عورت کی آزادی…. مائی فٹ!


عورت کو آزادی دینے کی باتیں کرنے والو، کان کھول کر سن لو، آج تم آزادی دو گے، کل یہی عورتیں تمہارے سر پر چڑھ کر ناچیں گی اور تمہارے سینے پر مونگ دلیں گی۔ ارے غضب خدا کا، ہمارے اماں باوا کے دور میں تو یہ آزادی وزادی کی بات کسی کو نہ سوجھی۔ آئے روز خبریں دیکھتے تھے، کسی کے گھر چولہا پھٹ گیا، دلہن جھلس گئی، کہیں دلہن چھت سے گر کر جاں بحق ہو گئی، کبھی شام کو کھیتوں میں گئی تو سانپ نے کاٹ لیا، حرام ہے جو کبھی کسی نے سسرال پر یا مرد پر الزام لگایا ہو۔ یہ چیزیں امر ربی سمجھی جاتی تھیں اور ان کو روزمرہ کے معمولات کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

بھئی اب ایک نیک بخت بغیر منڈیر کی چھت پر کپڑے سوکھنے کے لیے لٹکا رہی ہے، تو کیا زور کی ہوا چلنے سے یا چکر آ جانے سے وہ گر نہیں سکتی؟ اور پاﺅں پھسل بھی تو سکتا ہے۔ یہی معاملہ مٹی کے تیل کے چولہے کا ہے۔ آج تک کسی نے کبھی یہ سوال اٹھایا کہ سڑک پر آئے روز اتنے حادثے کیوں ہوتے ہیں، اور مرد کیوں مر جاتے ہیں۔ بھئی حادثہ اتفاقی معاملہ ہے، گاڑی چلے گی تو حادثہ بھی ہو گا، عین اسی طرح چولہا جلتا ہے تو پھٹ بھی سکتا ہے۔ بعینہ شام کو کھیتوں میں جانے والا معاملہ ہے۔ سانپ اب انسان کو نہ کاٹیں گے تو اور کیا کریں گے۔ ان سارے معاملوں میں مردوں کی سازش ڈھونڈنا بہت دور کی بات نہیں، سمجھئے کم ہی عرصہ ہوا ہے۔

سنتے تھے کہ قیامت آنے کو ہو گی تو اس کی چند نشانیاں بھی اس سے پہلے ظہور پذیر ہوں گی، بس وہ نشانیاں ایک ایک کر کے ہم نے دیکھ لیں اور اب رہ ہی کیا گیا دیکھنے کو!

جن بلاﺅں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا

یعنی خدا کا قہر نازل نہیں ہوتا ان لوگوں پر جو اپنے تئیں ہمیں گھسیٹ کر دنیا کے ساتھ چلنے پر مجبور کر رہے ہیں، سن لو او نادانو، ہم پتھر کے دور میں بھلے ہیں، ہمیں وہیں رہنے دو اور یہ نئے نئے شوشے جو تم چھیڑتے ہو، یہ جاﺅ اپنے آقاﺅں کے دیس میں نافذ کرو جا کر۔ کسی کا ریپ ہوتا ہے، تم ڈی این اے ڈھونڈنے نکل پڑتے ہو، جب ہم نے چار گواہوں کی جائز بات کی…. کہ بھئی آرام سے وہ چار لوگ پیش کر دو جنہوں نے اس فعل شنیع کا بہ غور مطالعہ کیا ہو اور ریپ کرنے والے کو سزا دلوا دو تو تم لوگ ناحق کیوں الجھتے ہو۔ ڈی این اے کے چکروں میں، کیا لیبارٹری کی رپورٹ پیسے دے کر بدلوائی نہیں جا سکتی؟ اس ملک میں کیا نہیں ہو سکتا پیسوں کے بل پر۔

پھر جب کم عمری کی شادی کے مسئلے تم لوگ نکال کر لاتے ہو، تو تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ جب والدین راضی ہیں اور بچوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تو تم لوگ کیوں عمر کی حد مقرر کرتے ہو۔ نام خدا دس گیارہ برس کی عمر میں بچی سیانی بیانی ہو جاتی ہے، ہمارے وقتوں میں تو تیرہ چودہ سال کی عمر میں اپنے گھر کی ہو جاتی تھی، کیا ہوا جو اوسط عمر کم تھی؟ جتنا جئیں، عصمت و آبرو سے جئیں! بھلا بتاؤ، اٹھارہ سال بھی کوئی عمر ہے شادی کرنے کی، مغربی ہوائیں تمہارے دماغوں کو متاثر کرتی ہیں تو یاد رکھو کہ ان کے ہاں تو بچے بارہ تیرہ سال کی عمر میں گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ ہو جاتے ہیں، تم بھی دے دو اپنے بچوں کو یہ نام نہاد آزادی، تاکہ ان کو جنسی گھٹن نہ ہو۔ یعنی حد ہے، ایسے بچگانہ مسئلوں پر اسمبلیاں بیٹھی ہیں اور بل پاس کر رہی ہیں۔

ہماری امہ صدیوں سے ایک صراط مستقیم پر چل رہی ہے اور تم لوگ اسے بھٹکانے آ جاتے ہو، دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لو، کیوں لیں اجازت، عورت ایک ناقص العقل مخلوق ہے اور اسے ہرگز وہ فضائل نہیں معلوم جو دوسری بلکہ تیسری اور چوتھی شادی میں چھپے ہوئے ہیں، تو جب وہ جانتی ہی نہیں تو ہم اس سے اجازت بھی کیوں لیں۔ مطلب کمال کی بات ہے، صدیوں سے ہمارے آبا ¿ و اجداد یہ کرتے آئے ہیں، وہ تو کبھی اجازت نہیں لیتے تھے، تم بڑے آئے ہو نئے قانون اٹھا کر۔ میاں اپنی راہ ناپو سیدھے سیدھے۔ یہ بیویوں کے تھلے لگنا تمہیں مبارک ہو، ہم اپنی آن اور اپنی خودی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ اور ہاں، سن لو، ہم اپنی تمام بیویوں سے برابر انصاف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اپنی دو بیویوں میں تربوز بانٹنا پڑے اور ایک حصہ بڑا رہ جائے تو ہم گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں دوبارہ جاتے ہیں اور جس کم نصیب کو چھوٹا حصہ ملا تھا اسے مزید تربوز دے کر آتے ہیں، یہ ہیں ہمارے اسلاف اور یہ ہے ہماری انصاف پسندی۔ توں کیہ جانیں بھولیے مجھے، انار کلی دیاں شاناں!

یہ جو تمہارے سائنس دان کلوننگ وغیرہ کی بات کرتے ہیں یہ بھی مطلق حرام ہے۔ خدا کی خدائی میں دخل دینے والی بات ہے، تمہاری روشن خیالی کا ہر راستہ نیک لوگوں کی راہ سے متصادم ہے، کیا سمجھے؟ وہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے کی پیدائش والا مسئلہ بھی ہم نے طوعاً و کرھاً قبول کیا تھا مخصوص حالات کی شرط کے ساتھ، تو اب یہ کلوننگ کا مسئلہ لے آئے، کان کھول کر سن لو، یہ کافرانہ کام ہماری مملکت میں نہیں ہونے کے، جاو اور باقی پوری دنیا میں منہ کالا ملو۔ ہاں دو تین سو برس بعد ہمارے علما اس مسئلے کے بیچ کوئی حل فرما دیویں تو وہ ان کی مرضی ہو گی، وہ بھی حق پر ہوں گے اور ہم بھی حق پر ہیں۔

