حسین نقی سے باتیں (1)


حسین نقی سے بات چیت کا سلسلہ ہم صحافت کے ذکر سے شروع کرتے ہیں۔ وہ میڈیا کے پھیلاﺅ سے خوش ضرور ہیں لیکن اس کے معیارپر کڑے سوال بھی قائم کرتے ہیں۔ ان کے بقول ”صحافیوں میں تجسس اور مختلف چیزوں کے بارے میں جاننے کا شوق نہیں رہا۔ تحقیق نہیں کرتے۔ سامنے کی چیزوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ باقی تاریخ کو تو چھوڑدیں، پانچ برس قبل کے واقعات سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ اپنا اخبارتو درکناراپنی چھپی رپورٹ تک نہیں پڑھتے۔ اب تو سنتے ہیں، ایسے بھی رپورٹرز ہیں، جو اپنی رپورٹ بغیر کاٹ چھانٹ کے شائع کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ایسے کسی رپورٹر کا ظفر اقبال مرزا ایسے ایڈیٹرسے واسطہ پڑ جاتا تو وہ اس کی خوب خبر لیتا۔ میڈیا کے پھیلاﺅ کا فائدہ تو یہ تھا کہ وہ لوگوں کی تربیت کرتا۔ انھیں معلومات فراہم کرتا، لیکن میڈیا زیادہ تر غلط خبریں دیتا ہے۔ خبروں کوسنسنی خیز بنا کر پیش کرتا ہے۔

غیراخلاقی چیزیں دکھاتاہے۔ یہ تو میڈیا ہاﺅسز کی مینجمنٹ کی ذمے داری تھی کہ وہ کچھ تو ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتے، جو علم رکھتے، چیزوں کی حساسیت سے واقف ہوتے اورانھیں دیکھ کر چلنے دیتے۔ اخبار اور ٹی وی میں بزنس منیجر اگر کسی چیز کو چھاپنے سے منع کردے تو وہ چل نہیں سکتی۔ آگہی کے متبادل ذرائع ضرور آگئے ہیں۔ جیسے انٹرنیٹ ہے، سوشل میڈیا ہے۔ لیکن ان پر اعتبار کرنے سے قبل چیزوں کی چھان پھٹک ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ صحافت کے پروفیشن میں ایسے لوگ بہت کم ہو گئے ہیں، جوپیشہ ورانہ ذمے داری اور دیانت کو مقدم جانتے ہوں۔ پریس ٹرسٹ کے قبضے کے بعد صحافیوں کی کلیئرنس پولیس اور آئی ایس آئی سے کرائی جانے لگی۔ پاکستان میں اس وقت کم ہی ایسے اینکرز ہوں گے، جو آزاد اور چینل میں اپنے بوتے پربیٹھے ہوں۔ زیادہ تر اینکرز کو یا تو ایجنسیاں بھرتی کرتی ہیں یا ان کی کلیئرنس وہاں سے ہوتی ہے۔ ان سب باتوں سے میڈیا زوال پذیر ہوا ہے۔ صحافت میں لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آگئے ہیں، ایسے لوگ پہلے بھی آتے تھے لیکن ان کے مقابلے میں دیانت دار اور باصلاحیت لوگ بھی ہوتے تھے، اب ایسا نہیں ہے اور غلط لوگ زیادہ قوت پکڑ گئے ہیں۔ حکومتوں کے قریب ہونا صحافیوں کے لیے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ “

رپورٹرز کونوٹس نہ لیتے دیکھ کر انھیں تعجب ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں یہی وجہ ہے۔ اکثررپورٹرز اصل بات رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ نوٹس لینے سے بڑھ کر وہ تو گفتگو ریکارڈ کرنے کے حق میں ہیں۔ اس مناسبت سے اپنی یادوں کو آواز دیتے ہوئے یہ واقعہ سناتے ہیں ”بش سینئر پاکستان آیا تو اس کی پریس کانفرنس کو میں نے رپورٹ کیا۔ میں نے اس سے سوال پوچھا کہ ضیا الحق نے خود کو legitimize کرنے کے لیے جو لوکل گورنمنٹ کا نظام دیا ہے، کیا وہ اسے جمہوری سمجھتے ہیں؟ اس پر بش نے جو جواب دیا، میں نے اسے رپورٹ کر دیا۔  48 گھنٹے گزرنے کے بعد صاحبزادہ یعقوب خان نے تردید کردی کہ بش نے بات اس طرح نہیں کی تھی، جس طرح میں نے رپورٹ کیا۔ اس بیان پربہت شور مچا اور کہا گیا کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثرکرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پی پی آئی پر بڑا دباﺅ پڑا۔ اس پر میں نے ٹرانسکرپٹ بھیج دیا۔ میرا موقف تھا کہ تردید کرنا تھی تو اسی وقت کردیتے، اڑتالیس گھنٹے بعد اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ امریکا میں بش پراس بیان کی وجہ سے کافی لے دے ہوئی کہ اس نے ایک شرمناک سیاسی عمل کو جمہوری کیسے کہہ دیا۔ معروف دانشور اقبال احمد نے اس معاملہ کو امریکا میں اٹھایا اور ڈاکٹر مبشر حسن کے ذریعے مجھ سے پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ کی کاپی منگائی۔ “

حسین نقی سے جس کمرے میں بیٹھے ہم بات چیت کررہے تھے، ادھر ہر طرف کتابوں کا انبارتھا، ایک شیلف میں بااصول ضمیرنیازی کی کتابیں دیکھ کر اس باضمیرصحافی کے کام کے بارے میں ان کی رائے جاننے کے مشتا ق ہوئے تو انھوں نے بتایا ”ضمیر نیازی بہت دیانت دار اور محنتی صحافی تھے۔ پاکستانی صحافت پرکام کرنے والا کوئی بھی شخص ضمیر نیازی کا کام نظر انداز نہیں سکتا۔ ان کی کتابیں اچھے کرانیکلز ہیں۔ ان کا کام ریفرنس کا درجہ رکھتا ہے۔ ”صحافت پابند سلاسل “ میں پی ایف یوجے کا ذکر کم ہونے کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ پی ایف یو جے پر الگ سے کتاب لکھ رہے تھے، جس میں اس کی تمام جدوجہد کا ذکر ہونا تھا لیکن بیماری کے باعث وہ اسے مکمل نہیں کر پائے۔ ویسے کتاب میں پی ایف یو جے کا تذکرہ تو ہے۔ ”سول اینڈ ملٹری گزٹ “کو بند کرنے کا مطالبہ جن مدیروں نے کیا ان میں فیض صاحب بھی شامل تھے، اس کا ذکر ضمیر نیازی نے کر دیا تو پروگریسیو لوگوں نے اعتراض کیا، مگر یہ ایک تاریخی بات ہے، اگر آپ نے غلطی کی ہے، اور آپ نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اخبار بند کردو تو یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔

انسان غلطی کرسکتے ہیں، اگر زندہ ہوں تو انھیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور اگر اس دنیا میں نہیں ہیں توغلطی کو ریکارڈ کرنا چاہیے۔ محمود علی قصوری بہت اچھے انسان تھے لیکن مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان نے جو ضمنی الیکشن کرایا، اس میں سے پیپلز پارٹی کا جو وفداس وقت حصہ وصول کرنے گیا، اس میں قصوری صاحب بھی تھے، جب کہ پیپلز پارٹی کا ادھر وجود ہی نہیں تھا۔ جسٹس اے آر کارنیلس بہت دیانت دار جج تھے، لیکن یحییٰ خان کے دور میں وزیر قانون بننے کی غلطی انھوں نے کی۔ آئی ایچ برنی اور زہیر صدیقی دونوں اعلیٰ پائے کے صحافی تھے personel integrityکے آدمی تھے مگر انھوں نے ضیائی دور میں بھٹو حکومت کے بارے میں وائٹ پیپر لکھا، جس میں انھوں نے انٹیلی جنس رپورٹس کو سورس کے طور پر استعمال کیا۔ “

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2