کیا نواز شریف کے ادھڑے”پانامے” کی رفوگری ہو پائے گی؟


سابق وزیرا عظم نواز شریف کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ہاتھوں متفقہ نا اہلی نے پورے شریف خاندان اور حکمران جماعت کے مستقبل پر کئی اہم سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ یہ فیصلہ محض نواز شریف کے خلاف نہیں بلکہ اس میں ان کے بچوں اور شہباز شریف کیلئے بھی ایک سٹیج سیٹ کر دیا گیا ہے۔ یعنی پوری فیملی اس چومکھی فیصلے کی مکمل زد میں آچکی ہے جس سے نکلنا اب خاصا محال ہو گا۔ کیونکہ شہباز شریف جب وزیر اعظم کے لئے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑیں گے تو تحریک انصاف ان کے کاغذات نامزدگی چیلنج کرنے کا مکمل پلان اپنی جیب میں رکھ چکی ہے۔ شہبازشریف ہوں یا کوئی اور، مسلم لیگ ن بحثیت حکمران جماعت عدت کےبعد اپنی مدت تو پوری کر لے گی لیکن اس کے بعد منظرنامہ کیا ہو گا؟

یہ وہ انگڑائی لیتا سوال ہے جس کا ہر ممکن جواب بظاہر ن لیگ کے لئے تباہ کن ہے۔ یہ تقریبا ایسی ہی صورت ہے جو پیپلز پارٹی کو یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد پیش آئی، یعنی جیسے تیسے پیپلز پارٹی نے مدت تو پوری کر لی لیکن انتخابات میں زرداری صاحب کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ نواز شریف کے ڈسکوالیفائی ہونے سے مراد ان کی سیاست سے عملی طور پر دوری ہے۔ گزرے روز درحقیقت چوہدری نثار نے یہی مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ اصل مدعا پارٹی کو یکجا رکھنا ہوگا۔ لیکن کیا اس اہم فیصلے کے بعد ن لیگ یکجا رہ پائے گی؟

کابینہ کی طرح پارٹی کےتحلیل ہونے کا بھی اندیشہ ہے؟ بخیے ادھڑے تو رفوگر سی پائے گا؟ 1999 کے مارشل لا کے بعد تو نواز شریف بے سر و پا رہ گئے تھے۔ مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو ان کے حامی سڑکوں پر دکھائی دیے نہ ہی پارلیمنٹ میں۔ کہنا پڑے گا کہ نہ تو پاکستان ترکی ہے نا نواز شریف طیب اردوگان۔ لہذا نقطے جوڑے جائیں تو تصویر کچھ اور ہی بنتی دکھائی دییتی ہے۔ جس میں مشرف دور کے کچھ فصلی بٹیرے کسی اور کھیت میں دانا چگتے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ کسی بھی چوبارے پر جا بیٹھیں، پارلیمنٹ میں گھونسلہ بنا ہی لیتے ہیں ۔ شہباز بھی اکیلے ان سب کوایک پرچم کے سائے تلے یکجا نہیں رکھ سکتے۔ موصوف نے چار برس میں شاید ہی کسی ایم پی اے کو ملاقات کے لئے وقت دیا ہو۔

نواز شریف کی نا اہلی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ن لیگ کو نئے سرے سے اب نیا سربراہ بھی انٹرا پارٹی انتخابات کے ذریعے چننا ہو گا۔ چہرے کی تبدیلی پارٹی کو راس آتی ہے یا نواز صاحبِ فراش یا فراموش ہونے پر تیار ہوں گے؟ الیکشن کمیشن کے سامنے سوال یہ بھی ہوگا کہ کیا مسلم لیگ ن جو نواز شریف سے منسوب ہے وہ اس بیساکھی کےساتھ مزید چل سکتی ہے یا نہیں۔ دوسری جانب موسمی پرندے بھی ہوا کا مزاج بھانپتے ہوئےکسی بھی جھنڈ اور غول میں شامل ہوسکتے ہیں ، جس سے نوازلیگ کے لئےممکنات اور امکانات کے دروازہ بند اورمشکلات کے دریچے وا ہوتے چلے جائیں گے۔ تاہم یہ صورتحال الیکشن کے ہنگام میں ہی پیدا ہوگی۔ ابھی حکمران جماعت مدت پوری کرنے کی فکر میں مگن رہے گی۔

دوسری جانب باخبر ذرائع کا ماننا ہے کہ معاملہ صرف نواز شریف کی نا اہلی پر نہیں رکے گا۔ باسٹھ تریسٹھ کی تلوار عمران کی اہلیت پر بھی گرے گی اور مائنس فور کے فارمولے کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جا ئے گا۔ بازار میں گردش کرتے اس فارمولے میں الطاف حسین کی پتنگ کٹ چکی، نواز شریف نا اہل ہوگئے، اگلی باری عمران خان کی اور آخر میں زرداری صاحب کی ایک بار پھر پکڑ کی شنید ہے۔ معاملات کی کی شہ رگ پر بیٹھنے والے پارلیمانی جمہوری نظام میں بھی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اب دیکھنا یہی ہوگا کہ کہ پلان کس حد تک عملی شکل اختیار کرتا ہے کیونکہ اس ساری ایکسرسائز میں ملک کو نقصان پہنچے کا خدشہ بھی بہر حال شدت کے ساتھ رہے گا۔

لیکن اس صورت حال کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کے لئے کسی حد تک اطمنیان کا پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کرپشن یا پانامہ لیکس میں نا اہل نہیں ہوئے بلکہ ان کی نا اہلی کیپٹیل ایف زیڈ ای نامی کمپنی کے چئیرمین کی حثیت سے دس ہزار درہم تنخواہ وصول کرنے کی بنیاد پر عمل میں آئی۔ لہذا انہیں تاحیات نا اہل نہیں کیا گیا، کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ نواز شریف دوبارہ کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے اہل ہوں گے۔ دوسرا سکھ کا پہلو یہ بھی ہے کہ آج ننانوے جیسی صورتحال نہیں، کسی نہ کسی صورت میں جمہوری نظام سانسیں لے رہا ہے اور لیتا رہے گا۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami