نواز شریف اور پانامہ کیس: ایک پاکستانی امریکن کی رائے


میاں محمد نواز شریف کے بارے میں میری 1999 تک کوئی رائے نہیں تھی۔ اُن کے موٹر وے کے پراجیکٹ کافی خوش آئند تھے مگر اس کے علاوہ اُن کی کوئی بات متاثر کن نہیں نظر آئی تھی۔ 1998میں جب اُنہوں نے ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے پاکستان میں ایٹمی دھماکہ کیا تو میرا خیال تھا کہ اُن کو ملک کے وسائل کو تعلیم، صحت، غربت کے خاتمے اور آبادی کے کنٹرول کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا۔ 1999میں بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تھے جو کہ موجودہ وز یراعظم نرنیدر موڈی کے برعکس ایک بردبار شخص تھے۔ وہ پاکستان کے ساتھ امن کے بارے میں مخلص تھے کہ انہں معلوم تھا کہ ہمسائے کے ساتھ ا من کے ساتھ رہ کر ہی اُن کا ملک صحیح ترقی کر سکتا ہے۔ نواز شریف نے اُن کے خلوص سے متاثر ہو کر اُن سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ واجپائی صاحب نے اُس سال پاکستان کا دورہ کیا اور خصوصاً مینار پاکستان گئے جو کہ علامتی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت پاکستان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے امن کی خواہش رکھتا ہے۔ اُن کے اس دورے پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے سخت احتجاج کیا۔ اُن کے مینارِ پاکستان کے وزٹ کے بعد جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان کو ’’وضو‘‘کروا کے ’’پاک‘‘ کیا۔ یاد رہے کہ واجپائی نے 2004؁ میں جنرل مشرف کے فوجی دور میں بھی پاکستان کا دورہ کیا مگر اُس وقت پاکستان میں کہیں بھی کسی بڑے احتجاج کا منظر سامنے نہیں آیا۔

نواز شریف، واجپائی ملاقات کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب پاکستان اوربھارت میں امن پر سنجیدگی سے کام شروع ہو گیا ہے اور یہ دونوں ملک اپنے مسئلے جنگ کے میدان کی بجائے میز پر بیٹھ کرحل کر یں گے۔ یہ بات واضع ہے کہ اس امن کی بغیر دونوں ملکوں کی ترقی بہت مشکل ہے۔ ان ملکوں کا محدودبجٹ جنگوں کی تیاری میں لگنے کی بجائے غریب عوام کی بہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ پاکستان کو خصوصاً یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ بھارت میں پاکستان سے کہیں زیادہ تعداد میں مسلمان رہتے ہیں جو بھارت پاکستان دشمنی سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

1999 ؁ میں ہی واجپائی کے دورے کے ایک ماہ بعد جنرل مشرف نے بھارت کے ساتھ کارگل کی جنگ شروع کر دی جس میں ایک اندازے کے مطابق چار ہزار کے قریب فوجی جوان شہید ہوئے۔ آرمی کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد 400 کے قریب ہے۔ نواز شریف کو امریکہ کے اُس وقت کے صدر، بل کلنٹن کو کہہ کر اس جنگ کو ختم کروانا پڑا۔ بدقسمتی سے اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے امن کے امکانات ختم ہو گئے۔

2001؁ جنرل مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت ختم کر کے اُن کو ملک بدر کر دیا۔ ہم نے امریکہ میں اس کے احتجاج میں ایک گروپ بنایا جس کو پاکستان میں جمہوریت کو بحال کرنے کا نام دیا۔ ہمارے اس گروپ کے ممبر ہر سال نیو یارک میں جنرل مشرف کے اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس کےاجلاس کے وزٹ پر اُن کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھے ہوتے۔ کچھ پاکستانی جنرل مشرف کے حق میں بھی تھے۔ اُن کے خیال میں وہ روشن خیال پاکستان کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اُن میں سے بہت سے لوگوں کو جنرل مشرف کی اس تقدیر کے بعد مایوسی ہوئی جسمیں انہوں نے پاکستان کی عورتوں کے ریپ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ یہ امریکہ اور کینیڈا کے ویزے لینے کا ایک بہانہ ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ جناب عمران خان سے میری ملاقات بالٹی مور کے ایک ریسٹورنٹ میں اگست 2004؁ میں ہوئی جہاں اُنہوں نے چند پاکستانیوں کے سامنے تقریر کی۔ ہم اُن کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے البتہ ہمیں لگا کہ اُن کے پاس جنرل مشرف کی غیر آئینی حکومت کے خلاف کوئی پلان نہیں ہے۔ 2008؁ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جنرل مشرف کے خلاف ڈٹ جانے کے بعد وکلا کی تحریک میں ہم نے یہاں بہت زور وشور سے حصہ لیا۔ ہم نے ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشن فار جسٹس اور ڈیموکریسی کے نام سے ایک اور تنظیم بنائی۔ ہماری جمہوریت کی بحالی اور جسٹس کی تنظیموں میں پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے لوگ بھی شامل تھے۔

ہمارے کچھ ڈاکٹروں نے پاکستان جاکر وکلا کی تحریک کے احتجاجی مظاہروں میں حصہ بھی لیا۔ اُس وقت پاکستان کو سیاسی لیڈر شپ کی سخت ضرورت تھی کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ملک سے باہر تھے۔ جب یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو ہم نے پی ٹی آئی کے کارکنان سے کہا کہ اس وقت عمران خان کو سامنے آکر اس تحریک کو لیڈ کرنا چاہیے۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ عمران خان کہیں روپوش ہو گئے ہیں اور اُن کے کارکن بھی اُن سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔ ہمیں اُن کے اس قدم سے بہت مایوسی سی ہوئی ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ عمران خان نے جمہوریت کے نفاذ کے لئے اس وقت لیڈ نہ کرکے اپنی سیاسی میچورٹی کو ثابت کرنے کا وہ موقع کیوں گنوایا۔ حالانکہ بعد میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف اُن کے دھرنوں سے معلوم ہوا کہ وہ احتجاج کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

نواز شریف کی حکومت مکمل طور پر بے داغ نہیں ہے۔ وہ پٹواری سطح پر رشوت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ اُن کی حکومت پر سفارش کی بنیاد پر اسامیوں کو بھرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے بجلی مکمل بحال کرنے کے وعدے بھی پورے نہں کیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُنہوں نے ماضی میں ٹیکس کی ادائیگی مکمل طور پر نہ کی ہو۔ اگر یہ باتیں درست ہیں تو یہ باتیں بھی درست ہو سکتی ہیں کہ جنرل مشرف نےباہر کے بنکوں میں بہت سے ملین ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ اُن پر پاکستان کے آئین کو توڑنے اور کارگل کی بیکار جنگ میں بہت سی جانوں کے ضیاع کا الزام ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے نام سے چندہ لیتے ہیں مگر اُن میں سے کچھ پی ٹی آئی پر خرچ ہو تے ہوں۔ یہ الزام غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی ہو سکتا ہے۔ پھر ان کی پارٹی میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جن پر ماضی میں کرپشن کے الزامات لگے۔ سنا ہے کہ اُن کے دھرنوں سے اسلام آ باد کو بہت سے ملین روپوں کا نقصان ہوا جس کو ابھی تک انہہوں نے تسلیم نہں کیا۔

پھر کیا وجہ ہے کہ کرپشن کا یہ مقدمہ اس زور شور اور جانبدار انہ طریقے سے صرف نواز شریف کے خلاف کیا جا رہا ہے ۔ یہ سوال ہمارے ایک دوست نے مجھ سے اس طرح پوچھا ’’ آصف علی زرداری پر بھی مسٹر 10%ہونے کا الزام تھا مگر اُن کو ابھی اپنی مدت پوری کرنے کی۔ ’’اجازت‘‘ دی گئی۔ نواز شریف کو کیوں ایسے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ؛ میں نے ان کو کہا کہ جنرل مشرف اور کچھ اور جرنیلوں پر بھی اس طرح کے الزام لگے ہیں مگر کسی پر ابھی تک کوئی مقدمہ نہیں چلا۔ ملک کو توڑنے والوں، آئین کو پامال کرنے والوں پر اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اس پر غدار =ی اور بلاسفیمی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

اس دفعہ تو نواز شریف پر اس عتاب کی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے بھارت سے امن وغیرہ کی بات بہت عرصے سے نہیں کی کہ اُس طرف مودی بھی اس میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ لگتا تو ایسے تھا کہ نواز شریف کی حکومت نے اپنی حکومت کو پروجیکٹ وغیرہ تک محدود کر لیا تھا ۔ پاکستان کی تاریخ کو مدٍ نظر رکھا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارن پالیسی وغیرہ میں۔ دخل اندازی سے باز نہں آ رہے ہوں گے۔ یقینا ً وہ مڈل ایسٹ میں غیر جانبدار رہنا چا ہتے ہوں گے اور بھارت، افغانستان، ایران سے محاذ آرائی کے حق میں نہہں ہوں گے۔

کیا نواز شریف کی مندرجہ بالا پالیسی پاکستان کے عوام کی آواز ہے تو اس کا جواب ایک بہت بڑی ہاں ہے۔ کیا یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے تو اس کا جواب بھی ہاں میں ہے۔ پاکستان کو کبھی بھی نارتھ کوریا کی طرح دنیا سے کٹ کر نہں رہنا چاہے۔ میرے علاوہ اگر آپ اُس پاکستانی سے پوچھیں جس کے بچے سکولوں میں نہیں جا سکتے اور وہ لوگوں کے گھروں میں کھانے کی خاطر مزدوری پر مجبور ہیں تو ان کا بھی یہی جواب ہو گا۔ اصل حب الوطنی یہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ نواز شریف، عمران خان اور جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہے تو اس کا جواب بھی بہت بڑی ہاں میں ہے۔ اس وقت نواز شریف کا اپنا کیس سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ درست ہے۔ ان کے اکائوٹننٹ اور وکیلوں سے ساری تفصیلات پوچھی جائں تا کہ ان کو ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا دوبارہ موقع اور وقت ملے کہ عوام نے اسی لیے ان کو منتخب کیا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی طور پر اس کیس کو دیکھے۔ یاد رہے کہ جمہوری حکومت کے بعد اُن کی باری بھی آسکتی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ جو ہوا وہ بات اتنی پرانی نہیں کہ بھلا دی جائے۔
۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi