برہان وانی کی تصاویر پر آئی ڈی کیوں بلاک ہوتی ہے؟


8 جولائی 2016 کو بھارتی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے مشہور ترین مسلح کشمیری حریت پسند برہانی وانی کو شہید کر دیا ہے، تو فیس بک پر برہان وانی کی تصاویر اور ان کے بارے میں پوسٹس کا طوفان آ گیا۔ برہان وانی خود بھی سوشل میڈیا پر سرگرم تھے اور وہ کشمیر کی مقامی مسلح جدوجہد آزادی کے پوسٹر بوائے کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ان کی اس تحریک پر یہ الزام کوئی نہیں لگا سکا کہ اس کے پیچھے پاکستان ہے۔ نئی کشمیر نسل برہان وانی کی دیوانی ہو چکی تھی۔

لیکن فیس بک پر برہان وانی کی تصویر لگانے اور ان کے بارے میں پوسٹیں کرنے والوں کو ایک حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے ان کا فیس بک اکاؤنٹ اچانک ایک دو ہفتے کے لئے بلاک کر دیا جاتا تھا۔ پوسٹ کرنے والوں کی پوسٹیں اور ویڈیو ڈیلیٹ کر دی جاتی تھیں۔ اس پر بین الاقوامی پریس میں بھی شور مچا کہ فیس بک سینسر شپ کی طرف جا رہی ہے۔

فیس بک نے چند دن خاموشی سے گزارے اور میڈیا کے سوالات کا جواب نہ دیا مگر پھر شدید دباؤ کا شکار ہونے کے بعد اسے اپنا آفیشل موقف دینا پڑا۔

”ہمارے کمیونٹی سٹینڈرڈ ایسے مواد پر پابندی عائد کرتے ہیں جو دہشت گردوں، دہشت گرد تنظیموں یا دہشت گردی کی تعریف یا حمایت کرتا ہے، اور ہم اس کے بارے میں آگاہ ہوتے ہی اسے ہٹا دیتے ہیں۔ ہم ان موضوعات پر بحث کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن کسی بھی دہشت گردانہ مواد کو واضح طور پر اس تناظر میں پیش کیا جانا چاہیے جو ایسی تنظیموں یا ان کی پرتشدد سرگرمیوں کی مذمت کرتا ہو“۔

اس برس برہان وانی کی برسی پر دوبارہ یہی صورت حال درپیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک کس وجہ سے بھارت کے دباؤ میں ہے اور کشمیر کے معاملے میں ایک واضح جھکاؤ رکھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ فیس بک پر داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کے مواد سے اس سختی سے نہیں نمٹا جاتا جو برہان وانی کے معاملے میں دکھائی جا رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بھارتی حکومت فیس بک پر اثرانداز ہو سکتی ہے مگر پاکستانی حکومت ایسا نہیں کر سکتی؟

بلاسفیمی والے مواد کے بارے میں بھی ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ فیس بک نے پاکستانی حکومت کے دباؤ کو خاطر میں لانے سے انکار کیا۔ اگر کسی غیر ملکی کمپنی کا نمائندہ دفتر پاکستان میں نہ ہو تو اس پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور پاکستانی عدالتیں اسے احکامات نہیں دے سکتی ہیں۔ فیس بک کا پاکستان میں دفتر نہیں ہے۔ یہی لاچاری گوگل کے معاملے میں پیش آئی تھی جب یوٹیوب سے گستاخانہ ویڈیو ہٹانے سے اس نے انکار کر دیا تھا اور مجبوراً پاکستانی حکومت نے یوٹیوب پر ہی کئی برس پابندی عائد کیے رکھی تھی۔ بالآخر پاکستانی حکومت کو ہی ہار ماننی پڑی تھی، وہ گستاخانہ ویڈیو ابھی بھی موجود ہے، یوٹیوب پر سے پابندی ہٹائی جا چکی ہے۔

فیس بک نے 2010 میں بھارتی شہر حیدرآباد میں اپنا سینٹر قائم کیا۔ یہی سینٹر پاکستان کے معاملات کو بھی دیکھتا ہے۔ آپ کوئی پوسٹ رپورٹ کریں، اس کو ہٹائے جانے یا لگے رہنے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھارت میں کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کرنے والے بھارتی شہری ہوتے ہیں۔ ان کو برہان وانی دہشت گرد ہی دکھائی دے گا، آزادی کا مجاہد نہیں۔

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فیس بک اور گوگل وغیرہ بھارت میں دفاتر کیوں کھولتے ہیں اور پاکستان میں ایسا کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟

ہمارے قوانین نہ تو بزنس فرینڈلی ہیں اور نہ ہی نجی افراد اور کمپنیوں کو انتقامی حکومتی کارروائیوں سے تحفظ دیتے ہیں۔ ان کا کوئی کیس پھنس جائے تو وہ برسوں عدالتوں میں دھکے کھا کر بھی انصاف پانے سے محروم ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جعلی مشروبات کی فیکٹریاں پکڑے جانے پر یہ بین الاقوامی مشروب ساز کمپنیاں جعل سازوں کو سزا دلوا کر عبرت کا نشان بنانے کی بجائے میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہیں کہ خبر دبا دی جائے۔ ان کو علم ہے کہ جعل ساز ہمارے کمزور نظام انصاف کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ جائیں گے مگر ان مشروب ساز اداروں کے برانڈ پر ٹھپہ لگ جائے گا کہ وہ جعلی ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں فیس بک کے نائب صدر جوئل کیپلان بلاسفیمی وغیرہ کے معاملات پر بحث کرنے پاکستان آئے تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے فیس بک کو پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کی دعوت دی۔ یعنی دوسرے لفظوں میں چوہے کو دعوت دی کہ وہ کڑکی میں پھنس جائے۔ چوہے نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ اردو جانتا ہوتا تو غالباً یہی شعر پڑھتا ”ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا“

اس لئے اب صبر کریں۔ فیس بک پر پاکستان میں کس شے پر پابندی لگے گی، اس کا فیصلہ بھارتی ہی کریں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar