عوام کے دکھ اور (خورشید) شاہ صاحب


بڑے بوڑھوں نے سنایا کہ ایک بزرگ بہت دور کہیں پہاڑوں میں قیام کرتے تھے۔ ان تک پہنچنے کا راستہ بہت دشوار تھا۔ جسے غرض ہوتی وہ بہت مشکل سے پہنچ پاتا لیکن خدا کے سینکڑوں مجبور بندے ایسے تھے جو ہر سال ان کے پاس پہنچتے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آیا، اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا، سات آٹھ برس عمر ہو گی، وہ دونوں باہر بیٹھ گئے اور بزرگ کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ باہر آئے اور مسئلہ پوچھا تو بندے نے مالی حالت پتلی ہونے کا رونا رویا اور ایک بات یہ بھی کی کہ یہ جو بچہ ہے یہ سبزی بالکل نہیں کھاتا ہے۔ کھانے پر بہت نخرہ کرتا ہے۔ بابا جی نے معاشی مسائل کے لیے تو وہیں بیٹھے بیٹھے دعا کر دی لیکن بچے کے لیے کہا کہ بھئی اسے لے کر تین چار ماہ کے بعد میرے پاس آنا۔ آدمی بہت حیران ہوا کہ یار پیسوں کے لیے تو ہاتھ کے ہاتھ دعا کروا دی، بچے کا مسئلہ اتنا چھوٹا سا ہے اس کے لیے اتنا وقت پتہ نہیں کیوں دے رہے ہیں، خیر وہ چلا گیا۔

چار پانچ مہینے بعد جب دوبارہ ہمت بندھی اور وقت ملا تو ان کے پاس پہنچا۔ باہر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد بزرگ نکلے تو پوچھا کہ بچے کو نہیں لائے۔ حیران ہو گیا، کہنے لگا آپ کو کیسے یاد ہے بابا میں تو سمجھا آپ بھول گئے ہوں گے۔ بزرگ نے بتایا کہ یار جب پہلے تم نے دعا کرنے کے لیے کہا تھا تو اس وقت میں خود بھی سبزیاں وغیرہ کم ہی کھاتا تھا، قدرتی طور پر رغبت نہیں تھی پھر یہاں پہاڑوں پر ملتا بھی کیا ہے۔ تمہارے جانے کے بعد میں نے کوشش کر کے دو چار سبزیاں ادھر اترائی میں لگائیں، عادت بناتا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سبزیوں اور پھلوں پر گزارہ کرتا رہوں، اب میں مکمل طور پر ٹیسٹ ڈویلیپ کر چکا ہوں، سبزیاں کھانے کی بہترین عادت ہو گئی ہے، اب میں دعا کرتے ہوئے کمفرٹیبل ہوں گا۔ پہلے تو یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ جو کام میں خود نہیں کرتا اس کی دعا کسی اور کے لیے کیسے کروں۔ تو وہ بچہ مجھے اس طرح یاد ہے کہ اس نے میری کئی برسوں کی عادت چھڑوا دی۔

ابھی پچھلے ہفتے سکھر میں عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف محترم سید خورشید شاہ صاحب نے کہا کہ نواز شریف کو دیکھنا چاہئیے، بیس کروڑ عوام کے دل دکھے ہوئے ہیں۔ یہ جو بیس کروڑ عوام ہیں یہ سب کو حزب اختلاف میں رہتے ہوئے ہی یاد آتے ہیں، اقتدار میں رہتے ہوئے ان سے زیادہ برا کوئی نہیں لگ رہا ہوتا۔ دل دکھا ہونا تو بہت کم کہہ دیا شاہ صاحب نے، عوام کا دل ہندکو محاورے کے مطابق پٌھٹ چکا ہے، برباد ہو چکا ہے۔ تو بس وہ بزرگ اسی بات پر یاد آ گئے کہ بھلے لوگ تھے، پہلے عمل کرتے تھے بعد میں نصیحت ہوتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی ریاستیں جل رہی ہیں اور ہمارے حکمران بین بجا رہے ہیں، عالم اسلام مشکلات کا شکار ہے، عالم اسلام کے لیڈر تماشا دیکھ رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

مسئلہ یہی ہے کہ ہم آسمانیں اڑدی پھڑنے کے شوقین ہیں جو گھر بیٹھا ہے اسے نہیں دیکھتے۔ بھئی گھر کے اندر ڈیڑھ دو سو لاشیں بہاولپور کی تھیں اس سے کئی گنا زیادہ پانچ چھ حملوں میں پارا چنار میں گزر گئے، کوئٹہ میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے، کراچی میں ایک قیامت تھی، ہر صوبہ ٹینشن میں ہے، لاشیں ہیں کہ ختم نہیں ہوتیں لیکن دوسرے ملکوں کا غم ہے جو ہمیں سونے نہیں دیتا۔ ہمارے لوگ مرتے ہیں ہمارے بھائی مرتے ہیں تو کل برادر ممالک میں سے کتنے ملک ہیں جو ہمارے پاس آ کر تعزیت بھی کر جاتے ہوں؟ ہر ملک ہیر پھیر کر دہشت گردی کے الزام تک ہمارے اوپر رکھتا ہے، سب کی ٹانگ ہماری گردن پر ہوتی ہے اور ہم اس کے نیچے لیٹے ہوئے بھی چلا رہے ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ یہ ہو گیا فلاں جگہ وہ ہو گیا۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی حیثیت معلوم ہونے کے باوجود ہم ثالثی کروانے کے بھی شوقین ہیں، سعودی عرب اور ایران میں پھڈا ہوا، ہم حاضر تھے کہ ہم ثالثی کروائیں گے، ابھی قطر اور سعودی عرب والے کیس میں بھی آگے آگے کھڑے تھے کہ جی ثالثی کے لیے حاضر ہیں، کیسی ثالثی، کدھر کی پنچائیت، کون سی چودھراہٹ؟ اپنے یہاں تو دیکھ لیں کہ حالت کیا ہے، کوئی ایک دن نہیں گزرتا جو امن سے ہو جب لاشیں نہ گریں اور دنیا بھر کی صلح صفائیاں ہم نے کروانی ہیں۔

بات شاید یہ ہے کہ ہم پہلے والے حالات سے باہر نہیں آ پا رہے، ہمارے ذہن میں شاید ابھی تک وہ اسلامی سربراہی کانفرنس گھومتی ہے، اس وقت حالات اور تھے، تازہ تازہ سقوط ڈھاکہ ہوا تھا، قوم کا مورال ہائی رکھنا تھا، پوری توانائی بروئے کار لا کر وہ کانفرنس ہوئی، ہم مصطفوی ہیں جیسے شاندار ترانے بنے، تمام سربراہان کو پاکستان کے نشان والے طلائی کف لنکس دئیے گئے، سارا ملک دلہن کی طرح سجایا گیا اور جیسے تیسے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوئے۔ لیکن جنہیں وہ سب کچھ بار بار یاد آتا ہے انہیں یہ کیوں نہیں یاد رہتا کہ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کیا تھی اور اب کیا ہے؟ بلکہ کیا ہے نہیں، ٹھیک سوال ہو گا کہ کس کے ہاتھ میں ہے؟

اب تو ٹرمپ شاہ سلیمان کے ساتھ تلواروں کے سائے میں رقص کرتے ہیں اور پاکستان جس کا ایک بھی شہری نائن الیون میں ملوث نہیں تھا اس کے وزیر اعظم تقریر تک نہیں کر پاتے یہ الگ بات کہ اس چکر میں ہماری زیادہ بچت تھی لیکن سود و زیاں کے یہ معاملے ہمیں بعد میں ہی سمجھ آتے ہیں، تو عالم اسلام کی بات ہو رہی تھی۔ ایران بھی اسلامی ملک ہے، ہمارا تقریباً ہزار کلومیٹر بارڈر شئیر کرتا ہے، اس کے ساتھ ہمارے معاملات اس تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ سمجھ سے باہر ہے۔ افغانستان کا بھی یہی معاملہ ہے، وہاں سے آنے والا ہر دوسرا بیان پہلے سے زیادہ تلخ ہوتا ہے، بھارت تو خیر اس دوڑ میں ہی نہیں ہے لیکن سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ صرف چین کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات اچھے ہوں، بارڈروں پر ہر طرف سے کشیدگی ہو ملک کے اندر ہر روز ایک بری خبر منتظر ہو اور ہم سمندر پار ملکوں کے غم میں گھلتے جائیں یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟

شاہ صاحب کی بات اس حد تک بجا ہے کہ عوام کے دل دکھے ہوئے ہیں لیکن کس وجہ سے دکھے ہوئے ہیں اس کا ادراک انہیں ٹھیک سے اپنے دور حکومت میں بھی نہیں ہو پایا اب کیسے ہو گا۔ اس وقت بھی کوئٹہ، کراچی، ہزارہ، پارا چنار میں یہی سب کچھ ہوتا تھا اب بھی یہی ہوتا ہے۔ اس وقت بھی لوڈ شیڈنگ ایک بھیانک مسئلہ تھا اب بھی ہے۔ اس وقت بھی عید ایسے ہی غموں کے سائے میں ڈوبی ہوتی تھی اب بھی ہے۔ اس وقت بھی آٹا، دال، چینی ایسے ہی مہنگے ہوتے تھے اب بھی ہیں۔ اس وقت بھی رمضان میں پھلوں کے ریٹ آسمان چھوتے تھے، اب بھی یہی ہے۔ اس وقت بھی مرغی سٹاک ایکسچینچ کی طرح بکتی تھی آج بھی وہی ہے۔ اس وقت بھی غریب کا بچہ تھانوں میں رلتا تھا اب بھی وہی ہوتا ہے۔ اس وقت بھی مشتعل ہجوم لوگوں کو مار دیتے تھے اب بھی وہی ہوتا ہے۔ اس وقت بھی عید سے پہلے اخباروں میں خبر ہوتی تھی کہ فلاں عورت نے میاں سے عید کا خرچہ نہ ملنے پر خود کشی کر لی، اس بار بھی آئی ہے۔ تب بھی گیس، بجلی، پانی کے بل اپنی مرضی سے آتے تھے، اب بھی وہی ہوتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم کی کرسی اس وقت بھی لڑکھڑاتی تھی، اس وقت بھی لگتا ہے ایک پایہ ٹوٹ گیا ہے۔ کوئی ٹکنے پائے تو کچھ کام ہو۔

تو ایسے وقتوں میں عوام کے غموں کی نمائندگی کے بجائے میثاق جمہوریت کو بچا لیا جائے، یہ زیادہ بہتر ہو گا، خدا یہ پانچ برس پورے کروائے، اگلے پانچ میں دیکھ لیں گے دکھی عوام کا بھلا کیسا ہوتا ہے، جو بھی ہے، جیسے بھی ہے، حل اسی سسٹم سے نکلنا ہے، پہلے اسے مضبوط کر لیجیے۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain