پی ایس 114 کا ضمنی انتخاب۔۔۔ کانٹے دار سیاسی معرکہ


 پی ایس 114 میں 9 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ اگلے عام انتخابات میں اب غالباً ایک برس کا عرصہ رہ گیا ہے، اس کے با وجود صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت اپنے اپنے امیدوار کے لیے حلقے میں آئی اور انتخابی جلسے کیے۔ حلقے میں ضمنی انتخاب کے لیے چلائی جانے والی بھرپور مہم اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ صرف ضمنی انتخاب نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات، شہر میں مقبولیت کا لٹمس ٹیسٹ تو یقیناً ایک وجہ ہے مگر سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات کے تناظر میں یہ شخصیات اور جماعتوں کی بقا کی جنگ بھی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بار سعید غنی کو ٹکٹ دیا ہے۔ سعید غنی اس حلقے کے مقامی ہیں، اور سینیٹر بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب عرفان اللہ مروت نے آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور یہ خبریں سامنے آئیں کہ عرفان اللہ مروت پارٹی میں شامل ہونے جا رہے ہیں، تو اس کے خلاف پارٹی اور آصف زرداری کی صاحب زادیوں کی طرف سے بھرپور مخالفت کی گئی، جس کے بعد عرفان اللہ مروت نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ تبدیل کر لیا۔اس شمولیت کی مخالفت کرنے والوں میں سعید غنی بھی پیش پیش تھے۔ آصف علی زرداری نے یہ مخالفت برداشت کر لی اور اب ٹکٹ سعید غنی کو دیا ہے کہ اس حلقے سے انتخاب جیت کر دکھاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو، قمر زمان کائرہ، اعتزاز احسن، سمیت کئی رہ نما حلقے کے عوام کو سعید غنی کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرنے کے لیے تشریف لائے مگر آصف زرداری نہ آئے۔اگر سعید غنی اس انتخاب میں کامیاب ہوگئے تو پارٹی میں یہ اس گروپ کی کامیابی ہوگی جو بلاول بھٹو کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ اور اگر سعید غنی ناکام ہوئے تو آصف زرداری فرنٹ سیٹ پر ہوں گے اور شاید سعید غنی کو سینیٹر کی حیثیت سے بھی استعفیٰ دینا پڑے۔ یہ سعید غنی کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔ یہ پیپلز پارٹی میں عوامی سیاست کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔ پارٹی میں آصف زرداری کے طرز سیاست کے مخالفین کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔

ایم کیو ایم اس وقت ایک بحران سے گزر رہی ہے، آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار اپنے قائد کی تصویر کے سائے میں میدان میں اترتے تھے، مگر اس بار معاملہ مختلف ہے۔لندن سے الطاف حسین نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے، تو دوسری طرف ایم کیو ایم نے بھی ایک ایسا امیدوار میدان میں اتارا ہے جو چند روز قبل ہی اس جماعت کا حصہ بنا۔ انتخابی مہم بھرپور ہے مگر دو مسائل ہیں۔ ایک ایم کیو ایم کا ووٹر لندن کی طرف سے بائیکاٹ پر کنفیوژن کا شکار ہے، دوسرا کامران ٹیسوری مقامی نہیں ہیں۔ وہ شاید پہلی بار اس حلقے میں آئے ہوں گے۔ آفاق احمد کی طرف سے بھی ایم کیو ایم پاکستان کے نمائندے کی حمایت کی گئی ہے، جس کا سیاسی طور پر تھوڑا بہت فائدہ ایم کیو ایم کو ضرور ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ فاروق ستار اینڈ کمپنی الطاف حسین کے بغیر یہ انتخاب جیت سکتے ہیں یا نہیں۔اگر ایم کیو ایم ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی تو ایم کیو ایم لندن کی سیاست کو شدید دھچکا لگے گا۔ 1993میں الطاف حسین نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور وہ بائیکاٹ بہت کامیاب تھا۔ اگر اس بار بائیکاٹ کامیاب نہ ہوا تو الطاف حسین کی طرف ریاستی اداروں کا رویہ درست قرار پائے گا۔۔۔۔اورمستقبل قریب میں ایم کیو ایم پاکستان مضبوط ہو گی۔۔۔ بصورت دیگر فاروق ستار اینڈ کمپنی کا مسیاسی مستقبل مخدوش ہو گا۔۔۔۔ یہ ایم کیو ایم لندن کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔ یہ ایم کیو ایم پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔یہ فاروق ستار اینڈ کمپنی کی بقا کی جنگ ہے۔۔۔یہ مائنس الطاف حسین کے حامیوں کے بقا کی جنگ ہے۔۔۔۔

پاکستان تحریک انصاف بھی زور و شور سے انتخابی مہم چلا رہی ہے، پی ٹی آئی نے نجیب ہارون کو اس حلقے سے ٹکٹ دیا ہے۔۔۔ جو تحریک انصاف کے بانی ارکان میں سے ہیں۔۔۔۔ عمران خان نے بھی حلقے کا دورہ کیا اور جلسہ بھی کیا۔عرفان اللہ مروت نے بھی تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے، عرفان اللہ مروت کا علاقے میں سیاسی اثر و رسوخ ہے، اور وہ 2013 میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ تحریک انصاف پُر امید ہے کہ اسے اس حلقے سے کامیابی ملے گی۔ 2013 کے انتخابات میں اچھی پرفارمنس دکھانے کے بعد کسی ضمنی انتخاب میں، یا بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ئی خاص کر کردگی نہیں دکھا سکی۔ یہ انتخاب کراچی میں تحریک انصاف کی سیاست کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ عرفان اللہ مروت کی بقا کی جنگ ہے۔

جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں مگر ان دونوں جماعتوں کے امیدواروں کی کامیابی مشکل نظر آتی ہے۔ گو کہ جماعت اسلامی کے امیدوار ظہور احمد مقامی شخصیت ہیں مگر سیاسی طور پر جماعت اسلامی کمزور پچ پر ہے۔مسلم لیگ ن کے امیدوار علی اکبر گجر میدان میں ہیں مگرمسلم لیگ ن کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔۔۔۔ن لیگ کے کسی مرکزی رہ نما نے سیاسی مہم میں شرکت بھی نہیں کی۔۔

فیصلہ 9جولائی کو ہوگا، مگر اس وقت یہ مقابلہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کی حمایت ایک مذہبی جماعت نے بھی کی ہے، مگر اس حمایت کا پی ٹی آئی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے اپنا پورا زور لگا دیا ہے، کیوں کہ یہ ان دونوں جماعتوں کے سیاسی مستقبل کی بقا کا سوال ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).