سلیوٹ ہی نے تو بیڑہ غرق کیا ہے


اصل بات یہ نہیں کہ مریم نواز نے پہلے سلیوٹ کیا جس کے جواب میں ایس پی ارسلہ سلیم کو سلیوٹ کرنا پڑ گیا یا ایس پی ارسلہ خود ہی بے قابو ہو گئیں!

اصل مسئلہ مریم نواز کا سیلوٹ قبول کرنا ہے۔ جب آپ پڑھے لکھے ہوں، زمانے کی تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھتے ہوں، جب آپ کی گردن میں احساسِ برتری کا سریہ نہ پڑا ہوا ہو تو آپ خود ہی ہاتھ اٹھا کر سامنے والے کو ایسا کچھ بھی کرنے سے روک دیتے ہیں۔

مگر ایک مریم نواز ہی کیوں؟

اس ایک کمبخت مارے سلیوٹ کے پیچھے ہی تو ستیاناس ہوا ہے، اس ملک کا بھی اور ملک میں بسنے والوں کا بھی۔

ورنہ سلیوٹ صرف سپاہی کرتا ہے، انہیں جن کا عہدہ سرکاری طور پر سیلوٹ وصول کرنے کا اعزاز رکھتا ہو۔

پاکستان کے سرکاری، سیاسی، سماجی اور یہاں تک کہ مذہبی منظرنامے پر نظر ڈال لیجیے ہر طرف یہی نظر آئے گا جس کی لذت صرف مریم نواز کے چہرے پر نہیں دکھتی بلکہ کئی کئی معتبر چہرے اس لذتِ برتری سے سرشار ملتے ہیں۔

میں بھی۔
آپ بھی۔
سپاہی کے سلیوٹ کو تو رکھیے ایک طرف۔

یہ جو مذہبی سلیوٹ ہے اس کے لیے کیا کہیں گے آپ؟
سارے علاماؤں، مولاناؤں، بابا جانیوں، مرشد و عالموں، پیروں اور روحانی علوم کی دکانیں چلانے والوں سے لے کر تعویذ گنڈوں اور جادو کرنے والوں تک۔
سب کمتروں، ضرورت مندوں، بے علم معتقدین سے سجدے کی حد تک قدم بوسی کروانے کا شغل فرماتے ہیں۔

سب کے آگے انسان اوندھے پڑے ہوئے ہیں۔
سب ہاتھ پیر بڑھائے ہوئے ہیں کہ آؤ چومو انہیں۔ یہاں سے بہشت کے دروازے کھلتے ہیں۔ رہِ نجات ہمارے قدموں تلے ہے۔
نگاہوں سے دور نہیں منظر۔ جٹھلانا بھی ممکن نہیں اب۔ وڈیوز بھری پڑی ہیں جو ایک کِلِک پر رکھی ہیں۔ دیکھ لیجیے قدم بوسی کروانے والوں کے باریش نورانی چہروں پر اس کی لذت اور گردن میں پڑا سریہ عبا سے امامے تک۔
یہ سلیوٹ ہی تو ہے!

کس سورۃ، کس آیت، کس حدیث میں اس کی تائید ملتی ہے؟
مریم نواز ہی کے چہرے پر ہی اس کی اکڑ کیوں تلاش کریں ہم!
یہ لذت و اکڑ ان چہروں پر دیکھیے جو دن و رات میں جانے کتنی بار اللہ اور رسولﷺ کا نام لیتے ہیں اور اپنی شخصیت پرستی کرواتے ہیں۔
پھر جو اسے بدعت قرار دیتے ہیں وہ بھی یہی شخصیت پرستی کرواتے ہیں۔
یہ سلیوٹ ہی تو ہے۔

مریم نواز کا ہی حکمرانہ تکبر کیوں تنقید کی زد میں آئے!

کسی بھی حکمران کی یہ پہلی اولاد تو نہیں جو اس تکبر کی لذت لیتی ہے۔ چھوٹے بڑے سرکاری افسروں سے لے کر، منصفوں، قاضی و قاضی کے پیادوں، وزیروں، مشیروں، اسمبلیوں کی کرسیوں پر بیٹھے افراد، طاقت ور اور نام کے سیاست دانوں، جرنیلوں، کرنیلوں میجروں اور کپتانوں سمیت۔ کس کی اولاد باپ کے عہدے کی لذت کو انجوائے نہیں کرتی۔

جس کسی کی گاڑی کو نیلی بتی میسر ہے، اس کی اولاد اس گاڑی میں بیٹھی بھونپو بجاتی، ٹریفک سگنلز توڑتی، ٹریفک کانسٹیبل کو تقریباً کچلتی، سڑکوں پر دندناتی نہیں پھرتی؟
باپ کی کرسی کے اعزاز میں موجود سپاہی سے سلیوٹ نہیں کرواتی؟
باپ سے زیادہ سرکاری پروٹوکول نہیں لیتی؟ باوردی سرکاری سپاہی کس کس کی اولاد کے لیے دوڑ دوڑ کر دروازے نہیں کھولتے؟
چھوٹے چھوٹے وزیروں مشیروں کی اولاد کے پیچھے پولیس موبائل ماری ماری پھرتی ہے۔
یہ سلیوٹ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

ایک بیچاری ارسلہ سلیم کیوں!
ائرپورٹس پر سرکاری اہلکار دوڑ دوڑ کر، جھک جھک کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی اولاد کے ہاتھوں سے سامان لے رہے ہوتے ہیں اور تمام حدود پار کر کے انہیں جلد از جلد باہر نکال رہے ہوتے ہیں۔
یہ سلیوٹ نہیں ہے؟

پھر مجال ہے کوئی تعبیداری نہ کرے!
آج نہیں تو کل نوکری سے جائے گا ہی۔
آج نہیں تو کل نوکری سے نکالنے والے کی باری آئے گی کرسی پر بیٹھنے کی۔

ارسلہ سلیم تو عقلمند دکھتی ہے۔ جوان لڑکی ہے۔ ابھی عمر پڑی ہے۔ بہت دور کی سوچی ہے اس نے اور نہ صرف اپنی نوکری ہمیشہ کے لیے پکی کرلی ہے اس نے بلکہ پروموشنز کی رفتار بھی بڑھا دی اس نے۔ آٹھ دس سال بعد ہم اور آپ عرضی مٹھی میں پکڑے اس کے آگے گڑگڑا رہے ہوں گے حکومتی ایوانوں میں لمحہ بھر کی رسائی کے لیے۔

لیکن صرف ارسلہ سلیم ہی کیوں؟
یہ لوگ جو کمر سے بھی نیچے جھک جھک کر بڑے بڑے سیاست دانوں کے پیر چھوُ رہے ہیں، طاقت ور خواتین کا پرس اٹھا رہے ہیں، یہ کیا کر رہے ہیں؟
نوکری پکی۔ عہدہ پکا۔ دور کی سوچ۔ برسوں کے لیے انویسٹمنٹ۔
یہ سلیوٹ ہی تو ہے۔

فوج بھی ہم سے سلیوٹ ہی چاہتی ہے۔
بس اسی پوائنٹ پر اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ ورنہ کون بدنصیب اور بیوقوف ہوگا جو اپنے ملک کی فوج کا احترام نہ کرتا ہوگا جو اس کے ملک کی حفاظت کرتی ہو جہاں اس کی نسلوں کو پروان چڑھنا ہو!
کون نہیں اپنی نسلوں کے محافظوں سے محبت کرتا۔
مگر جب بات آ جاتی ہے سلیوٹ پر تو راستے بھول بھلیاں بن جاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ فوج سلیوٹ وصول کرنے کے قابل نہیں ہے۔ دراصل اس لیے کہ کمزور سے جب طاقت ور سلیوٹ کا مطالبہ کرتا ہے تو کمزور بپھر جاتا ہے۔ ایک تو سرٹیفائیڈ کمزور! اوپر سے سلیوٹ بھی وہ کرے!
حالانکہ محبت بہت بہت بڑی چیز ہے۔
سلیوٹ بہت ہی چھوٹی سی چیز ہے۔
سلیوٹ مجبوری ہے۔ سمجھوتہ ہے۔ لالچ ہے۔ مطلب پرستی ہے۔ مفاد پرستی ہے۔
ہرگز تابع داری نہیں۔

اہلِ سیاست، اہلِ ریاست، اہلِ مذہب، اہلِ طاقت کو اگر محبت کا معاملہ سمجھ آ جائے تو وہ خود حیرت زدہ رہ جائیں کہ کیسے زمیں کی جڑوں میں پڑے انسانوں کے بیج سے جانثارانِ وطن کی فصل اُگتی ہے اور کیسے جوق در جوق عوام اُمڈے چلے آتے ہیں ایک آوازِ حق پر۔ کیسے سیاست دان لیڈر بنتا ہے اور لیڈر سے دیدہ ور بنتا ہے اور دیدہ ور سے تاریخ میں زندگی پاتا ہے!

سلیوٹ سے برتر گر محبت کا معاملہ سمجھ میں آ جائے تو باریش اہلِ عبا و دستار بھی لرز کر رہ جائیں کہ محبت اپنی شخصیت سے نہیں کروانی، محبت اللہ کی ذات سے کروانی تھی۔ خود کو تو حد کے اندر رکھنا تھا۔ اُڑان کتنی بھی اونچی بھرنا آتی ہو مگر اپنے پر کاٹ کے رکھنے تھے۔ اپنی شخصیت کے داؤ پیچ نہیں دکھانے تھے اور نہ ہی حورانِ بہشت کا لالچ دینا تھا۔ بندگی و اطاعت سکھانا تھی۔ بندگی بھی وہ جس میں بندوں کے حقوق کا معاملہ پرفیکٹ رکھنا تھا۔

اس محبت کا معاملہ اس سوال پر لرزا دے انہیں، اگر سمجھ سکیں کہ اگر روزِ محشر سوال کیا گیا کہ بتا، یہ جو ہجوم سرنگوں بٹھائے رکھتا تھا تو اپنے روبرو، اس سے اطاعت اپنی کروائی تھی یا میری؟

سوال اسی سلیوٹ پر ہی تو آئے گا۔

یہ ہجوم جو جلسوں اور جلوسوں میں بھری دوپہروں میں بھوکا پیاسا جمع کیا جاتا ہے اور للکار للکار کر جسے اشتعال دلایا جاتا ہے اور اس مشتعل اور جذباتی ہوتے ہجوم کو اپنی طاقت کہا جاتا ہے، یہ سب یہی زعم ہی تو ہے کہ عوام ہمیں سلیوٹ مارتی ہے۔

ورنہ عوام تو میوزیکل اسٹیج کے سامنے جھومتے ہجوم کا نام نہیں۔

عوام کچی زمین کی جڑوں میں رینگتی ہوئی ہیپاٹائٹس سی زدہ جسموں میں، زرد پانی اُنڈیلتی مخلوق کا نام ہے جو 1947 سے سلیوٹ کی منتظر ہے۔
جس سے پاکستان بنانے کی اجازت بھی نہیں لی گئی تھی مگر جس نے اپنی زمین غیرمشروط طور پر پاکستان کے لیے پیش کر دی۔
جس دن اسے سلیوٹ کیا گیا اس دن سے نہ مریم نواز کو سلیوٹ وصول کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ارسلہ سلیم کو سلیوٹ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
یہ زرد رنگ عوام آج بھی سیاست دانوں اور طاقت وروں کی نئی اور نوجوان نسل سے سلیوٹ کی امید رکھتی ہے۔

انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ سلیوٹ کرنے کے لیے ہاتھ پیشانی پر نہیں لے جانا۔
دل ہتھیلی پر رکھ کر زمیں پر اترنا ہے۔

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah