خواتین صحافی اور بھیڑیے


یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری لے کر کچھ مہینے گھر میں آرام کیا کہ ہم نے دنیا فتح کرلی ہے اب چاہے کچھ بھی ہو نوکری سے تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ یونیورسٹی میں اساتذہ نے اتنی تمہیدیں باندھی تھیں کہ اگر آپ میں لکھنے کی صلاحیت ہے آپ میں کام کرنے کی لگن ہے تو اس راہ پرخار میں آپ کو ترقی ملنی ہی ملنی ہے۔ سو ڈگری لے کر گھر کی طرف چل دیے اور گھر میں رعب جمانا شروع کردیا۔ ٹیلی ویڑن اور ریڈیو کے اینکرز کی طرح ہر جگہ بلاسوچے سمجھے تبصرے شرو ع کردیئے۔ کہ ہمیں تو سب آتا ہے۔ ہمیں امید ہی نہیں یقین تھا کہ بہت جلد ہمیں بڑے ٹی وہ چینل یا اخبار میں انٹرن شپ ملنی والی ہے پھر تین ماہ کی انٹرن شپ کے بعد ہمیں جاب مل ہی جائے گی۔

اسی خوش فہمی میں غلطاں شہر کی طرف راہ لی اور سوٹ بوٹ پہن کر ایک اخبار کے دفتر کی راہ لی جہاں پر سیکورٹی گارڈ نے روک لیا کس سے ملنا ہے؟ جی وہ ایڈیٹر صاحب ہوں گے ان سے ملنا ہے۔ ہو کون بھئی جو ملنا ہے؟ جی میں نے جرنلزم کیا ہے نوکری کے لئے آیا ہوں۔ کوئی نوکری شوکری نہیں ہے جا، جب نوکری ہوتی ہے تو اخبار میں ایڈ دیا جاتا ہے

اپنے خوابوں کا محل مسمارہوتے دیکھ کر مڑنے ہی لگے تھے کہ ایک شناسا چہرہ نظر آیا جو کہ یونیورسٹی میی سنیئر تھا، اس سے سامنا ہوا تو ایڈیٹر سے ملنے کی راہ نکل آئی۔ ایڈیٹر نے سوالات شروع کیے پہلے کہیں کام کیا ہے؟ جواب دیا نہیں سر صرف انٹرن شپ کی ہے، اچھا تو کیا کیا کروگے، جی جو آپ کہو، اوکے آپ کی سی وی میں رکھ لیتا ہوں فی الحال ہمارے پاس جگہ خالی نہیں ہے آپ سے رابطہ کر لیا جائے گا آپ جاسکتے ہو،

دروازے سے نکلتے ہی نظر اپنی ایک فی میل کلاس فیلو سے ٹکرا گئی وہ جاب کے سلسلے میں آئی تھی۔ اس سے تھوڑی علیک سلیک ہونے کے بعد باہر انتظار کر نے لگا اسے یہ بھی کہہ دیا کہ کوئی ویکنسی نہیں ہے میں مل چکا ہوں مگر اپنی کلاس فیلو کی شیطانی مسکراہٹ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا اس کا انتظار کرتے ہوئے تھک گئے کہ اتنے میں وہ نمودار ہوئی اور ساتھ میں ایڈیٹر صاحب بھی باہر اسے چھوڑنے آئے، جی آپ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہو ایڈیٹر نے دیکھ کر کہا، جی یہ میرا کلاس فیلو ہے میرا انتظار کر رہا تھا، اچھا اچھا میں ابھی اے پی این ایس کی میٹنگ میں جارہاہوں، کل اسی موضوع پر کچھ لکھتے آنا جو دیا ہوا ہے، باقی اللہ خیر کرے گا، اور ایڈیٹر صاحب کی گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے نکل گئی۔

کلاس فیلو کی جانب متوجہ ہوئے جو ایڈیٹر کی گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور زیر لب ہنس رہی تھی، جب پوچھا کیا ہوا، کیا کہا ایڈیٹر صاحب نے؟ کیا کہنا تھا جاب دے دیا بیس ہزار ماہانہ کل سے کام پر آنا ہے۔ آج ایک موضوع دیا ہے اس پر لکھنے کو کہا ہے مگر وہ تو کہہ رہے تھے کوئی جاب نہیں حتی کہا انٹرن شپ بھی نہیں پھر تمہیں جاب کیسے دی؟

ایسے واقعات صرف صحافتی اداروں میں نہیں بلکہ دیگر اداروں میں بھی موجود ہیں جہاں خواتین کو جاب آسانی سے مل جاتی ہے مگر لڑکے جاب سے دور ہوتے ہیں جن پر خاندان والے تکیہ کر رہے ہوتے ہیں کہ کل کوکچھ کما کر لائے گا تو گھر کی ہانڈی چلے گی پشاور کی صحافتی برادری کی جانب اگر دیکھیں تو یہاں پر خواتین کی تعداد صحافت میں نہ ہونے کے برابر ہے 1988سے شروع ہونے والے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سے سینکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ مگر ان میں سے بہت کم نے فیلڈ جوائین کیا ہے، 2002 کے بعد جب صحافت میں پرائیویٹ چینلز کی ابتدا ہوئی تو لڑکیوں کے لئے جاب کی راہیں کھل گئیں، لاہور، کراچی، اسلام آباد میں خواتین کی بڑی تعداد نے اس فیلڈ کی جانب رخ کیا مگر پشاور میں پختون روایات اور اقدار کی وجہ سے خواتین نے اس فیلڈ سے کنارہ کشی اختیار کرلی، بہت سی خواتین نے انٹرن شپ کے بعد ہی صحافت سے توبہ کرلی کیونکہ انہیں انٹرن شپ کے دوران صحافتی بھیڑیوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے تو لڑکیاں فیلڈ میں نہیں آتی۔

ہر سال پشاور یونیورسٹی سے 20 کے قریب لڑکیاں صحافت کی ڈگریاں لے کر نکلتی ہیں مگر ان میں صرف ایک ہی اس فیلڈ میں آتی ہوگی اندازہ لگالیں کہ پشاور کی صحافت میں اب تک گنتی کی ہی لڑکیاں کام کر رہی ہیں جن کو روز جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے وہ یا تو وہ جانتی ہیں یا پھر ان کے گھر والے۔ جن خواتین نے اس پرخطر فیلڈ کو جوائن کیا ہے ان کا کوئی نہ کوئی فیلڈ میں کام کر رہا ہوگا یا پھر ان میں مردوں کے معاشرے میں رہنے کی سکت ہوگی، جو قابل لڑکیاں جنہوں نے اس پیشے کو محبت سے چنا ہوگا وہ کسی سکو ل میں ٹیچنگ کر رہی ہوگی یا پھر گھر بیٹھ گئی ہوگیں جس کی بنیادی وجہ صحافتی میدان میں چھپے ہوئے وہ بھیڑئے ہیں جو انہیں کھانے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).