ایک سلیوٹ پر اٹکی ہوئی قوم


دو روز قبل وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز پاناما کیس میں تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر جوڈیشل اکیڈمی پہنچیں تو اس موقع پر سکیورٹی پر موجود پولیس کی اسپیشل برانچ کی سپرنٹنڈنٹ نے انہیں گاڑی سے اترتے وقت سلیوٹ کیا اور زمین پر گر جانے والا قلم بھی اٹھا کر ان کے حوالے کیا۔ اس کے بعد وہ انہیں لے کر جوڈیشل اکیڈمی کے دروازے تک گئیں۔ یہ بظاہر معمولی واقعہ گزشتہ دو روز سے پاکستانی سیاست اور میڈیا کا اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے۔ سیاسی اختلافات سے لے کر جمہوری اصولوں اور پولیس کے قواعد و ضوابط کی یوں چھان پھٹک کی جا رہی ہے کہ جیسے پاکستان اس وقت ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جہاں ہر کام اصول و ضوابط ، قاعدے قانون اور اعلیٰ اخلاقی روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لئے ایک ایس پی کی یہ بے قاعدگی نظر انداز کرنے سے اس صاف ستھرے اور اعلیٰ نظام کے دھڑام سے نیچے آ گرنے کا اندیشہ ہے۔ جبکہ صورتحال تو یہ ہے کہ سرکاری عہدیدار ، سیاسی لیڈران اور دیگر سیاسی معتمدین کی بات تو ایک طرف کسی اخبار کےلئے رپورٹنگ کرنے والا صحافی اور فوٹو گرافر ، ٹیلی ویژن رپورٹ بنانے والا عملہ یا ان کی معاونت کرنے والے لوگ بھی پولیس اور نظام سے وہ سہولتیں طلب اور حاصل کرتے ہیں جو ان کا حق تو کجا، کسی بھی لحاظ سے فرائض کی بجا آوری میں معاون نہیں ہو سکتیں۔ بے قاعدگیوں کے اس ماحول میں سلیوٹ کرنے، قلم اٹھا کر دینے یا وزیراعظم کی بیٹی کے ساتھ مہذب یا اپوزیشن کی زبان میں خوشامدانہ رویہ کو ایک قومی نوعیت کا معاملہ بنا دینے کا صرف یہ مقصد ہے کہ ہم بطور قوم اہم معاملات سے درگزر کرنا چاہتے ہیں۔

اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر اہم معاملات پر اصولی باتیں کی جائیں گی جس کی وجہ سے مثبت اور تعمیری مباحث کا آغاز ہوگا۔ عوام میں شعور اور آگاہی پیدا ہوگی اور اس طرح وہ سیاستدانوں کی بہتر جوابدہی کےلئے تیار ہوں گے۔ یہ تبدیلی بلا تخصیص ملک کے کسی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کو منظور نہیں ہے۔ اب دن بدن یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ بنیادی مقصد نہ نظام کی اصلاح ہے اور نہ ہی آئین اور قانون کی بالا دستی قائم کرنا مقصود ہے بلکہ دراصل یہ نعرے اس وقت بلند کئے جاتے ہیں جب مدمقابل کو چیلنج یا زچ کرنا مطلوب ہو۔ جس طرح عمران خان وفاقی اور تین صوبائی حکومتوں پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے لیکن خیبرپختونخوا کے بارے میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوں گے۔ گویا وہاں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگی ہوں اور یہ صوبہ ایک مثال کی حیثیت اختیار کر چکا ہو۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو وفاقی حکومت یا پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بات کرنے یا سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا لیکن وہ خیبرپختونخوا یا سندھ حکومت کی نااہلی پر بے تکان گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس رویہ کی واحد وجہ یہ ہے کہ سیاسی عمل کو ملکی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنانے اور سمجھنے کی بجائے ذاتی اقتدار کے حصول کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ عوام کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ وہ اگر اقتدار میں آ گئے تو ان کے سارے مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے۔ ان کے مصائب کی اصل وجہ صرف یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص اقتدار میں ہے جو اس عہدے کا اہل نہیں ہے۔

اب عام ووٹر بھی سیاستدانوں کی اس ذہنیت کو بھانپ چکا ہے۔ اسی لئے قومی انتخابات میں اس بنیاد پر ووٹ نہیں دیئے جاتے کہ کسی خاص پارٹی کو ووٹ دینے سے کون سے ایجنڈے کے تحت کون سے قومی مسائل کیسے حل ہوں گے۔ بلکہ ووٹر برادری، تعلق داری اور اس بنیاد پر کسی امیدوار کی مخالفت یا حمایت کرتا ہے کہ انتخاب کے بعد اگر ان کا حمایت یافتہ امیدوار جیت گیا تو وہ ان کے کسی عزیز کو ملازمت دلوا سکے گا، کسی مقدمہ میں فریق مخالف پر ان کا پلہ بھاری ہو جائے گا یا اس کی کامیابی کی صورت میں کسی خاص گروہ، علاقہ ، محلہ اور گاؤں میں کون سی سہولتیں حاصل ہو سکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا موسم قریب آتے ہی ان امیدواروں کی قدر و قیمت میں اضافہ ہونے لگتا ہے جو انتخاب جیتنے کے اہل ELECTABLE ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلئے ہر داؤ آزماتی ہے۔ جبکہ اپنی صلاحیت پر منتخب ہونے والے لوگ بھی اس پارٹی کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ جس کا پلہ بھاری ہو اور جو آئندہ انتخابات جیت کر حکومت بنانے کے اہل ہو۔ کیونکہ اسی طرح وہ اپنی خفیہ اور اعلان کردہ خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ ایسے میں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے ارکان کی اکثریت بین الاقوامی اور اہم سلامتی و خارجہ امور تو ایک طرف قومی مسائل یا اپنے علاقے کی ضرورتوں تک سے نابلد ہوتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے علاقے کے لوگوں و گروہوں کے ووٹوں کے عوض ان کی جائز و ناجائز ضرورتیں پوری کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، اسی طرح وہ اپنی پارٹی سے اسمبلی میں ہاتھ کھڑا کرنے کے عوض ترقیاتی فنڈز یا دیگر مراعات کی صورت میں اپنی قیمت وصول کرتے رہتے ہیں۔ اسی مزاج اور طریقہ کار کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی نظام کسی بند جوہڑ کی طرح تعفن زدہ ہو چکا ہے اور اس میں تازگی اور شگفتگی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ جو نئے عناصر اس میدان میں قدم رکھتے ہیں، تھوڑی مدت کے بعد وہ بھی اسی ماحول کا حصہ بن کر اقتدار کی دوڑ میں اپنی باری کا انتظار کرنے اور مخالفین کو دھکے دینے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔

قومی مسائل کی بجائے غیر ضروری امور پر صلاحیت اور وسائل صرف کرنے کی دوسری اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس ملک کے سیاستدان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس اصل مسائل کو حل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بااختیار حلقوں کو مسترد کرکے خالصتاً جمہوری بنیادوں پر اہم معاملات پر غور اور ان کے حل کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ اس لئے سیاست کو ایک ایسا شعبہ بنا لیا گیا ہے جس میں اسمبلی کی سیٹ ، کوئی وزارت یا کسی صوبے یا ملک کی حکومت تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے بعد تھوڑی بہت بے ایمانی کرنے یا غیر ضروری پروٹوکول کے مزے لینے کے سوا کوئی بامقصد کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپوزیشن کی ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی مرحلہ پر اقتدار کے حصول کےلئے انہی طاقتور حلقوں کا تعاون حاصل کرنا ضروری سمجھتی ہے جو گزشتہ چھ دہائیوں سے اس ملک کے تمام اہم فیصلے کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو اور وزیراعظم کا پروٹوکول کسی کو بھی مل رہا ہو، بھارت کی طرف سے دہشت گردی اور امریکہ کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کی حمایت کی صدائیں سنائی دیتی رہیں گی۔ سیاسی حکمران اور سول عہدیدار انہی خطوط پر سطحی بات کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جو انہیں فراہم کر دیئے جاتے ہیں۔ وگرنہ کیا وجہ ہے کہ کشمیر جیسے مسئلہ پر جس کی وجہ سے اس ملک نے بھارت سے چار مرتبہ جنگ کی، نصف ملک گنوایا اور دنیا بھر میں ملک کی شہرت اور عزت کو داؤ پر لگایا ۔۔۔۔۔۔۔ آج تک کھل کر بات نہیں کی جا سکی۔ کبھی اس موضوع پر مختلف اور متبادل رائے سامنے لانے، کشمیری عوام کی رائے کو اہمیت دینے اور اگر اقوام متحدہ کی 68 برس قبل منظور کی گئیں قراردادوں پر عمل ممکن نہیں تو کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

اگر یہ متبادل سامنے لایا گیا تو وہ بھی سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی سرکردگی میں دیکھنے میں آیا۔ کشمیر پر ’’مفاہمت‘‘ کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی لیکن کبھی کسی سیاسی حکمران نے ایسا حوصلہ کیوں نہیں کیا۔ یا ملک کا بے باک اور آزاد میڈیا ریاست کے مقرر کردہ بیانیہ سے ہٹ کر کوئی رائے سامنے لانے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتا۔ یا ان کشمیری لیڈروں کو سامنے آنے، بات کرنے اور اپنا موقف بیان کرنے کا موقع کیوں نہیں ملتا جو کشمیر کی آزادی کو مسلمانوں کی آزادی یا کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ وہ اسے کشمیری عوام کی خود مختاری کا معاملہ سمجھتے ہیں جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو آبادی بھی شامل ہے۔ کسی پاکستانی سیاستدان، دانشور اور صحافی کو کشمیر کے ہندو پنڈتوں کو کشمیری عوام کا لازمی حصہ کہنے اور تسلیم کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ معاملات سیاست اور صحافت کے نوگو ایریاز NO GO AREAS ہیں، جن پر بات کرنا منع ہے۔

سیاستدان جب یہ تسلیم کر لیں کہ انہوں نے کن امور پر بات نہیں کرنی اور کون سے معاملات کو عوام کی نظر سے اوجھل رکھنا ہے تو سیاست میں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے سوا اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ہو یا مریم نواز کو کسی پولیس افسر کا سلیوٹ ۔۔۔۔۔۔۔ اہم ترین قومی مسائل کے طور پر سیاست اور صحافت کے بزرجمہروں کے نوک زباں ہوتے ہیں۔ بھلے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ایسے عسکری معاہدے کر رہے ہوں جن سے پاکستان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ یا امریکی سینیٹرز افغانستان کے سوال پر پاکستان کی پالیسیوں کو غلط اور امریکہ دشمن قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو امریکہ کو بھی پاکستان کے ساتھ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑے گی۔ یا مشرق وسطیٰ میں قطر کے بائیکاٹ کی صورت میں بپا ہونے والا بحران اس حد تک بڑھنے کا اندیشہ ہو کہ پاکستان کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کےلئے خطرہ بن سکے۔ ہم سلیوٹ پر بحث کرتے رہیں گے یا یہ جاننے کےلئے ہلکان ہوتے رہیں گے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے میں جنرل پاشا کا بنیادی کردار تھا یا ان کا ذکر کرکے امریکی سی آئی اے کے سابق ایجنٹ نے پاک فوج کو بدنام کرنے کی سازش کی ہے۔

اس ملک کے عوام کو سازشوں کے جال میں یوں پھنسا لیا گیا ہے کہ اب تو یوں لگتا ہے کہ اہم معاملات سے عام آدمی کو بے خبر رکھنے کی حکمت عملی بھی کسی ’’دشمن‘‘ کی کوئی گھناؤنی سازش ہے اور اس میں اس ملک کے سیاستدان اور تجزیہ نگار یکساں مستعدی سے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ کچھ اس ’’کھیل‘‘ کا حصہ ہیں اور کچھ کو معصومیت میں اس سازش کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چہار طرف سے خطرات میں گھری قوم کے اہم لوگ اور ادارے معمولی عہدے پر فائز ایک پولیس افسر کے سلیوٹ پر یوں بے چین ہوں گویا ملک کی سلامتی کو اس سے بڑا خطرہ آج تک پیش نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali