امریکہ افغانستان سے نکلنے کا ہر گز ارادہ نہیں رکھتا


پاکستان میں جمہوریت کو ”حقیقی“ دکھانے کے لئے جنرل مشرف نے ایک پارلیمان بھی بنارکھی تھی۔ انتخاب اس پارلیمان کا 2002ءمیں ہوا تھا۔ نواز شریف اس انتخاب سے قبل سعودی عرب بھیج دئیے گئے تھے۔ خود کو سیاسی طورپر یتیم محسوس کرتے مسلم لیگیوں کو اکٹھا رکھنے کے لئے چودھری شجاعت حسین صاحب کو آگے بڑھایا گیا۔ ”بے رحم احتساب“ سے جان بچانے کے لئے کافی سیاستدان ان کی جمع کی ہوئی لیگ کی پناہ میں آگئے۔ ISIنے ”بطور ادارہ“ اس انتخاب میں براہ راست مداخلت نہیں کی تھی۔میجر جنرل احتشام ضمیر مرحوم کی ”خدمات“ انتخابات کو ”مثبت“ رکھنے کے لئے ایوانِ صدر میں قائم ہوئے ”الیکشن سیل“ کے سپرد کردی گئی تھیں۔ ویسی ہی Outsourcingجو حال ہی میں پانامہ کے حوالے سے بنائی JITمیں ایک ”نمائندے“ کی صورت میں نظر آئی تھی۔
جنرل ضمیر مرحوم سے کہیں زیادہ اہم کردار ان انتخابات کو ”مثبت“ رکھنے کے لئے مشرف صاحب کے ایک وفادار دوست جنرل مہدی حسن نے پنجاب میں ادا کیا۔ وہ رینجرز کے کماندار تھے۔ اُن ”سیاسی“ لوگوں نے جن کے پاک- بھارت سرحد کے قریب بہت رقبے ہوتے ہیں، اِن جنرل صاحب کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔مسلم لیگ (ق) اس تمام سرپرستی کے باوجود واضح اکثریت حاصل نہ کرپائی۔ جنرل مشرف اپنے ایف سی کالج کے دوست راﺅ سکندر سے معاونت کی درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی مدد سے پیپلز پارٹی سے منتخب ہوئے لوگوں میں سے ”پیٹریاٹ“دریافت کرلئے گئے۔ ”جمہوری کہانی“ کو مزید خوش گوار بنانے کے لئے پاکستان کی تاریخ میں ”پہلی بار“ بلوچستان کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے بہانے میرظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔جمالی صاحب 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد بھی ان تین افراد میں سے ایک گردانے گئے تھے جنہیں جنرل ضیاءوزیر اعظم نامزد کرنا چاہتے تھے۔ الٰہی بخش سومرونے تو اس ضمن میں ”مبارکیاں“ بھی وصول کرلی تھیں۔ پیر پگاڑا مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کو قابو میں رکھنے کے لئے ضروری تھے۔ ان کی فرمائش پرسنڈھری کے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنادیاگیا۔جونیجو مرحوم ایک کم گو اور کمزور دِکھتے آدمی تھے۔ ساتھیوں سے مسلسل مشاورت مگر ان کی عادت تھی۔ سب کو سن کر ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ لینے کی اس عادت نے انہیں اسلام آباد سے چلائے کاروبار ریاست کو سمجھنے میں بہت مدد دی۔ قومی اسمبلی کو بہت متحرک اور جاندار رکھتے ہوئے انہوں نے جنرل ضیاءکو بالآخر پریشان کردیا۔ مئی 1988میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جونیجو صاحب کو صدر ضیاءنے اسمبلی سمیت فارغ کردیا۔ظفراللہ جمالی جب 2002ءکے انتخاب کے بعد وزیر اعظم کے منصب کے لئے چنے گئے تو میرے کئی سینئردوستوں نے طے کرلیا کہ ایک دن وہ بھی جنرل مشرف کے ”جونیجو“ ثابت ہوں گے۔ میں بدنصیب مگر انہیںInstitutional Memoryیاد دلاتا رہا۔ جمالی صاحب کو ذاتی طورپر خوب جانتا تھا۔ صبح دیر سے اُٹھ کر بہت دیر تک اپنے دوستوں سے بلوچی ثقافت والا ”حال“ لیتے رہتے تھے۔ دفتری کاروبار سے انہیں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایک بار امریکہ گئے تو صدر بش سے انتہائی سادگی سے خود کے لئے ”شفقت“ کی درخواست ضرور کردی۔ مشرف کے وفادار چوکنا ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں انہوں نے دریافت یہ بھی کرلیا کہ لاہور کے خواجہ احمد طارق رحیم کے ”اُکسانے“ پر وہ امریکی حکام سے “Direct”ہورہے ہیں۔ نینسی پاﺅل ان دنوں امریکہ کی پاکستان میں سفیر تھیں۔ محترمہ کو موصوف نے بہت چاﺅ سے اپنے آبائی حلقے میں ”شاندار“ استقبال کے لئے بلایا۔ جنرل مشرف کے وفاداروں کو بہانہ مل گیا۔ جمالی صاحب نے استعفیٰ دے کر گوشہ نشینی اختیار کرنے ہی میں عافیت محسوس کی۔ان کی جگہ لینے والے شوکت عزیز نے ”سیاسی“ ہونے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ اپنے کام سے کام رکھا۔ وزیر اعظم کا عہدہ انہیں ”عطا“ ہوا تھا اور وہ مسلسل ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“‘ والی تابعداری سے کام لیتے رہے۔ ستمبر 2006ءمیں لیکن انہیں بھی امریکہ کا ایک دورہ نصیب ہوگیا۔صدر بش سے ملاقات کے دوران اس دورے میں وہ خود کے لئے ”شفقت“ کے طلب گار نہ ہوئے۔ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں Statesmanly Actکرنے کی کوشش کی۔ صدر بش سے بہت خلوص سے دریافت کرلیا کہ امریکہ اپنی افواج افغانستان سے واپس کب بلائے گا تاکہ اس خطے میں طالبان سے ”غیر ملکی قبضے کے خلاف جہاد“ کا جواز چھینا جاسکے۔صدر بش ایک سادہ لوح شخص تصور کیا جاتا تھا۔ اس پر کتابیں وغیرہ پڑھنے کا الزام کبھی نہیں لگا۔ گنڈولیزا رائس کو وہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے اپنا ”گرو“ مانتا تھا۔ رائس کو وہ اپنے گھر کا ایک فرد تصور کرتا۔ وہ اکثر اس کے خاندانی گھر میں ویک اینڈ بش فیملی کے ساتھ گزارتی تھی۔شوکت عزیز کے سوال پر براہِ راست جواب دینے کی بجائے ”سادہ لوح“ مشہور ہوئے صدر بش نے اس ملاقات میں موجود ڈاکٹر رائس سے بہت معصومیت سے پوچھا :”کونڈی(ڈاکٹر رائس کانِک نیم)ہم جاپان اور جرمنی کب گئے تھے؟“ شوکت عزیزکو جواب مل گیا۔ یہ جواب مگر انہوں نے اپنی قوم کو سمجھانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔اپنے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی کی بحالی کے نام پر ان ممالک میں امریکی فوجی اڈے قائم ہوئے تھے۔وہ آج بھی ان ممالک میں بدستور کام کررہے ہیں۔ جرمنی میں موجود اڈہ نیٹو کے کام آتا ہے۔ جاپان میں امریکی موجودگی چین اور شمالی کوریا پر نگاہ رکھنے کے لئے ضروری ہے۔میں نے اتنی لمبی داستان درحقیقت آپ کو یہ بتانے کے لئے سنائی ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان دنوں صدر ٹرمپ کے لگائے دو جنرل دن رات ملاقاتوں اور سوچ بچار کے ذریعے اس ملک کے لئے ایک نئی حکمت عملی تیار کررہے ہیں۔ امید ہے کہ اس ماہ کے آخری ہفتے میں ممکنہ پالیسی کے خدوخال ہمارے سامنے آجائیں گے۔ امریکی وزیر دفاع نے مگر چند ہی روز قبل صحافیوں کو بتایا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے لئے وہی پالیسی اپنانا ہوگی جو جرمنی اور جاپان کے لئے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اختیار کی گئی تھی۔ صدر بش نے جوسوال شوکت عزیز کی موجودگی میں ”کونڈی“ سے کیا تھا اس کا جواب اب موجودہ امریکی وزیردفاع کی زبان سے ہم تک پہنچ گیا ہے۔میں نے جنرل Mattisکے اس بیان کا حوالہ کیوں دیا؟ سوال بہت اہم ہے۔ جواب اس کا بھی ضروری۔ سپریم کورٹ میں لیکن پانامہ کیس کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔ میں یہ کالم دفتر بھیج کر ریموٹ دباکر اس کی کارروائی کی بابت سب کچھ جاننے کو بہت بے تاب ہوں۔ پانامہ سے فارغ ہوجائیں تو کچھ اور موضوعات پر بھی ضرور بات ہوگی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).