کیا گاؤں کی عورت کسی سے کم ہے؟


خاتون فوٹو جرنلسٹ ہونے کے ناطے کبھی کبھی دیہاتی علاقوں میں بھی جانا پڑتا ہے اور کچھ ایسی چیزوں کا پتہ چلتہ ہے کہ کیا خواتین یہ کام بھی کر سکتی ہیں۔ عورت کو عام طور صنف نازک کہا جاتا ہے لیکن آج کی عورت مردوں کے شانہ بشانہ ہر جگہ کام کرتے ہوئے نظر آتی ہے چاہے وہ پھر چاند پہ جانا ہو یا پھر زمین پر رہ کر کوئی مشکل کام کرنا ہو۔ ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہونے کے ناطے مجھے روز کہیں ایسے مناظر نظر آتے ہیں جن کو دیکھ کہ دل کرتا ہے کہ چلو جی اب ایک اور فوٹو سٹوری ہو جائے کیونکہ عورتوں کو ہمیشہ مظلوم دیکھایا جاتا ہے حالانکہ آج کی عورت بہت مضبوط اور حوصلہ مند ہے چاہے وہ گاؤں کی ہو یا شہر کی۔

مردان، صوبہ پختنخواہ کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ تمباکو کی فصل کے لئے بہت مشہور ہے۔ صوابی اور مردان کے کچھ حصوں میں کسان آج کل تمباکو کی فصل پکانے اور اس کو تمباکو کے ڈپو میں بھیجنے میں مصروف ہیں۔ مردان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں خواتین کو تمباکو کی پراسیسنگ کے اس مشکل عمل میں اپنے مرد حضرات کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھا تو سوچا چلو دنیا کو دیکھا جائے کہ گاؤں کی عورت کسی سے کم نہیں۔

تمباکو کی فصل جب کھیت میں پک جاتی ہے تو مرد حضرات جا کے پتے توڑ لاتے ہیں اور گاؤں کی لڑکیاں اور عورتیں بیٹھ کر ان پتوں کو لکڑیوں پر پروتی ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن گاؤں کی عورتیں اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ خواتین اکثر اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پہ لاتی ہیں۔ اس کام کے لیے کوئی خاص جگہ مخصوص نہیں ہوتی لیکن چونکہ آج کل گرمی ہے تو چھاؤں کے پیچھے پیچھے خواتین پھرتی ہیں کیونکہ اندھے کو کیا چاہیے بس دو آنکھیں۔ اس ڈنڈے پہ پتے پرونے کے جو پیسے ملتے ہیں وہ جان کر پڑھنے والا حیران رہ جائے گا کیونکہ اتنے پیسے تو آج کل کا فقیر نہیں لیتا۔

جی ہاں ایک ڈنڈے پہ پتے لگانے کا ان خواتین کو صرف اور صرف ”ایک روپیہ“ ملتا ہے۔ ان خوتین سے بات کرنے پہ معلوم ہوا کہ یہ ان کی مرضی ہے چاہے وہ دن دن کے حساب سے پیسے لیں یا پھر سیزن ختم ہنے کے آخر پہ۔ آج اپنے بزرگوں کی ایک بات یاد آگئی کہ ”اپنا ایک روپیہ دوسرے کی جیب میں پڑے ہوئے ہزار سے اچھا ہوتا ہے“۔

یہ مناظر دیکھنے کے بعد ذہن یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا گاؤں کی عورت کسی سے کم ہے؟

 

سبا رحمان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سبا رحمان

سبا رحمان مومند ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اور اس وقت پورے فاٹا اور صوبہ خیبر پختنخواہ سے وہ واحد ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو کہ فوٹو جرنلزم جیسے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اپنی یہ تعلیم نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ماہر فوٹو جرنلسٹ سے حاصل کی۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہر فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ دونوں جگہوں پر کام بھی کیا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اوراپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز لندن کے ریڈیو بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ آج کل بھی بی بی سی اردو، ٹی آر ٹی ورلڈ اور عرب نیوز کے لیے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ۔

saba-rahman-momand has 5 posts and counting.See all posts by saba-rahman-momand