کیا ہم انسان ماحولیاتی سیریل قاتل ہیں؟


انسانی تاریخ گواہ ہے کہ معدو میت کے خطرے سے دو چار ہونے والے جانوروں کی کسی بھی نسل کو نا پید ہونے سے روکا نہیں جاسکا۔ بلکہ انسانوں کا کردار ان کو نا پید کرنے میں ضرور رہا ہے۔

دو لاکھ سال قبل انسان نے افریقہ کے صحراؤں سے باہر قدم رکھا تب سے زمینی اور آبی جانوروں پر ایک نا ختم ہونے والی قیامت گزر رہی ہے۔ یہاں انسانوں سے مراد آج کے جدید دور کے انسان کے آبا و اجداد ہیں، جنہیں سائنسی زبان میں ہم ’’ہو مو سیپینس ‘‘کہتے ہیں۔ آج اگر زمینی یا آبی مخلوق کو انسانوں سے خطرہ ہے تو انسانی تاریخ پر نظررکھنے والوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ انسانی قدم جہاں بھی پڑے وہاں کی غیر انسانی مخلوق کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔

آج سے کوئی 45 ہزار سال قبل انڈو نیشیا کے جزیروں سے نکل کر انسان کھلے سمندروں کو پار کر کے آسٹریلیا کے جزیرے پرپہنچا۔ پہلی مرتبہ انسان افریقی اور ایشیائی ماحولیاتی نظام سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور ایک بہت ہی مختلف آسٹریلیائی ماحولیاتِ نظام سے واسطہ پڑا۔ اس سے پہلے ہم انسان سخت اور مشکل ماحول کو اپنانا سیکھ چکے تھے مگر قدرتی ماحول میں کسی قسم کی تبدیلی یا اس پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے قاصر تھے، مگر کروڑوں سالوں میں بننے اور کامیابی سے چلنے والے آسٹریلیائی ماحولیاتی نظام کو انسانوں نے صرف چند ہزار سالوں میں ہی نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

انسانوں کے بر اعظم آسٹریلیا کی زمیں پر قدم رنجا فرمانے کے صرف چند ہزار سال بعد ہی 24 میں سے 23 بڑی جسامت والے جانور نا پید ہوگئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس عمل میں ماحولیاتی تبدیلی کا بھی ایک ہاتھ ہو سکتا ہے۔ مگر قدرتی ماحولیاتی ارتقاء میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ کہ وہ ایسی مسلسل آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا از خود مقابلہ اور اپنی مرمت کرسکے۔ اس سے پہلے آنے والی ہر ماحولیاتی تبدیلی کا آسٹریلیا کے جانوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سر خرو ہوئے۔ مگر یہاں ہم صرف انسانی عوامل کا ذکر کریں گے جن سے ان علاقوں کے لاکھوں سالوں سے کامیابی کے ساتھ چلنے والے ماحولیاتی نظام کو انسانی وجود سے نا قابل تلافی خطرات لاحق ہوئے۔

یہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے ممکن ہوا؟ ہمارے آبا و اجداد جب افریقہ سے باہر نکلے تو وہ اچھے شکاری بن چکے تھے۔ شکار کے لئے کئی قسم کے ہتھیار بھی ایجاد کر چکے تھے اور بعد کے کئی ہزار سالوں کا تجربہ بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ آسٹریلیا کے چرند پرند اس دو ٹانگوں والی نئی نا مخلوق سے نا واقف تھے ان کے ارتقا میں ا نسان سے خوف یا دفاع کی صلاحیت پیدا ہونے کا وقت ہی نہیں ملا کہ انسانوں نے ان کا بے دردی سے شکار کرنا شروع کردیا۔ بڑے جانور کا حمل لمبا ہوتا اور ہر حمل میں بچے بھی کم ہوتے اور ہر بچے کے بیچ وقفہ بھی زیادہ ہوتا، اگر چند ماہ کے بعد ایک جانور قتل کیا جائے تو چند سو سالوں کے بعد ہی مرنے والے جانوروں کی تعداد پیدا ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہوجائے گی۔ پھر وہ وقت بھی جلدآ پہنچا جب انسان نے آسٹریلیا میں آخری Diprotodon کو بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لئے قتل کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ ء ہستی سے مٹا دیا۔

جزیرہ آسٹریلیا صرف ایک مثال نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ، مڈگاسکر کے جزیروں، شمالی اور جنوبی امریکہ برا عظم میں بھی یہی کچھ ہوا۔ انسان سائبریا اور الاآسکا سے کوئی سولہ ہزار سال پہلے Mammoth، Mastodons (آج کے ہاتھی جیسے مگر حجم میں کئی گنا بڑے جانور) کا پیچھا کر تے کرتے شمالی امریکہ میں داخل ہوئے اور وہاں کے ماحولیاتی نظام کو آسٹریلیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔ اگلے دو ہزار سالوں میں منفرد پر جاتیوں کی اقسام صفا ہستی مٹ چکی تھی۔ ، Giant ground sloth saber-toothed cat جو 30 ملین سال تک امریکہ میں زندہ رہا مگر انسانوں کے آنے کے دو ہزار سال کے اندر اندرہی اس زمین سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگیا۔ مطلب کہ انسان نے جہاں بھی قدم رکھا سب سے پہلے اس علاقہ کے چرند پرند کے خاتمے کا آغاز ہی ہوا ہے۔

صنعتی انقلاب سے پہلے تک صرف زمینی مخلوق ہی انسانی عتاب کا شکار ہوتی آئی تھی مگر اب کیمیائی، صنعتی فضلہ، پلاسٹک اور سیوریج کا پانی سمندروں اور دریاؤں میں بہانے سے پانی کی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس سے نا صرف سمندری بلکہ انسانی زندگی بھی شدید متاثر ہورہی ہیں۔ بلیو فین، ٹونا، بلیو وہیل، وہیل شارک اور دوسری سمندری مخلوق آلودگی اور بے جا شکار کی وجہ سے ان کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دو چار ہیں۔

اب تک 4ء1 تا 8ء1 ملین کے درمیان نو ع حیوان کی سائنسی طور پر شناخت ہوچکی ہے جس میں سے ہر سال 200 ناپید ہورہے ہیں۔ یہ عمل قدرتی طور پر ناپید ہونے والے عمل سے 100 گنا زیادہ ہے۔ پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی ایک تازہ رپورٹ میں جانوروں کی رہائش گاہوں میں موجودہ کمی کو ’’عالمی وبا ‘‘اور’’ چھٹی بڑی پیمانے پر جانوروں کی معدومیت کی لہر ‘‘بتایا گیا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جانوروں کی ر ہائش گاہوں کی تباہی، آلودگی، انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، ضرورت سے زیادہ زمینی وسائل کا استعمال، ترقی کے نام پر انسانی سر گرمیاں اور ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ اس سے پہلے زمین پر آنے والی پانچ جانوروں کی معدومیت کی لہروں میں سے ایک وہ بھی تھی جس سے دنیا سے ڈائناسور کا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا تھا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ پچھلی پانچ مرتبہ جانوروں کی معدومیت کی وجہ قدرتی ماحولیاتی تبدیلی کے واقعات تھے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ چھٹی لہر پہلے سے زیادہ شدید ہوگی۔ یہ غیر معمولی تحقیق آنے والے ان خطرناک دور کے مسئلہ کی اصل شدت پر توجہ دلاتی ہے۔

تحقیق کے مطابق تقریباً 30 فیصد تمام ممالیوں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی کمی اور ان کی مقامی آبادیوں کا نقصان ہورہا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر حصوں میں ممالیوں کی آبادی رہائش گاہوں کے نقصان کی وجہ سے اپنے 70 فیصد ممبران کو کھونے کے دھانے پر ہیں۔ جس میں چیتا، زرافہ، افریقی شیر ( جس کی آبادی میں 1993؁ء سے آج تک 43 فیصد کمی آئی ہے) اور کئی دوسرے ممالیہ بھی شامل ہیں۔

اخبار ڈان کی تازہ رپورٹ کے مطابق نئے اسلام آباد ایئر پورٹ کے لئے کشمیر ہائی وے پر بننے والی 25 کلومیٹر لمبی میٹرو لائن کی وجہ سے 960 کے قریب بڑے درختوں کو کاٹا جائے گا۔ درختوں کی کٹائی اور جنگلی جانوروں کی رہائش گاہوں کے خاتمے کی وجہ سے جنگلی سوروں اوردیگر کئی جانوروں اور پرندوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یاد رہے پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی جس کا کام ماحولیات کا تحفظ ہے، پہلے ہی اس پروجیکٹ کو این۔ او۔ سی جاری کرچکی ہے۔

کسی ناپید ہوتی یا معدومیت کے خطرے سے دو چارجانوروں کی نسل کو بچانے سے پہلے ہمیں نہ صرف اس زمین بلکہ اس پر انسانی ترقی جاننا بہت ضروری ہے کہ انسانی ترقی کے نام پر ہونے والی سر گرمیاں نہ صرف اس زمین بلکہ اس پر بسنے والی ساری مخلوق کو ایک بڑے سانحے کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ آج بھی ڈونالڈ ٹرمپ جیسے لیڈر اور کئی عام لوگ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انسانی ہوس اس کرہٗ ارض کو نا قابل ِ تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

معروف اسرائیلی مصنف یورول ہار اری نے اپنی مشہور کتاب ’’سیپینس‘‘ میں انسانوں کو’’ماحولیاتی سیریل قاتل‘‘ کہا ہے اوریہ کافی حد تک ٹھیک ہی کہا ہے۔ انسان نے جہاں جہاں اپنے قدم رکھیں ہیں وہاں پر بسنے والی ہر غیر انسانی مخلوق پر ظلم ہی کیا ہے۔

اس زمین کے اعلیٰ باسی جب اس بات پرمتفق ہوں کہ کسی کو اس کے مذہب، رنگ و نسل کی بنیاد پر ناحق قتل نہیں کیا جائے گا مگر پھر بھی لاکھوں قتل کیے جارہے ہوں وہاں انڈس ڈولفن، تلور، بلیو وہیل کی کیا حیثیت۔ تاریخ کا سبق یہی کہتا ہے کہ اس زمین کو سب سے بڑا خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ انسانوں سے ہی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).