سیالکوٹ والو ماں چاہیے تو صوفی بھی تلاش کرو


یادیں پیچھا کرتی ہیں۔ یادیں ان کا بھی پیچھا کریں گی جو ماؤں کی گود میں بیٹھے تھے جب ان کی ماں ہجوم میں بیٹھی چوری کے الزام میں مار کھا رہی تھی۔ آج میں نیلی بار کے ان چوروں سے بھی شرمندہ ہوں جن سے کبھی ملا تھا۔ جنہوں نے ایک راہگیر کو سارے پیسے لوٹا دیے تھے جب اس نے کہا کہ پیسے لے لو مجھے ماں کے پاس پہنچنا ہے اس کی دوائی لے کر۔ چوروں نے اس راہگیر کو تو چھوڑا ان سب کو بھی چھوڑ دیا جنہیں باندھ کر سڑک کی سائیڈ پر گنے کے کھیت میں باندھ رکھا تھا۔ اس نیکی کی وجہ پوچھی تو جواب مختصر تھا کہ مائیں تو سب کی ہوتی ہیں ایک سی ہی ہوتی ہیں۔

اس قصے کو رہنے دیتے ہیں ہم وطنوں کو ایک مشورہ ہے۔ آپ اس وطن میں رہتے ہو آپ کا جو بھی عقیدہ ہے آپ اپنے اندر ایک وہابی ضرور پال لو۔ اگر ایسا کر سکے تو بہت فائدہ ہو گا۔ فالتو کی بہت سی مصیبت سے بچا لے گا۔ آپ وہمی نہیں رہو گے، عقیدت کے نام پر کوئی آپ کا مذہبی استحصال نہیں کر سکے گا۔ کوئی ڈبہ پیر آپ کے وہم آپ کی الجھنوں آپ کے مسئلوں کی تجارت نہیں کر سکے گا۔ آپ کو صوفی بن کر کوئی دھوکہ نہیں دے گا۔ یہ لکھ کر پھر بھی آپ کو صوفی کی ہی کہانی سنانی ہے۔ لیکن تجارت سے کچھ اور یاد آ گیا ہے۔

تجارت سے یاد آ گیا ہے ہندو بنیا۔ اس سے پہلے آپ کو یہ بتانا ہے کہ یہ ایک بے ترتیب تحریر ہے فرقہ واریت اور تعصب سے بھری ہوئی۔ اگر مذہب کی عینک لگانی ہے تو مت پڑھیں پڑھنی ہے تو اپنے عقائد ایک منٹ کو جیب میں ڈال لیں۔ تو ایک تھا بنیا جو ہندو تھا جو پیسہ پیسہ جوڑ لیتا تھا۔ جو منافع کمانے کے لیے مثالی صبر کا مظاہرہ کرتا تھا۔ پیسے کمانا جانتا تھا اچھی کاروباری اخلاقیات رکھتا تھا تبھی تو ہندوستان کی مارکیٹ پر اس کا کنٹرول تھا۔ اس بنیے کو زندگی میں جو پہلا اچھا چیلنج ملا وہ عرب تاجر نے دیا جو اس کے مقابل میدان میں اترا۔ وہ بھی اس شان سے کہ اس نے بنیے کے سامنے ہندوستان میں اپنا ڈیرہ لگایا۔ اس کے سامنے اپنی دکان سجائی چلائی اور جما کر دکھائی۔ پھر یہ مسلمان یہ عرب تاجر مر گیا یا اس ملک سے کہیں آگے نکل گیا۔ مسلمان تجارت میں بنیے سے ہار گئے۔ یہ ہار معمولی ہرگز نہیں تھی یہ اتنی مکمل اتنی فیصلہ کن ہار تھی کہ مسلمانوں نے بنیے سے فرار کے لیے بھی الگ ملک کا مطالبہ کیا تھا۔

ہندو سے مسلمان نے مقابلہ صرف تجارت میں ہی نہیں کیا تھا جنگیں بھی لڑی تھیں۔ صرف جنگ ہی نہیں لڑی تھی مقامی مذہب کو بھی چیلنج کیا تھا۔ مذہب کی عقائد کی یہ لڑائی بہت دلچسپ تھی۔ ایک طرف مقامی لوگ تھے جو صرف دیکھی بھالی ہستی کو ہی بھگوان کا درجہ دیتے تھے۔ یہ بھگوان فائدے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والی ذات ہی ہوتی تھی جو سامنے ہوتی تھی۔ گائے دودھ دیتی تھی تو گاؤ ماتا تھی سانپ ڈس لیتا تھا تو ناگ دیوتا تھا۔ دولت کی دیوی الگ تھی نقصان دینے والی ماتا الگ تھی۔ وہ کردار بھی دیوتا تھے جو انسانوں کے ایک بڑے گروہ پر اثر انداز ہوئے تھے۔ اس میں بھی دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے مخالف یہ کردار علاقہ بدل جانے پر ہیرو اور ولن بھی بن جاتے ہیں۔ رام ایک جگہ بھگوان ہے تو اسی ملک کے دوسرے حصے میں راون بھی ایسا سا ہی درجہ رکھتا۔

یہ سب کیا تھا آسان کرنا ہے تو ایسے سمجھیں کہ اس خطے کے مقامی لوگ صرف دیکھی ہوئی آزمائی ہوئی ہستی کو ہی بھگوان مانتے تھے۔ یہاں مسلمان آ گئے اپنا ان دیکھا خدا لے کر۔ یہ اعتراف ہم نہ بھی کریں تو کیا فرق پڑتا اس خطے میں وہی اکثریت میں رہے جو دیکھے ہوئے کو بھگوان مانتے تھے۔ کیا خیال ہے کیا یہ مسلمان مبلغوں کی ناکامی نہیں تھی؟

اس خطے میں جہاں مسلمان مبلغ کامیاب نہ ہو سکا صوفیا نے ڈائنامکس ہی بدل دیں۔ کیا کسی مسجد میں اس خطے کا کوئی غیر مسلم کبھی عبادت منت یا دعا کے لیے آتے دیکھا ہے آپ نے؟ صوفیا کے مزاروں پر سر جھکانے منت مانگنے دعا کرنے غیر مسلم کو آتے دیکھ کر کبھی غور کیا۔ یہ صوفی لوگ تھے جنہوں نے مقامی عقائد کی بنیادیں ہلا دیں۔ صوفیا مسلمان تھے لیکن انہوں نے اپنا فوکس مسلمان کی بجائے انسان کو بنایا۔

ہندوستان وہ خطہ تھا جہاں خاتون اپنے شوہر کے مرنے پر اس کے ساتھ جل مرتی تھی۔ یہ صوفیا تھے جنہوں نے جنس کو بھی عشق محبت کی صورت دیکر انسان کی بنیادی ضرورت بتایا۔ اس ضرورت پر اصرار کیا لوگوں کو حوصلہ دیا صورتحال کو نارمل کیا۔ آپ کو صوفی ادب میں بار بار پڑھنے کو اس مجبوری کا بیان ملے گا کہ وہ آنکھوں کے کہنے میں آ گیا وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا۔ مجازی عشق کو حقیقی عشق سے قریب بتایا بلکہ اسی سے جا ملایا۔ انسانوں کی کمزوریوں پر ان سے نفرت نہیں کی ان سے محبت کی۔ صوفی مزاج ایسا تھا کہ جھل مگسی بلوچستان سے خواجہ فرید کا گھوڑا چرانے کے لیے آنے والا مگسی پکڑے جانے پر وہی گھوڑا انعام پاتا ہے۔

آپ کو سوہنی مہینوال کا قصہ معلوم ہے۔ شادی شدہ سوہنی دریا پار کر کے مہینوال سے ملنے جاتی تھی۔ یہ دونوں کردار سنگسار ہوتے پر انہیں صوفی نے محبت کی امر کہانی بنا دیا کہ نہیں یہ دل کا معاملہ تھا۔ اب ہم اس کو محبت کی کہانی طور پر ہی پڑھتے ہیں۔ چناب دریا اس کہانی کی برکات سے ہی محبت کا ایک استعارہ بنا ہے۔ وہ پنجابی فوک گیت شائد ہی کسی نے نہ سنا ہو جس میں سوہنی کبھی گھڑے تو کبھی دریا سے منتیں کرتی ہے کہ مجھے آج پار پہنچ جانے دو۔

سکھ مذہب کے مقدس مقام دربار صاحب کی بنیاد ایک مسلمان صوفی میاں میر نے رکھی تھی۔ جب گرداس مان اور دلجیت دوسانجھ مل کر گاتے ہیں کہ “اے سودا نہیں پگ دا راوی توں چنا پوچھ دا کی حال اے ستلج دا” تو جو دل رکھتے ہیں وہ ہی یہ دکھ جان پاتے ہیں کہ جسے فائدہ ہوا وہی گا رہا کہ مجھے دریاؤں کا یہ سودا نہیں منظور کہ چناب راوی سے ستلج کا حال پوچھتا رہے بس۔ یہ کیا تھا یہ کیا ہے چناب کو چنا کس نے بنایا جرم کو محبت کی کہانی کس نے بنایا۔ فائدہ اٹھانے والے سکھ کو چناب کی جدائی پر کس نے رلایا۔ جواب ہے صوفی نے۔ اس صوفی نے ہمیں غلطیوں گناہوں اور جرائم سمیت بس ایک انسان کے طور پر شناخت دلوائی تھی۔

جب ہم کسی کو چند روپوؤں کی چوری پر اس کا تماشہ بناتے ہیں تو صوفی مر مر جاتا ہو گا۔ اتنا ہی نہیں وہ یہ بھی ضرور کہتا ہو گا جا وے چنا ڈوب کے مر جا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi