قصور وارکون؟ جے آئی ٹی یا شریف خاندان؟


جے آئی ٹی کی ساٹھ روزہ محنت کی بدولت سپریم کورٹ میں جمع ہونیوالی رپورٹ پر ملک بھر میں لے دے جاری ہے، طرح طرح کی بولیاں، حکومت مخالفین رپورٹ پرشاداں جبکہ حاکم جماعت کے کارکنوں اوررہنماؤں کولگتاہے کہ ان سے انتقام لیاجارہا ہے، جے آئی ٹی کے دو تین اراکین کی اہلیت اور حمایت پر انگلی اٹھائی جارہی ہے، جے آئی ٹی کس کے کہنے پر بنی؟ ا س کے ذمہ جو کام تھا وہ کس حد پورا ہوا؟ یہ الگ سوالات ہیں لیکن جے آئی ٹی ممبران کاتعین براہ راست عدالت نے کیا، گویا عدالتی اقدامات کو بھی براہ راست چیلنج کیاجارہاہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں عدالت کیافیصلہ سناتی ہے؟ رپورٹ میں کیا خامیاں ہیں؟ جے آئی ٹی پر کسی کا دباؤ تھا یا نہیں؟ رپورٹ میں مبہم باتیں ہیں یا نہیں؟ ان سوالات سے ہٹ کر پوری ایمانداری سے وہ جوابات پڑھیں جو شریف خاندان کے لوگ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر دیتے رہے۔ ان جوابات کو پڑھنے کے بعدکوئی بھی ذی شعور فیصلہ کرسکتاہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے پیچھے کسی اور کا نہیں خود شریف فیملی کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ کیوں اورکیسے کی تفصیل میں پڑے بغیر جوابات پڑھیے اور خود فیصلہ کیجئے۔

شہبازشریف :میں وراثت کی تقسیم کے معاہدے میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہ ہونے کے سوال پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں۔ 2009 میں خاندانی جائیداد کی تقسیم میں لندن فلیٹس شامل نہ ہونے اور کسی کی جانب سے معاملہ نہ اٹھایا جانے کے سوالات پر ان کا کہنا تھا کہ وہ غالباً حسین نواز کے حصے میں آئے اور ان کی تحویل میں تھے، اس لئے یہ معاملہ کسی نے نہ اٹھایا۔ لندن فلیٹس حسن نواز کو نہ دینے کے سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ حسین نواز بڑا بھائی ہے اس طرح کے سوالات خاندان میں نہیں اٹھائے جاتے۔ شہباز شریف سے فیملی کی خواتین کی وراثت سے دستبرداری کا پوچھا گیا تو وزیر اعلی پنجاب نے غصے میں کہا کہ عقلمندی اسی میں ہے کہ میں جے آئی ٹی سے چلاجاؤں۔

مریم نواز:جے آئی ٹی میں وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز سے کیا پوچھا گیا اور انہوں کیا جواب دیا؟ دنیا نیوز نے سب پتا چلا لیا۔ مریم نواز کہتی ہیں پاکستان میں ان کی تمام جائیداد ڈیکلیئرڈ ہے، والد نے جو دیا تحفے میں دیا، حسین نواز نے ٹرسٹی بنایا۔ انہوں نے جے آئی ٹی میں بیان دیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق دستاویزات پر حسین نواز کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کیے۔ مریم نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ نیلسن، نیسکول اور کومبر کمپنیوں کی ٹرسٹ ڈیڈ ان کے پاس ہیں، حسین نواز کی دوسری شادی کا 2005 میں پتہ چلا، حسین نواز چاہتے تھے ان کے انتقال کے بعد جائیداد شریعت کے مطابق تقسیم ہو، 2 فروری 2006 کو ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے، خاوند نے ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے۔ مریم نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ 2006 سے پہلے جب بھی لندن اپارٹمنٹس میں قیام کیا، جانتی تھی کہ یہ ہمارے نہیں، آف شور کمپنیوں سے متعلق دستاویزات پر حسین نواز کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کیے، دستاویزات پر دستخط ہمیشہ حسین نواز کی ہدایت پر کرتی ہوں، نہیں یاد کہ آخری بار نیلسن اور نیسکول کی دستاویزات پر کب دستخط کیے، منروا کمپنی کے دفتر کبھی نہیں گئی۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان کی تمام جائید اد ڈیکلیئرڈ ہے، میڈیا پر ان کا انٹرویو توڑ مڑور کر پیش کیا گیا۔

کیپٹن صفدر :وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اہلیہ کے اثاثوں سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ جدہ سٹیل مل کے قیام میں کردار پر حسین نواز کے بیان کی تردید کی۔ شریف خاندان سے پندرہ ہزار ریال ماہانہ وصول کرنے کا انکشاف بھی کیا۔ کیپٹن صفدر کے ٹرسٹ ڈیڈ کو پہنچاننے سے انکار نے بہت سے سوالات کو جنم دیا، لگتا ہے کہ انہوں نے ڈیڈ پڑھے بغیر دستخط کیے۔ وزیر اعظم کے داماد 2001 اور 2002 میں اثاثوں کی مالیت دوگنا ہونے کا جواز نہ پیش کر سکے۔ انہوں نے عدالت میں جمع اپنی 4 متفرق درخواستوں سے لاتعلقی ظاہر کی

میاں نوازشریف:تحقیقات کے دوران وزیر اعظم کے زیادہ تر جوابات غیر اطمینان بخش اور رویہ ٹال مٹول والا تھا۔ یقین نہیں لیکن شاید حسن نواز لندن فلیٹس کے مالک ہیں، حسن اور مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں جانتا، شوگر ملوں کی قرض سیٹلمنٹ کا کوئی علم نہیں، سعید احمد سے کاروباری تعلق نہیں، قاضی فیملی اور شیخ سعید کو نہیں جانتا، کاروباری تعلق بھی نہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے کے جے آئی ٹی کو دوران تحقیقات اس انداز میں جوابات دیے، ہل میٹل رقم فارن فنڈنگ کے تحت آنے سے متعلق جواب نہیں دیا۔ وزیر اعظم کے بیان کا زیادہ حصہ سنی سنائی باتوں اور حقائق کے منافی قرار دیا گیا، نواز شریف نے بتایا کہ وہ خاندانی کاروبار سے منسلک ہیں جبکہ انہوں نے لندن فلیٹس کی ملکیت۔ سے متعلق جواب مبہم انداز میں دیا، ایک سوال تھاآپ نے العزیزیہ اورگلف سٹیل کے ریکارڈ کی موجودگی کا کہا، وکیل نے نفی کی؟ جواب: یقین سے نہیں کہہ سکتا ہو سکتا ہے میں نے ریکارڈ سپیکر کو دیا ہو،

سوال: اثاثوں کی تقسیم کے وقت لندن فلیٹس کا معاملہ زیرغور آیا؟ جواب: لندن فلیٹس حسن اور حسین کے پاس تھے، یقین نہیں شاید حسن نواز لندن فلیٹس کے مالک ہیں، سوال: حسن اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں جانتے ہیں؟ جواب: حسن اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ سوال: آپ کو التوفیق کمپنی کے قرضے کی سیٹلمنٹ کا معلوم ہے؟ جواب: سیٹلمنٹ کا سنا لیکن نقاط نہیں جانتا ایسے ہی جوابات رمضان، چوہدری شوگرملز، ہل میٹل کی رقم سے متعلق تھے۔

ان جوابات کو پڑھنے کے بعد خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ قصوروارجے آئی ٹی کے اراکین ہیں یاکوئی اور؟ آخری بات کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں اٹھائے جانیوالے نکات نے جہاں شریف خاندان کی حیثیت مشکوک بنادی ہے وہاں ان کی اہلیت پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، لیکن اس معاملے کو لے کر اگرحکومت پارلیمنٹ کا رخ کرتی ہے یا وزیراعظم کو اعتماد کاووٹ دلانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے بے سود مشق اس لئے قرار دیاجائے گا کہ الزامات پارلیمنٹ میں نہیں لگے یا ثبوت پارلیمنٹ نہیں مانگ رہی، جہاں تحقیقات جاری ہیں جہاں الزامات کی بھرمارہوئی، اعتماد کا ووٹ یا صفائی وہاں دینے کی ضرورت ہے نہ کہ پارلیمنٹ کو اس کی کوئی ضرورت اور نہ ہی پارلیمنٹ کا اس معاملے میں کوئی کردار ہوناچاہیے۔ یہ کسی بھی شخص یا خاندان کا ذاتی معاملہ ہے اس کا جمہوریت یا جمہوری اداروں سے کوئی تعلق نہیں ہے ہاں اگر کسی بھی اہم جمہوری عہدے پر فائز کسی بھی شخص کے کسی بھی کردار سے پارلیمنٹ کی عزت، تکریم کو خطرہ ہوتو پھر معاملہ پارلیمنٹ میں آسکتاہے لیکن تحقیقی معاملات اگر عدالت میں جاری ہوں تو پھر پارلیمنٹ ان امور پر فیصلہ کرنے یا اعتماد کاووٹ دینے کی حق دار نہیں ٹھہرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).