اور اپگریڈیشن کے لئے آئے روز ہڑتال پر نظر آتے ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ مریض جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں۔ اور مسیحاؤں کی دوسری وہ قسم ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں کم اور اپنے کلینک اور سینٹرز میں زیادہ نظر آتے ہیں ان کو کیا پتہ کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ اور ایک غریب آدمی علاج کے لئے پیسے کہاں سے لاتا ہوگا۔ ان کو تو صرف اپنے بزنس سے مطلب ہوتا ہے کہ اس پر جو لاکھوں روپے لگے ہیں اس کے بدلے اس کو کیا مل رہا ہے۔

اگر غریب لوگ سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو وہاں پر اکثر بڑے ڈاکٹرز صاحبان تو ملتے نہیں اور مجبوراً لوگوں کو انہی ینگ ڈاکٹرز پر ہی گذارہ کرنا پڑتا ہے اور ان سرکاری ہسپتالوں میں ایک غریب کو سوائے ڈاکٹرز اور نرسوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے کچھ نہیں ملتا۔ اگر اندرون سندھ کے ہسپتالوں کی بات کی جائے تو اللہ معاف کرے نہ بجلی ملے گی نہ پانی نہ ہی کوئی دوائی سوائے خواری کے۔ اگر شکایت کی جائے تو کہا جاتا ہے کے کسی نجی ہسپتال میں چلے جاؤ۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ان سرکاری ہسپتالوں میں ان نجی ہسپتالوں کے ایجنٹ بھی بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو ان سرکاری ہسپتالوں سے ڈرا کے نجی ہسپتالوں، میڈیکل سینڑز میں بھیجتے رہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انسان دوست مسیحا نہیں ہیں، مگر ہمارے اس بے رحم معاشرے میں اکثر یہ مسیحا قصائی کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایک طرف لوگ غربت و افلاس سے تنگ ہیں تو دوسری طرف ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر لوگ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پر اکثر مسیحا کم مگر قصائی زیادہ ملتے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).