عمران سیریز کی تازہ قسط


کپتان سن چوہتر سے میرا ہیرو ہے مگر یاد نہیں پڑتا کہ کسی ٹیسٹ یا ون ڈے میں امپائر نے لگاتار دو یا تین ایسے آؤٹ دے دیے ہوں جو کپتان کے خیال میں ناجائز ہوں اور پھر اس نے چلتے میچ سے واک آؤٹ کردیا ہو یا سیریز سے احتجاجاً دستبردار ہوگیا ہو یا ساتھی کھلاڑیوں سے یہ کہہ بیٹھا ہو کہ تمہیں کھیلنا ہے تو کھیلو میں تو جارہا ہوں ڈریسنگ روم۔ بس یہی یاد پڑتا ہے کہ ایسے مواقع پر کپتان نے ہمیشہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور پھر اگلے میچ کی تیاری شروع کردی۔

ذرا یہ بات سمجھنے میں میری مدد کریں کہ جب محبوبہ بیوی اور محبوب شوہر یا غیر سیاسی شخص سیاسی ہو جاتا ہے تو وہ طبعاً، نظریاتاً و شخصاً ایسا ذہنی یو ٹرن کیسے اور کیوں لے لیتا ہے کہ خود کو بھی پہچاننا دشوار ہوجائے۔ مثلاً سن اسی کے عشرے کے جیلانی برادران کو یاد کیجیے اور پھر آج کے شریف برادران کو دیکھئے۔ ذرا بانوے تک کے گلیمرس ایمی کو دیکھئے اور آج کے قبلہ رو عمران خان کو تکیے۔ ذرا نوے کی دھائی کے مولانا قادری کو ذہن میں لائیے اور پھر آج کے علامہ طاہر القادری الکناڈوی کو بھی۔ ذرا ایم آر ڈی والے جوشیلے فضل الرحمان کو یاد کیجیے اور آج کے ہوشیلے حضرت مولانا کو ملاخطہ فرمائیے۔

بات کپتان کی ہوتے ہوتے جانے کہاں نکل گئی۔ انا ہزارے اور اروند کیجری وال تو آج کے کردار ہیں۔ پاکستان میں اب سے پندرہ سترہ برس پہلے جب کپتان نے سیاست کی کوچنگ لینی شروع کی تو لگا کہ،
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی۔

یہ تو کپتان کی بابت کوئی نہیں سوچتا تھا کہ بھٹو کا نیا جنم ہوا ہے مگر کچھ کالم نواز نجومی بابے یہ ضرور کہتے پھرتے تھے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ چکے ہیں اور موقع مل گیا تو ایک دن خود بھی ٹھیک ہوجائے گا اور باقیوں کو بھی ٹھیک کردے گا۔ یہ اندازے ایسے بے پر کے بھی نہیں تھے۔ کیونکہ پاکستان کے سیاسی جوراسک پارک میں پہلا قدم رکھنے والے کپتان کے بریف کیس میں پہلے ہی سے ورلڈ کپ اور کینسر اسپتال جیسی دو مثالی کامیابیاں پڑی تھیں۔

اگرچہ شوکت خانم میموریل اسپتال کی پچاس کنال زمین وزیرِ اعلٰی نواز شریف کی حکومت نے الاٹ کی تاہم اس واقعہ کو اسپتال کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود پروجیکٹ ہسٹری میں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کیجیے گا۔ یہ بھی کیا اتفاق ہے کہ جب کپتان نے ورلڈ کپ اٹھایا تب بھی نواز شریف وزیرِ اعظم تھے اور اب جب کہ کپتان نے سنگ اٹھایا ہے تب بھی وہی وزیرِ اعظم ہیں۔ مگر شنید ہے کہ آج نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ پنجاب کے متعدد پیلے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سوشیالوجی کے مضمون کو عمرانیات اور روسو کی تھیوری آف سوشل کنٹریکٹ کو نظریہ معاہدہِ عمرانی کہتے ہوئے بھی کتراتے ہیں۔ مباداً سالانہ کانفیڈینشل رپورٹ پر کوئی اثر پڑ جائے۔

( حالانکہ جو مضمون میں لکھنا چاہتا ہوں اس کا ان باتوں سے دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ پھر بھی قلم باز نہیں آ رہا )۔

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ میاں اینڈ خان میں ٹام اینڈ جیری والا رشتہ ہے۔ ساتھ بھی گذارہ نہیں، ساتھ کے بغیر بھی گذارہ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے جتنا بھی بچنے بچانے کی کوشش کریں پر مقدر کی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ کپتان کو شکوہ ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں کراچی اور پنجاب میں رج کے دھاندلی ہوئی۔ کراچی میں شاید چند سیٹوں پر مگر پنجاب میں قومی اسمبلی کی لگ بھگ چونسٹھ سیٹوں پر۔ کپتان نے اس سمسیا کے سمادھان کے لیے تمام مروجہ طریقے استعمال کرلیے۔ الیکشن کمیشن سے لے کے عدالتِ عظمی تک کا دروازہ کھٹکٹا لیا مگر کوئی کپتان کی سنجیدہ شنوائی کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ اب کپتان نے عام انتخابات کی پہلی سالگرہ پر دمادم مست قلندر کا اعلان کردیا ہے۔ اور اس کارِ خیر میں کپتان کی صوبائی اتحادی جماعتِ اسلامی نے بھی آمادگی دکھائی ہے۔ وہی جماعتِ اسلامی جس کی کڑی سودے بازانہ شرائط کے سبب گذشتہ برس کپتان سے اس کا انتخابی اتحاد نہ ہو سکا۔ اور اسے بھی خدا کے واسطے ایک خوشگوار حادثہ ہی سمجھا جائے کہ علامہ طاہر القادری نے بھی انھی تاریخوں میں بھدی جمہوریت کو ٹھوک پیٹ کے ٹھیک کرنے کا پروگرام ایک بار پھر بنا لیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تینوں سیاسی ندیاں کب کسی ہیڈ پنجند پر ایک ساتھ مل کر دریائے مزاحمت میں بدلتی ہیں۔

ویسے علامہ طاہر القادری کا سلطنتِ اتفاقیہ کے زمانے ہی سے شریف برادران سے اس سے بھی زیادہ قریبی واسطہ رہا ہے جو ایمی۔ خیر جانے دیں ورنہ بات پھر کہیں اور نکل جائے گی۔
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ کپتان ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر اپنا چھینا ہوا حق واپس لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات بھی پلے پڑتی ہے کہ جزوقتی سونامی صفت مہمان اداکار علامہ صاحب الکناڈوی کو جمہوری ڈھانچے کا قبلہ درست کرنے پر فی الحال بھی مامور من اللہ ہی سمجھنا چاہیے۔ مگر یہ بات عقلِ ناقص میں نہیں آرہی کہ جماعتِ اسلامی کو انتخابی نتائج سے اچانک کیا شکایت ہو گئی۔ جب کہ اس نے سن ستر سے اب تک ہر طرح کے نامساعد انتخابات میں کم ازکم تین سیٹیں ضرور حاصل کی ہیں اور اس ریکارڈ کا ہمیشہ تندہی سے تحفظ بھی کیا ہے۔
یہ فقیر ایک اور پہیلی بھی بوجھناچاہتا ہے۔ آیا پنجاب اور کراچی میں ہی انتخابی جھرلو پھرا تھا یا باقی ملک میں بھی؟ یا پھر پنجاب و کراچی کے برعکس اندرونِ سندھ اور بلوچستان میں سالِ گذشتہ کا انتخابی عمل کپتان کے خیال میں تسلی بخش رہا اور خیبر پختون خوا میں تو ایسی شفاف پولنگ ہوئی کہ کپتان کی عقابی نگاہ میں قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست کے نتائج متنازعہ نہیں ہوئے۔ تو خیبر پختون خوا میں بھی اسی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تھے کہ جس نے باقی صوبوں میں نگرانی کی یا پھر خیبر پختون خوا میں انتخابات کا نظام الیکشن کمیشن نے انٹرنیشنل کرکٹ کاؤنسل ٹائپ کسی ادارے کو بالا بالا آؤٹ سورس کردیا تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر کس سے پوچھا جائے کہ ایک صوبے میں کیوں اتنے صاف ستھرے انتخابات ہوگئے اور باقی صوبوں بالخصوص پنجاب میں نہ ہوسکے۔