اور ان نابکار حکمرانوں سے خدا کی پناہ کہ جو مرد ہوتے ہوئے بھی مردوں کے دشمن ہیں۔ ان کی اسمبلیاں وہ قانون پاس کرتی ہیں کہ جن میں گھر کے سربراہ کو یہ لوگ چور بنا دیتے ہیں۔ او بھلے مانسو، عورت ٹیڑھی پسلی سے بنی ہے اور عین اسی کے موافق ہے۔ اگر اس کو سیدھا کرنے کے لیے دو چار ہاتھ جڑ دو گے تو تمہارا ہی بھلا ہے۔ سیدھی ہو جائے گی، آئندہ تمہارے آگے آنکھ نہیں اٹھائے گی۔ بچوں پر الگ اچھا اثر پڑے گا، تمہارے رعب میں رہیں گے اور اپنی بیوی کو بھی اپنی ماں کے جیسا کم عقل والا گمان کریں گے اور اپنا گھر اور اپنی عزت بچا کر رکھیں گے، مگر نہیں، تم لوگوں کو بس اپنے مغربی آقاﺅں کو خوش کرنا ہے۔

تم سے اچھے تو خیبر پختون خواہ والے ہیں جو ہمیں دکھا کر بل نامنظور کرواتے ہیں۔ یاد رکھو تم جو بھی اس طرح کے بل ہم سے پوچھے بغیر منظور کرتے ہو ان پر آرٹیکل پانچ اور چھ لاگو ہوتا ہے اور ہم کون ہیں، یہ بھی جان لو۔

ہم وہ ہما ہیں جو تمہارے سروں پر 1962 میں ایوب خان (خدا اسے غریق رحمت کرے) مرحوم نے بٹھایا تھا۔ دستور 1973ءکے آرٹیکل 230 کے مطابق ہمیں اپنی سفارشات اگلے سات برس میں جمع کروانی تھیں، جو خدا کے فضل سے ہم نے 1996 میں جمع کروائیں، بے شک اس کا رحم و کرم شامل حال تھا جو ایک عام سی رپورٹ اتنی طوالت زمانی کھینچ گئی اور ہمیں قوم کی اصلاح کا موقع ملتا رہا۔ اور گم راہوں کے لاکھ چاہنے کے باوجود وہی آرٹیکل 230 ہے جس پر ہمیں قدرت وقت دیتی چلی آ رہی ہے اور ہم زمانے کے سرد و گرم کی پرواہ کیے بغیر اس خدمت پر کوشاں ہیں۔

تو یہ جو تم لوگ ہر وقت عورت کے حقوق کا ڈھول بجاتے رہتے ہو، یاد رکھو وہ ایک ایسی مخلوق ہے کہ جس کی نمائندگی تک ہم اپنی کونسل میں رکھنا پسند نہیں کرتے۔ جب وہ ہے ہی کم عقل تو نمائندہ رکھنے کا فائدہ کیا۔ ہاں ایک آدھ خاتون کبھی کبھار ہم شامل کر لیتے ہیں تاکہ تم جیسوں کو اعتراض کا موقع نہ مل سکے۔

اور یہ بات یاد رکھو، آج تم عورت کی آزادی مانگتے ہو، اس پر تشدد کی راہ بند کرنا مانگتے ہو، کل تم اسے غلطی سے بھی ہاتھ لگا بیٹھے تو اگلی دو راتیں اپنے گھر میں گزارنے کو ترسو گے، گرم روٹی کو ترسو گے، دھلے اور استری کیے ہوئے کپڑوں کو یاد کرو گے، چمکے چمکائے جوتے کہاں سے ملیں گے، گھر کی صفائی اور برتن دھونے کو الگ کام کرنے والی رکھنی پڑے گی، تمہیں جو خدمت کرنے والی مفت میں جہیز کے ساتھ ملی ہے، اسے بھول جانا پھر۔

پھر وہ آزاد ہو گی، ہنسے گی، دوڑے گی، باتیں کرے گی، اپنی مرضی کے کپڑے پہنے گی، تم لوگوں کے کندھوں سے کندھے ملا کر چلے گی، اپنی زندگی خود گزارے گی، بال کٹوائے گی، سہیلیوں میں جائے گی، اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرے گی، کاروبار کرے گی، نوکری کرے گی، کرکٹ کھیلے گی اور ہر وہ کام کرے گی جس سے تم جل بھن جاو گے۔

سوچ لو، اب بھی وقت ہے!

کالم کی دم؛

عباس تابش صاحب کا ایک شعر عارف نے ہماری نذر کیا، ہم آپ کو پیش کیے دیتے ہیں؛

ہمارے پاوں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments