کوئٹہ سے کراچی تک: میرا کورا مشاہدہ


بچپن سے لے کے آج تک، اتنی کہانیاں سوتیلی ماں کی نہیں سنی ہوں گی جتنی کوئٹہ اور بلوچستان میں مظالم، مفلسی اور نظر اندازی کی سن لیں۔ یقین کیجیے خوف اتنا کہ دل میں ٹھان رکھی تھی کہ کبھی بھارت اور کوئٹہ نہیں جانا، کیونکہ وہاں سے واپس نہیں آسکتے۔ خیر بڑا یا برا بول کبھی منہ سے نہیں نکالنا چاہیے۔ اب میری احتیاطی تدابیر کو میرے دائیں بائیں کے فرشتوں نے میرے بڑے بول کے نام سے درج کر لیا تو میں کیا کروں۔ میرے میاں کی پوسٹنگ وادیء کوئٹہ آ گئی مگر کیا کیجیے کہ میں ساتھ نہ جا سکی اپنی نوکری کی وجہ سے۔

ایسا نہیں کہ خاندان بھر سے کبھی کوئی کوئٹہ نہیں گیا۔ میرے ننھیال کا کچھ حصہ قلعہ سیف االلہ میں آباد ہے اور کئی خالہ زاد کوئٹہ سے پڑھے ہوئے بھی ہیں۔ میں ہمیشہ کنفیوز رہی ہوں کہ سب کو کیا بتاؤں اور کیا پوچھوں۔ کوئٹہ میں پشتون آباد ہیں یا پشتون آباد میں کوئٹہ۔ تو پھر بلوچی کہاں ہیں اور بلوچی کہاں بولی جاتی ہے جو ہم نے اسکول میں پڑھا۔

خیر جناب چھٹیاں ہوئیں اور میاں نے بڑے سے گھر کا لالچ دیا۔ ڈھیر سی سبزیوں، پھلوں کی تصاویر بھیجیں، کافی سارے جانور گھر میں پال کے بیٹی کو پھسلایا اور ہم نے کوئٹہ جانے کی تیاری پکڑی۔
جہاز میں کھڑکی کے پاس بیٹھی کہ نئی جگہ کا ہوائی جائزہ لیا جائے گا، کان بند ہونے لگے تو سمجھ آ گئی کہ اب منزل نزدیک ہے۔ جہاز ایسے ہل رہا تھا کہ جیسے کاغذ کا ہو اور کوئی بچہ مستی میں اسے بار بار اچھال رہا ہو۔ ایسی بد حواسی میں کوئی دعا بھی یاد نہیں آتی دماغ میں۔ ساون کے دن مگر بادل کا ایک ٹکڑا نہیں تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ڈاکٹر صاحب جو کہ کوئٹہ کے رہائشی بھی تھے مجھے مسلسل تسلی دے رہے تھے کہ کوئٹہ کی فلائٹ ہمیشہ رف ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بلوچستان اور کوئٹہ کی بدحالی کا ذکر بھی کرتے رہے اور سارے صوبوں کو اور وہاں کے لوگوں کی بے حسی کو کوستے رہے کہ کوئی یہاں کے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فیملی کے ساتھ اپنے فارن ٹوئرز کا ذکر بھی فخریہ کرتے رہے۔ میرے کان ادھ کھلے تھے مگر بات خوب سمجھ میں آرہی تھی۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہ آ سکی کہ ایک منٹ رہ گیا ہے جہاز اترنے میں تو شہر کیوں نہیں نظر آ رہا۔ ہر سمت پہاڑ یا بھوری زمین۔ کراچی، اسلام آباد اور لاہور کی طرح کوئی تو زندگی کے آثار نظر آئیں۔ اسی سوچ میں تھی کہ کپتان نے انتہائی بے دلی سے جہاز پٹخا، کہ میں لرز ہی اٹھی اور کوئٹہ آ گیا۔ شاید کوئٹہ کو سستے جہاز ہی دیے جاتے ہوں گے کہ یہاں کونسا کسی وی آئی پی کو سفر کرنا ہوتا ہے، کوئی اڑا بھی دے تو خیر ہے، ہیں نا؟ یہاں کی زمین پہ االلہ کی خاص رحمت دکھتی ہے۔ کیا میٹھے تازے اور خوبصورت پھل۔

میں عید سے ایک ہفتہ پہلے پہنچی تھی۔ لوگوں نے کہہ رکھا تھا کہ ڈھیلا لمبا چوڑا شلوار قمیض اور بڑی سی چادر ساتھ رکھنا۔ باہر نکلو تو پہچان میں نہیں آنا چا ہیے کہ کہاں سے تعلق رکھتی ہو۔ یہ بھی نصیحت کی گئی کہ اول تو بازار جانا نہیں ورنہ بم سے اڑا دی جاؤ گی اور اگر جاؤ تو اسی لباس میں جو بتایا گیا ساتھ ہی دو پٹی کی آسودہ حال چپل پہن کر۔ میں نے ایک صبح اپنے پختون نوکر کو اور وہاں کے رہائشی ڈرائیور کو گاڑی میں بٹھایا، منہ چادر میں چھپایا اور گاڑی خود چلاتی باہر نکل گئی۔ جب میزان چوک پہ پہنچے تو ایک گاڑی نے سائیڈ دی، مجھے بہت غصہ آیا، حسب عادت میں اترنے ہی لگی تھی لڑنے کہ ڈرائیور نے کہا کہ نا باجی کچھ نہ کہنا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک باجی اسی طرح گاڑی سے اتر کے گاڑی والے کو سنانے گئی تھیں، دوسرے شخص نے پستول نکال کے فائر کیا اور آرام سے چلا گیا۔ قارئین، میں نے زندگی میں ایسی ہاتھ پیروں کی مفلوجی پہلے نہ دیکھی تھی۔ گاڑی مجھ سے مزید آگے نہ چل سکی۔ باقی کے رستے ڈرائیور نے گاڑی چلائی۔

اس دن زندہ بچ کے آ نے پہ بہت فخر ہوا مگر افسوس بھی ہوا کہ زندگی بھر جو سستی گاڑیوں، قالینوں، الیکڑانکس، کمبلوں اور دیگر اشیاء کے فری کی حد تک سستے ملنے کے قصے سنے تھے وہ ادھورے رہ گئے اور کوئی شاپنگ نہ ہو سکی۔ میاں نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو۔ چھاؤنی میں بھی سب ملتا ہے۔ دل کو بڑی تقویت ملی کہ پاکستان بھر کی فوجی چھاؤنیوں میں اشیاء عموماً کم داموں میں ملا کرتی ہیں۔ میں نے بولان نامی بازار میں قدم رکھا تو سوچا کہ پہلے خشک میوہ بھر لوں، میکے اور سسرال میں واہ واہ ہو جائے گی۔ مجھے لوگوں کی باتوں سے لگتا تھا کہ کاجو، پستے اور چلغوزوں کے پہاڑ بنے ہوں گے۔ مگر یہ کیا۔ یہ تو پنڈی اور لاہور سے بھی مہنگے نکلے۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ باجی سستا چاہیے تو کراچی سے جا کے لے لو۔ وہاں سے منہ کی کھائی مگر عزت رکھنے کو پاؤ پاؤ کی پڑیاں بنوا لیں اور چلی قالین کی دکان پہ۔ ایک چھوٹے سائز کے قالین (رگ) سے بات شروع ہوئی۔ قیمت 25 ہزار جو بتائی گئی تو دل چاہا کہ اسی وقت جھوٹ بولنے والوں کے خلاف دھرنے پہ بیٹھ جاؤں۔ غصے میں گھر جا کر ہی دم لیا۔ پھر ایک خاتون نے بتایا کہ بھابھی بولان تو مہنگا ہے، آپ شہر سے جا کے خریداری کیجیے۔

دھماکے سے ایک دن پہلے میں چلی پیدل، اپنے نوکر اور ڈرائیور کے ساتھ۔ افسوس کہ جو چیز کراچی میں 150 روپے کی تھی وہ یہاں 450 روپے کی مل رہی تھی۔ خیر جناب کچھ چادریں تحائف کے لیے خرید لیں کہ ان باتوں کا لوگوں کو کیسے یقین دلاؤں گی۔ یقین کیجیے کہ کوئی برانڈ ایسا نہیں تھا جو یہاں نہ ملتا ہو اور دکانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ میں نے سستا بازار بھی خوب گھوما اور مہنگا بازار بھی۔ تا کہ دونوں طبقوں کا اندازہ لگا سکوں۔

لوگ جب کراچی، اسلام آباد اور لاہور پہ طنز کرتے ہیں تو طبقہ امراء کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ نچلے طبقے کے بارے میں تو تب بھی آخری میں ہی سوچا کرتے ہیں۔ یہاں بھی طبقہ امراء باقی ملک جیسا ہی ملا، سب کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ ہر بات سے نا آشنا، ا حساس کی کمی سے سرشار۔

بلوچستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو ایک نیا آنے والا شخص بھی ایک نظر میں بھانپ سکتا ہے۔ بلوچ دیہاتیوں کی کسمپرسی، گمشدہ افراد، ہزارہ کی نسل کشی کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ جو میوے یہاں سب سے زیادہ سستے ہونے چاہیے وہ کراچی میں سستے ہیں۔ ہمیں سوئی گیس دینے والے صوبے کا یہ حال دیکھ کے دل ٹوٹ سا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).