میں جانتا ہوں کہ آپ سخت بور ہورہے ہیں لہذا ایک قصہ سن لیں جس کا اس مضمون سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ ہوا یوں کہ ایک صاحب کو دوسرے صاحب نے تو تو میں میں کے دوران گینڈے کا بچہ کہہ دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ اگلے برس دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو پہلے صاحب نے دوسرے کا گریبان پکڑ کے کہا کہ خبیث تو نے مجھے گینڈے کا بچہ کیوں کہا تھا؟ دوسرے صاحب نے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے کہا کہ یار سال بھر پرانی بات پر اب کیوں لڑ رہے ہو۔ پہلے صاحب نے کہا کہ کمینے میں نے گینڈا آج ہی دیکھا ہے۔

بات یہ ہے کپتان کہ ایک ایسے ملک میں جہاں فاطمہ جناح کو پٹواریوں اور ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے ہروادیا گیا۔ جہاں سب سے بڑی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے جوتے مارے گئے۔ جہاں ایک برسرِ اقتدار سیاستدان کی جانب سے دھاندلی زدہ انتخابات کی ری پولنگ کی پیش کش کو ٹھکرا کر اسے حالتِ معزولی میں پھانسی پر جھلا دیا گیا۔ جس ملک میں تمام جماعتوں کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہوئے غیر جماعتی نظام کے مقبرے میں دفنانے کی کوشش ہوئی۔ جہاں بقول عدالتِ عظمی انیس سو اکیانوے کے عام انتخابات ہی سالم چوری ہوگئے۔ جہاں دو ہزار دو میں ایک ٹیسٹ ٹیوب سیاسی بے بی کو اقتدار مل گیا۔ جہاں صدارتی منصب کو حلال کرنے کے چکر میں منعقدہ ریفرینڈموں میں پچانوے فیصد ووٹ پڑ پڑا گئے۔ وہاں اگر لنگڑی لولی جمہوریت بغیر آسمانی بجلی گرے ایک سویلین دور سے اب دوسرے دور میں داخل ہو ہی گئی ہے کہ جس کا آپ بھی ماشاللہ حصہ ہیں تو ایسی کیا عاجلانہ قیامت ٹوٹ پڑی کہ آپ باقیوں کے غصب شدہ انتخابی حقوق بھول بھال کر اپنا حق لینے نکل کھڑے ہورہے ہیں۔

ہاں دو ہزار تیرہ کے انتخابات غیر منصفانہ تھے۔ اس لیے نہیں کہ جس کا جہاں بس چلا اس نے چمتکار دکھا دیا بلکہ اس لیے کہ کچھ جماعتوں کو نان اسٹیٹ ایکٹرز نے محصور کر لیا اور کچھ جماعتوں کو میدان میں بے خوف و خطر کودنے کا اجازت نامہ جاری کردیا۔ اور اس اجازت نامے کو جیب میں رکھ کے کامیاب ہونے والوں نے کرنے والے کام چھوڑ کے ’’یہ تیرا یہ میرا ’’ شروع کردیا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مصروفیت ڈھونڈھ لی۔ اور جن کے ہاتھ انتخابی میدان میں واقعی باندھے گئے تھے انھوں نے جو مل گیا اسی پر صبر شکر کرلیا۔ تو کیا آپ کو واقعی اس وقت محسوس نہیں ہوا کہ نا برابری کی دوڑ میں دوڑنا بھی دھاندلی کی ہی ایک شکل ہے۔

اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو باہمی چھینا جھپٹی میں جمہوری قلفی کا خستہ ٹھیلہ ہی الٹ جائے اور ان شریر بچوں کے مزے آجائیں جو قلفی لوٹنے کے چکر میں طرح طرح کی واسکٹیں پہنے منڈلا رہے ہیں یا پھر اس ٹھیلے کو جیسے تیسے سب کھینچتے ہوئے اگلی منزل تک لے جائیں تاکہ اگلی انتخابی ورک شاپ میں اس کی مرمت ہوسکے۔

اس دوران اگر آپ صرف خیبر پختون خوا کو ہی اپنے زمانے کی کرکٹ ٹیم اور شوکت خانم اسپتال کی انتظامیہ کی طرح سیدھا کرلیں تو اگلے قومی الیکشن میں آپ کو رونے گانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آخر ووٹر کس لیے ہیں۔

پیر 5 مئی 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).