جمہوریت کے زینے کا الٹا سفر


حکومت کے چار وزراء نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پاناما کیس میں مقرر تحقیقاتی ٹیم کے کام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر اس کمیٹی نے قطر کے سابق وزیراعظم شہزادہ حمد بن جاسم الثانی کا بیان اپنی حتمی رپورٹ میں شامل نہ کیا تو مسلم لیگ (ن) رپورٹ کو تسلیم نہیں کرے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا یہ موقف جے آئی ٹی کی مدت پوری ہونے کے محض دو روز قبل سامنے آیا ہے۔ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ 60 روز کی مدت مکمل ہونے پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ جے آئی ٹی 10 جولائی کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کر دے گی۔ یہ بینچ اس 5 رکنی بینچ کے ان تین ارکان پر مشتمل ہے جس نے 20 اپریل کو پاناما کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے اکثریتی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی بجائے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے اس سوال کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا تھا کہ لندن کے اپارٹمنٹس خریدنے کےلئے وسائل کہاں سے فراہم ہوئے تھے۔ اس فیصلہ میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ نہ تو دعویٰ دائر کرنے والی تین سیاسی پارٹیاں نواز شریف کے خلاف ٹھوس ثبوت سامنے لا سکی تھیں اور نہ ہی نواز شریف اور ان کا خاندان یہ حساب دینے میں کامیاب ہوا تھا کہ ان کے بیرون ملک کاروبار کا سارا سرمایہ دیانتداری سے کمائی ہوئی دولت ہے اور اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر نہیں لے جایا گیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پہلے ملک میں ہیجانی کیفیت میں اضافہ کرنے کےلئے مسلم لیگ (ن) نے پورا زور لگایا ہے۔ اب چار وزراء کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

وفاقی وزراء کے اعلان نامے اور مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف خاندان کے ترجمانوں کے دعوؤں اور بیانات سے قطع نظر ایک بات واضح ہے کہ جے آئی ٹی جو بھی رپورٹ پیش کرے، وہ متنازعہ ہوگی۔ اور اس کی بنیاد پر سامنے آنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی کبھی ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کا سبب نہیں بنے گا۔ تحریک انصاف کی تین چار سال کی نواز شریف مخالف مہم جوئی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حق و انصاف کے نعرے بلند کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بجائے اس کی مقرر کردہ جے آئی ٹی کے خلاف بیان بازی اور اس کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی کوششیں اس لحاظ سے بار آور ہوئی ہیں کہ قوم کے لوگ نواز شریف کی دولت اور بدعنوانی کے حوالے سے واضح طور سے دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ دونوں گروہ اپنے اپنے طور پر یہ طے کر چکے ہیں کہ نواز شریف گناہ گار ہیں یا معصوم۔ اس لئے جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ ایک گروہ کےلئے حق وانصاف کی کامیابی اور دوسرے کےلئے انصاف اور قانون کا خون ہوگا۔ اس معاملہ میں شروع سے ہی بعض بے قاعدگیاں ضرور رونما ہوئی ہیں اور سماعت کے دوران ، فیصلہ کے بعد اور جے آئی ٹی مقرر کرنے اور اس کا دائرہ کار مقرر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی بعض ایسی غلطیاں کی ہیں جن کی بازگشت کمرہ عدالت کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی سنائی دیتی رہے گی۔ اگر نواز شریف خاندان کے وسائل کو مشتبہ قرار دے کر جے آئی ٹی اس کے خلاف رپورٹ جمع کرواتی ہے اور سپریم کورٹ کسی مزید سماعت یا دلائل کے دور کے بغیر، اس کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کو شدید سیاسی نقصان پہنچے گا لیکن اس سے زیادہ نقصان ملک کے سیاستدانوں پر قائم رہنے والے اعتبار اور بھروسہ کو پہنچے گا۔

نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں عمران خان کی نااہلی کے خلاف دائر مختلف درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے انہیں بھی نااہل قرار دیا جائے۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے ملک کی ایک پرانی سیاسی جماعت اور نئی قوت کے طور پر ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹی کے لیڈروں کو اگر ایسی شقات کے تحت نااہل قرار دینے کا فیصلہ ہوتا ہے جو پہلے سے ہی متنازعہ ہیں تو اس کے ملک کی سیاست کے علاوہ جمہوری عمل پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں منشور، اصول یا سیاسی پروگروام کی بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) سے نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف سے عمران خان کو منفی کر دینے کے بعد ان دونوں پارٹیوں کا شیرازہ بکھرتے دیر نہیں لگے گی۔ بلکہ تحریک انصاف کو عمران خان کی نااہلی کی صورت میں مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ نقصان ہوگا۔ کیونکہ یہ پارٹی نئی ہے اور ابھی تک برسر اقتدار نہیں آ سکی ہے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد سے عمران خان کی سحر انگیز قیادت میں پارٹی نے مقبولیت کا ڈرامائی سفر شروع کیا ہے۔ اس کی پہچان اور کامیابی کی امید بھی عمران خان کے منظر نامہ میں رہنے سے ہی وابستہ ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں ان کی صاحبزادی مریم نواز اور بھائی شہباز شریف کسی حد تک پارٹی کو سنبھالنے کےلئے ہاتھ پاؤں ماریں گے اور کم از کم پنجاب کی حد تک اکثریت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریں گے اور اس میں کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن عمران خان کی نااہلی کی صورت میں ان سے سیاسی امیدیں وابستہ کرنے والے سیاسی افراد اور خانوادوں کی اکثریت کسی نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کی تلاش میں سرگرداں ہوگی جبکہ اصل پریشانی اس نوجوان نسل کو ہوگی جو ملک میں موثر تبدیلی اور بدعنوانی سے پاک نظام قائم کرنے کےلئے عمران خان سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ نوجوانوں کی اس نسل کےلئے ناقابل قبول حد تک حیران کن اور چونکا دینے والا ہوگا جو ملک میں خوفناک سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ ماضی میں ایسی ہی صورتحال میں فوج کو اقتدار سنبھالنے اور بار بار جمہوری عمل اور آئینی حکومتوں کو معطل کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔

دیگر عوامل و دلائل کے علاوہ پاکستان کی مختصر تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ مارشل لاء یا فوجی حکومت ملک کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس طرح نہ صرف آئین کی خلاف ورزی اور عہد شکنی ہوتی ہے بلکہ اہم قومی فیصلے صرف ایک فرد کی صوابدید کے مطابق طے پاتے ہیں۔ یہ ایک شخص خواہ کتنا ہی دیانتدار، عقلمند اور ایماندار ہو لیکن یہ اجتماعی دانش یا مل جل کر فیصلے کرنے کے عمل کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ایوب خان کے پہلے مارشل لاء سے لے کر پرویز مشرف کی آخری ایمرجنسی کے دوران ہونے والے فیصلے اس بات کے گواہ ہیں کہ فوجی لیڈروں نے ملک کو نقصان پہنچانے اور اس کی سفارتی ، سیاسی اور اقتصادی صورتحال خراب کرنے میں سیاستدانوں سے زیادہ برا کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی پاکستان کی تاریخ ہی کا سچ ہے کہ ملک کے سیاستدانوں نے بھی بار بار فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے اور بار بار سیاسی و جمہوری نظام کو اصولوں پر استوار نہ کرنے کا طرز عمل اختیار کرکے نقصان اٹھانے کے باوجود اپنی اصلاح کرنے اور سیاسی جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کےلئے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ نہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کی گئی، نہ عوام کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا گیا اور نہ حصول اقتدار کی بجائے اصولوں کی سربلندی کےلئے کام کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان کے عوام، سیاستدان اور سپریم کورٹ سمیت تمام اہم ادارے اس وقت جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ماضی کی ان ہی سیاسی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔

بدنصیبی کی بات ہے کہ اس کے باوجود ماضی کے واقعات و سانحات سے سبق سیکھنے کی بجائے مسلسل پرانے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گویا جو طریقہ، رویہ اور مزاج ناکامی کا سبب بن چکا ہے، اسی کو اختیار کرتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ اب اس کوشش کا نتیجہ مختلف نکلے گا۔ عمران خان ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کا ماضی بے داغ ہے اور ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام بھی نہیں ہے۔ لیکن جلد از جلد اقتدار کی ہوس، ان کے ہاں بھی بار بار اقتدار میں رہنے والے لیڈروں سے سوا تر ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ درپردہ بادشاہ گر قوتوں کا آلہ کار بننے سے لے کر دوسری پارٹیوں سے بھاگ کر آنے والے ابن الوقت قسم کے سیاسی لیڈروں کو ساتھ ملانے تک کی غلطیاں کر رہے ہیں۔ کسی لیڈر کی اندھی عقیدت و محبت میں مبتلا ہونے کی بات دوسری ہے لیکن یہ سمجھنا محال ہے کہ عمران خان جن لوگوں کو ساتھ ملا کر اقتدار کےلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اس میں کامیابی کی صورت میں وہ کیوں کر وہ تبدیلی لا سکیں گے جس کا دعویٰ کرکے وہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو صلواتیں سناتے ہیں۔

جمہوریت ایک مشکل نظام ہے۔ اس میں آگے بڑھنے کےلئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور ایثار و صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ تعلیم کی کمی اس نظام کو مکمل کامیاب بنانے میں رکاوٹ کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس کے باوجود یہی وہ نظام ہے جس میں عوام ووٹ کے ذریعے اقتدار کا حصہ بنتے ہیں اور ہر سطح پر کسی نہ کسی طریقہ سے مل جل کر فیصلے کرنے کی روایت پروان چڑھتی ہے۔ ملک کے سب سیاستدانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ایک بار پھر الٹے پاؤں کا سفر کرتے ہوئے واپس جمہوریت کے زینے کی پہلی سیڑھی تک پہنچنا چاہتے ہیں یا موجودہ نظام کی برائیوں کے باوجود اس کی اصلاح کےلئے کام کرنے کا حوصلہ کر سکتے ہیں۔ ملک میں پائی جانے والی رائے عامہ کی موجودہ تقسیم بعض قوتوں اور سیاسی جماعتوں کےلئے وقتی طور پر تو فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن ایک دوسرے کو زیر کرنے کا رویہ اس تقسیم کے ذریعے ملک و قوم کےلئے ایک نئے المناک باب کا اضافہ بھی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali