سیاسی عمل میں نکھار صرف سیاسی عمل سے ہی ممکن ہے


گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں یہ سوچ کر بہت پریشان ہوتا رہا کہ پیر 10جولائی کی صبح اُٹھ کر اس کالم میں کیا لکھا جائے گا۔ اس روز کی دوپہر 6مختلف ریاستی اداروں کے نمائندوں پر بنی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے روبرو شریف خاندان کے اثاثہ جات کے بارے میں اپنی تفتیشی رپورٹ پیش کرنا تھی۔ میں اس رپورٹ کی باقاعدہ رونمائی سے قبل اس کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عدالتی عمل کے بارے میں اگرچہ قیاس آرائیوں سے میرا مسلسل اور سوچا سمجھا اجتناب میرے کام نہیں آیا ہے۔
20اپریل کو سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے پانامہ کے حوالے سے جو فیصلہ سنایا تھا،اس کے بارے میں بہت محتاط انداز اور مناسب الفاظ کے ساتھ میں نے اپنی بے ساختہ اور ایماندارانہ رائے کا اظہار کیا تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے بنائی کمیٹی میں MIاور ISIکے نمائندوں کی شمولیت،پاکستان کی مخصوص تاریخ کے تناظر میں شریف خاندان کے اثاثوں کے بارے میں اُٹھے سوالات کو بالآخر عسکری قیادت کے حوالے کرتی نظر آئے گی۔ میرے خدشے کے اس ایمان دارانہ اظہار کو 5مئی کے روز تشکیل پانے والی کمیٹی نے اپنے معاملات میں مداخلت سمجھا۔ اسے ”متنازعہ“ بنانے کی جسارت قرار دے کر سپریم کورٹ کے روبرو ایک رپٹ بھی لکھوادی۔
سپریم کورٹ نے میری زبان بندی کا حکم تو نہیں دیا لیکن مجھے لکھتے ہوئے ہمیشہ وہ پنجابی محاورہ یاد رہتا ہے جو اصرار کرتا ہے کہ طاقتورکا گھونسہ بسااوقات آپ کے وجود کے لئے ربّ سے بھی زیادہ نزدیک ہوتا ہے۔ JITکے معاملات پر چپ کرکے ”دڑوٹ“ لینا ہی مناسب سمجھا۔
پتھر میں بند ہوئے کیڑے کو بھی ربّ کریم رزق عطا فرماتا ہے۔ میری خوش قسمتی کہ اتوار کی رات سونے سے پہلے کراچی کے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے پر ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج مکمل ہوکر ہمارے سامنے آگئے۔ ان نتائج نے مجھے دس جولائی کی دوپہر کو پیش ہونے والی رپورٹ کے بارے میں قیاس آرائی سے بچالیا۔
اتوار کی شام ٹی وی کھولتے ہی جب کراچی کے ضمنی انتخاب کا ذکر شروع ہوا تو شدت سے اس شخص کی یاد آنا شروع ہوگئی جس نے ایم کیو ایم سے الگ ہوکر ڈیفنس کے ایک مکان میں ”کمال کی ہٹی“ کھولی تھی۔ خود کو ماضی کے گناہوں کا تسلسل سے اعتراف کرتے ہوئے پارسا بنائے کسی بھی شخص کی طرح”کما ل کی ہٹی“ چلانے والا اپنے مخالفین کے خلاف مسلسل بدزبانی کرتا رہا۔ جانے کونسے صحافتی تقاضے کے تحت اس کی ہر پریس کانفرنس ہمارے ملک کے ”آزاد“ و”بے باک“ہونے کے دعوے دار ٹی وی چینل Liveدکھانے پر مجبور ہوتے۔ ایم کیو ایم کے لندن میں کئی برسوں سے بیٹھے ”بانی“ کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار کئی نامی گرامی افراد ”کمال کی ہٹی“ پر آکر اپنے گناہوں کے اعتراف کے بعد معافی کے طلب گار نظر آتے۔ ان سب نے مل کر اپنی وطن سے محبت کو ”ثابت“ کرنے کے لئے ایک ”پاک سرزمین پارٹی“ کے قیام کا اعلان بھی کردیا۔ہمیں بتایا گیا کہ تازہ تازہ ”صاف ستھرے“ ہوئے ان لوگوں کی جماعت اب لندن میں بیٹھے شخص کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گی۔
میں بدنصیب مگر یہ فریاد کرتا چلا گیا کہ کیماڑی سے بندر روڈ پر چلتے ہوئے بزنس روڈ بھی آتا ہے اور رنچھورلین بھی۔ پھر ”گاندھی گارڈن“ ہے جہاں سے تین ہٹی کے پل تک پہنچ کر راستے ماضی کے لالوکھیت اور گولی مار کی جانب جانکلتے ہیں۔ ان علاقوں کی گلیوں اور محلوں میں مقیم نوجوانوں کے لئے بے تحاشہ گناہوں کے بعد غسل فرماکر پاک سرزمین کے جھنڈے میں لپٹے ہذیانی ”پارسا“ کے پاس کوئی پیغام نہیں۔ اس کی ہٹی چل نہیں پائے گی۔
فاروق ستار وغیرہ نے دل کڑا کرکے ایک درست فیصلہ کیا۔ خود کو اس نوزائیدہ ”پارسا“ سے دور رکھا۔ 22اگست 2016کی تقریر کے بعد تنہا ہوئے شخص سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھی۔ یہ بات درست ہے کہ اتوار کا ضمنی انتخاب وہ جیت نہیں پائے۔ اس انتخاب میں دل وجان سے حصہ لے کر انہوں نے خود کو ووٹوں کے حوالے سے مگر ایک قوت بھی ثابت کردیا۔ فاروق ستار کی جانب سے کھڑے ہوئے امیدوار کو لندن سے آئے ”بائیکاٹ“ کے حکم کے باوجود متاثرکن ووٹ ملے ہیں۔ ان ووٹوں نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کراچی فی الوقت پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے علاوہ کسی تیسری جماعت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔
عمران صاحب کی جماعت نے بھی اس انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کیاتھا۔ اس کے لئے ووٹ مانگنے ”کپتان“ خود کراچی بھی تشریف لے گئے تھے۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ پولنگ سے چند ہی روز قبل ”اصل رونق“ لگانے اگرچہ ٹی وی سکرینوں پر ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی سنانے والے راولپنڈی کے بقراط عصر بھی تشریف لے گئے۔
ٹی وی Ratingsاور ووٹ حاصل کرنے کی قوت مگر دو قطعاََ مختلف معاملات ہیں۔ پی ٹی آئی کا ”ککھ سے لکھ ہوا“ امیدوار بالآخر بہت بُری طرح ہارگیا۔ عرفان مروت بھی، جو کبھی اس حلقے کی اہم ترین شخصیت سمجھے جاتے تھے اس کی کوئی مدد نہ کرپائے۔ ایک ”کالعدم“ اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کی حمایت بھی ”روشن خیال“ تحریک انصاف کے کام نہ آسکی۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی کم از کم کراچی کی حد تک ایسے ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک جیالے نے ”وفاداری بشرطِ استواری“ کی بنیاد پر یہ سیٹ جیت لی ہے۔ سینیٹر سعید غنی اور ان کے والد ہمیشہ ٹریڈیونین سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ ”نظریاتی کارکن“ ہیں۔ خوب جانتے ہیں کہ حلقوں میں مقید نچلے اور متوسط طبقے کے ووٹر کو ”بجلی،پانی اور سڑک“ سے جڑے معاملات کا حل درکار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ حقیقت کہ ان کا ”نمائندہ“ ان کی بات سننے کو ہر وقت ان کے درمیان موجود اور میسر رہے۔ آصف علی زرداری ایسے کارکنوں کو اپنی ”حقیقت پسندانہ“ طبیعت کی وجہ سے کوئی زیادہ وقعت نہیں دیتے۔ طے کر بیٹھے ہیں کہ 1985ءکے بعد سے انتخابات کا کھیل دھڑے باز وڈیروں اور چودھریوں نے اُچک لیا ہے۔ اس حلقے کے لئے ان کی ترجیح عرفان اللہ مروت تھے۔ غلط یا صحیح بنیادوں پر سابق صدر غلام اسحاق خان کے اس طاقت ور داماد کے ساتھ کراچی کے قدیمی جیالوں،خاص طورپر،خواتین کارکنوں کے دلوں میں ”بُری یادیں“ موجود ہیں۔آصف صاحب کی بیٹیوں نے یکجا ہوکر عرفان اللہ مروت کے بارے میں مذمتی ٹویٹ کے ذریعے کارکنوں کے جذبات کا اظہار کردیا۔ ٹکٹ ایک سُچّے کارکن-سعید غنی- کو مل گیا اور اس نے دن رات محنت سے میڈیا میں اپنی جماعت کے بارے میں موجود بے پناہ تعصب کے باوجود یہ نشست جیت لی۔
اتوار ہی کی شب کراچی سے بہت دور گلگت بلتستان اسمبلی کی ایک خالی ہوئی نشست پر بھی پیپلز پارٹی کا امیدوار جیتا ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مُلّا اس امیدوار کے خلاف یکجا ہوگئے تھے۔ گلگت کو کراچی سے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود پیپلز پارٹی نے ایک حوالے سے اکٹھا دکھایا ہے۔ ملکی یکجہتی کے حوالے سے یہ ایک اہم پیغام ہے۔اگرچہ اس سے بھی زیادہ عیاں یہ حقیقت ہوئی ہے کہ برسوں کی محنت اور رشتوں سے بنی سیاسی جماعتوں کو ”کمال کی ہٹی“ جیسی لانڈریاں کھولنے کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی عمل میں نکھار صرف سیاسی عمل ہی کے ذریعے آتا ہے۔ کہیں اور سے اس نکھار کو ”نازل“ نہیں کیا جاسکتا۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).