ای میگزین اور نیا سماج


20 جولائی، 2017 کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ” ای میگیزین اور نیا سماج” کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس ضمن میں خورشید ندیم صاحب کا کالم شایع ہو چکا ہے۔ وجاہت مسعود نے اس موقع پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ درج ذیل ہیں۔

محترم وایس چانسلر جناب شاہد صدیقی اور خواتین و حضرات

آپ کے کمیٹی روم میں مجھے جو سب سے اچھی بات لگی ہے کہ بولنے والے کے عین سامنے گھڑی لگا دی گئی ہے۔ سو میں نے پوچھ لیا اور وقت بتا دیا گیا ہے کہ 10 منٹ ہیں۔ ٹھیک ہے، 10 منٹ میں بات کر لیتے ہیں۔ دو حصے ہیں موضوع کے، ای میگزین اور نیا سماج۔ دونوں ہی اہم ہیں۔ نئے سماج پر جو سوال میرے دوست قاسم یعقوب نے اٹھائے ہیں۔ ان پر بھی بات ہو گی۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ نئے سماج کا نقطہ آغاز چھاپہ خانے کی ایجاد ہے۔ چھاپہ خانہ وہ ایجاد ہے جو علم کو عام آدمی کی رسائی میں لائی ہے۔ اس سے پہلے علم اشرافیہ اور امراء تک محدود تھا۔ علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔

چھاپہ خانے کی ایجاد نے ایک ایسے سماج کا راستہ کھولا ہے جس میں علم پر اجارہ داری نہیں رہی۔ جس میں عام آدمی علم تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اب اس کی صورتیں کیا ہوئیں؟ ظاہر ہے کتابیں لکھی گئی ہیں، کتابیں چھاپی گئی ہیں، کتابیں جلائی گئی ہیں، کتابیں چھپائی گئی ہیں۔ ہمارے برصغیر میں اخبارات کی تاریخ تقریباً اڑھائی سو برس کی ہے۔1780ء یا 1785ء میں یہاں پہلا اخبار نکالا گیا۔ اور اب سے سو بر س پہلے تک جسے ہم آپ میگزین کہہ رہے ہیں، مولانا ابو الکلام آزاد اس کے لیے گلدستہ کا لفظ استعمال کرتے تھے، سر عبدالقادر جب اپنا رسالہ نکالتے تھے تو اسے مخزن کا نام دیتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی کا ایک بہت خوبصورت شعر ہے۔

یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں

پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں

وہ جو ایک لفظ خالص پسند  Purist استعمال کی جاتی ہے تو وہ ہر دور میں ایک اضافی اصطلاح رہی ہے۔ Purist کہتا تھا کہ یہ کیا علم ہے؟ آپ تو چھپی ہوئی یعنی مطبوعہ کتاب پڑھتے ہیں، ہم تو مخطوطہ پڑھتے ہیں۔ اچھا بھائی یہ بھی علم کا ایک معیار ہو گا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہم میں سے کوئی اٹھ کر کہے کہ “آپ فریدہ خانم اور نورجہاں یا لتا کو سنتے ہیں۔ ہم تو گوہر جان سے نیچے کسی کا گانا نہیں سنتے”۔ ارے بھائی، یہ اس کے ذوق کی بات ہے، اس کے مزاج اور اس کی تربیت کی بات ہے۔ ہر معاشرے میں، ہر وقت، تفہیم کی، فہم کی اور ذوق کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں۔ پڑھنے میں بھی، سوچنے میں بھی اور سمجھنے میں بھی اور اس سب سے لطف اندوز ہونے میں بھی۔

جب ہمارے ہاں ریڈیو آیا تو بالکل عام سی بات ہے کہ پنجابی زبان کا ایک ٹپہ معروف ہوا

گڈی آندی اے چک جھمرے

کسے میرا ماہی ویکھیا

ہاتھ ریڈیو تے بال کنڈلے

(گاڑی چک جھمرہ اسٹیشن پر آ گئی ہے۔ کیا کسی نے میرا محبوب دیکھا ہے؟ نشانی اس کی یہ ہے کہ گھنگھریالے بال رکھتا ہے  اور ہاتھ میں ریڈیو پکڑتا ہے)

سو ہیرو وہ تھا جس کے بال گھنگھریالے تھے اور ہاتھ میں ریڈیو تھا۔ ریڈیو کے اوپر غلاف منڈھا تھا اور وہ اسے ہاتھ میں لے کر سڑک کے کنارے چل رہا تھا۔ ناصر کاظمی اپنی بیگم کے ساتھ کوہ مری جا رہے تھے، باصر کاظمی صاحب کے بچپن کی تصویر ہے۔ تو اس میں ہاتھ میں انھوں نے ٹرانسسٹر ریڈیو اٹھایا ہوا ہے۔ یہ فیشن کی معراج تھی۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی آئی تو معاشرے میں کشمکش پیدا ہوئی۔ اچھا اب جو ریڈیو سننا ہے۔ باپ سے لڑ کر، اور چھپ کر سنا جا رہا ہے۔

خاندان میں عام طور سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے گھر میں تو صرف خبریں سنی جاتی ہیں۔ ابا رات کو اجازت دیتے ہیں تو وہ پکی موسیقی کا آدھے گھنٹے کا پروگرام دہلی سے آتا ہے تو تب سن لیا جاتا ہے۔ وہ بھی بڑی احتیاط سے، ٹیک لگا کر نہیں بیٹھنا، گانا سننے کی اپنی ایک تہذیب ہے، اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ پھر ٹیلی ویژن آیا۔ میرے بچپن تک ہمارے گھر میں ٹیلی ویژن لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم نے پہلی دفعہ گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں جا کر دیکھا کہ ٹیلی ویژن شام کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اور وہ بھی سرکاری چینل تھا۔ اس کی اپنی تحدیدات تھیں۔

ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہر زمانے میں صلاحیت کا ایک خزانہ ہوتا ہے جو ایک خاص سمت اختیار کرتا ہے۔ سر سید احمد خان آتے ہیں تو ان کے ساتھ ہی شبلی، حالی، ڈپٹی نذیر احمد، وقار الملک، محسن الملک ٹھک ٹھک چلے آ رہے ہیں، جس کا نام لو کہ یہ کون ہیں، بتایا جاتا ہے کہ ریفارمر ہیں۔ تو ایک پوری نسل ریفارمر کے طور پر آئی۔  اچھا اب دیکھیئے کہ 1936ء کے سال میں ایسا کیا خاص تھا۔ جس سے پوچھتے ہیں کہ بھائی تم کون ہو؟ جوب ملتا ہے، میں ترقی پسند ہوں۔ اس میں منٹو ہیں، عصمت چغتائی، کرشن چندر ہیں اور صلاحیت کا ایک سمندر ہے جو ترقی پسندی کے نام پر سامنے آتا ہے۔

اشفاق احمد صاحب نے جب ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھنا شروع کیا تو ممتاز مفتی نے ان سے کہا کہ تم اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو، ادب جیسے فن عالیہ کو چھوڑ کر، تم ٹیلی ویژن کی طرف جا رہے ہو۔ تم نے اپنے آپ کو برباد کر دیا ہے۔ اصل میں ایسا تھا نہیں۔ دراصل مفتی صاحب پھنس گئے تھے ایک خاص دائرے میں، اور اشفاق صاحب نئے دور کا امکان بھانپ رہے تھے۔ وہ تو روم سے، اٹلی سے براڈکاسٹنگ پڑھ کے آئے تھے۔

یہ جو ای میگزین کا معاملہ ہے، اچھا اتفاق سے مجھ عاجز کو آن لائن جرنلزم کے ابتدائی برسوں میں بی بی سی اردو سروس کے لئے لکھنے کا اعزاز ملا اور مجھے فخر ہے مرحوم مصدق سانول کے ساتھ کام کرنے پر۔ پہلی دفعہ ہم نے اس میڈیم میں کالم اور بلاگ بنتے دیکھے، اس میں موضوعات کیا ہوں گے، گرافکس کیسے ہوں گے؟  کیا زبان استعمال کی جائے گی۔ یہ کلک وغیرہ گننے کی ابھی سوچ نہیں تھی۔ جیسا کہ ہمارے محترم وائس چانسل شاہد صدیقی صاحب نے فرمایا ہے، میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ علم جامد نہیں ہے۔ اسی طرح نئے سماج کا تصور بھی جامد نہیں ہے۔ کسی کی جیب میں نسخہ نہیں رکھا ہوا کہ نیا سماج کس طرح کا ہو گا۔ اس میں دولت کی تقسیم کیسے ہو گی۔ اس میں اختیار کی تقسیم کیسے ہو گی۔ اس میں فیصلہ سازی کا انتظام کیسا ہو گا، اس میں کون سی ٹیکنالوجی ہو گی اور کون سی متروک ہو جائے گی۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے نئے سماج کی تفہیم بہت سادہ ہے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ تیار کرنا ہے جو علم،پیداوار، تخلیق جیسی سرگرمیوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹ سکے۔ جو ابھرتے ہوئے امکان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکے، اس سے فرار حاصل نہ کرے۔ اس سے ڈر کے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اس کا ساتھ دینے اور اس کا حصہ بننے پر تیار ہو۔

ہم اپنے طور پر نئے سماج کے اہداف متعین نہیں کر سکتے۔ ایک پولیو فری  پاکستان۔۔۔ تو چند برس مین یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہو گی۔ سجاد حیدر یلدرم، قرۃ العین حیدر کے والد محترم، نے ایک روز ایک خاتون کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا تو مارے خوشی کے علی گڑھ یونیورسٹی کے ٹیرس پر ناچنا شروع ہو گئے کہ میں نے آج ایک ہندوستانی خاتون کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ یہ  کوئی 1903 or 1902  کے لگ بھگ کا قصہ ہے۔ تو عزیزان محترم، نئے سماج کے لئے ہم نے صرف اتنی جگہ بنانا ہے کہ لوگ اختلاف رائے کو، متنازع رائے کو اور unpopular  کاز کو، بغیر ایک دوسرے پر گولی چلائے، سننے اور سمجھنے پر تیار ہو جائیں۔ اس کے بعد اس سماج کا راستہ اور اس کی شکل خود سے بنے گی۔

ہمیں کسی نے لکھ کر نہیں دیا کہ ہمیں ہمیشہ اختلافی بیانیہ ہی دینا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جس طرح کی آوازیں موجود ہیں، ہمیں انھیں جگہ دینی چاہیے تا کہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر سامنے آ سکے، وہ نہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ جو اس وقت موجود ہے۔ بیس کروڑ لوگ اس ملک میں رہتے ہیں اور ہمارے ملک میں معتدل لوگ بھی ہیں، انتہا پسند بھی ہیں، ترقی پسند بھی ہیں، قدامت پسند بھی ہیں۔ معاشرے میں ضابطے اور حدود کا تعین بھی اتنا ہی ضروری ہے جیسا اختراع، ایجاد اور نیا راستہ نکالنا۔

ضروری نہیں ہے کہ یہ دونوں دھارے آپس میں حریف ہوں یا ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے رہیں۔ اس میں مکالمہ کرنا چاہیے۔ آن لائن جرنلزم میں ہماری تحدیدات کچھ کم ہوئی ہیں، ایڈیٹوریل آزادی زیادہ ہے۔ اسی اعتبار سے ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ ہم سب کے ساتھیوں کو اب تک نہ تو کوئی دھمکی ملی ہے نہ کبھی کوئی سرکاری دباﺅ ملا ہے۔ ہمیں خبر مل جاتی ہے کہ ہماری فلاں بات پسند نہیں کی گئی، فلاں حلقے میں ہماری بات پسند نہیں کی گئی لیکن ہم خود کو بڑی حد تک محفوظ سمجھتے ہیں۔

ہم خود احتیاط کرتے ہیں کہ ہم نے اتنی بات کہنا ہے کہ خود سے تنازعات کو دعوت نہیں دینا۔ لیکن ہمیں بات کہنا ہے۔ ہمیں ٹرانس جیندر کے حقوق پر آواز اٹھانی ہے، عورتوں کے حقوق پر بات کرنی ہے، اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دلانی ہے، ہمیں جمہوریت کے مستقبل پر بات کرنا ہے، ہمیں اس ملک کی معیشت پر بات کرنا ہے۔ تو نصابی بیانیے اور اختلافی آواز میں ایک پل باندھنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں جو سمجھا جاتا ہے کہ لبرل اور مذہب پسند کا کوئی تضاد ہے تو میں خود بھی ایک نام نہاد لبرل ہوں۔ (اس اعتبار سے کہ لبرل ہونا کوئی رسٹ واچ نہیں کہ بازار سے خرید کر کلائی پر باندھ لیں۔ یہ ایک اخلاقی معیار ہے، اسے اپنے قول اور فعل سے نبھانا ہوتا ہے)۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے کسی  مذہب سے کوئی پرخاش نہیں، مجھے ہر کسی کے اس حق کا احترام کرنا ہے کہ وہ جس عقیدے کو درست سمجھے، اسے اپنا لے۔ اس پر مجھے اختلاف ہے کہ کوئی اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط کرے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد نیا سماج اپنا راستہ خود بنا لے گا۔

(بشکریہ: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).