نواز شریف نااہل: کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد


سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے بعد اب ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس اہم فیصلہ کے بعد سیاسی طور سے تقسیم ملک میں نواز شریف کے مخالفین خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں جبکہ نواز شریف کے حامی مسلسل سکتے کے عالم میں ہیں۔ عدالتی فیصلہ کی تفصیلات آنے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد ہی مزید معلومات اور ملکی سیاست اور نظام پر اس کے اصل اثرات کا اندازہ ہو سکے گا۔ اسی طرح نواز شریف کا جانشین سامنے آنے اور مسلم لیگ (ن) کی تنظیم اور اتحاد کے حوالے سے سوالوں کا جواب ملنے پر ہی یہ طے ہو سکے گا کہ کیا یہ پارٹی بدستور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے گی۔ یا نواز شریف کی نااہلی کے ساتھ ہی اقتدار اور مفادات کی خواہش میں پارٹی کے ساتھ وابستہ عناصر دوسری پارٹیوں کی طرف کوچ کرنے لگیں گے۔ عمران خان کی تحریک انصاف سمیت پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی پارٹیاں آئندہ انتخابات میں کامیابی کی امید پر مسلم لیگ (ن) کے ایسے ارکان کو ساتھ ملانے کی ضرور کوشش کریں گی جو خاندانی سیاست کی وجہ سے اپنے حلقے میں نشست جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان حلقوں کے ووٹروں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ایسا نمائندہ منتخب کرنا ہوتا ہے جو بہرحال علاقے اور اس کے مکینوں کا خیال رکھ سکے۔

آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں یہ صورت حال بھی واضح ہو سکے گی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کس حد تک قانونی معیار پر پورا اترتا ہے اور اس فیصلہ تک پہنچنے کے لئے ججوں کو شواہد کے علاوہ کن عوامل کو پیش نظر رکھنا پڑا تھا۔ ملک میں یہ قیاس آرائیاں موجود ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں مزید اضافہ ہوگا کہ نواز شریف دراصل اسٹیبلشمنٹ کے لئے ناقابل قبول ہو چکے تھے۔

نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے حوالے سے یہ تاثر جس قدر مضبوط ہوگا عدالتی فیصلہ کے بارے میں شبہات میں اسی قدر اضافہ بھی ہوگا۔ اس طرح یہ بے یقینی تقویت پکڑے گی کہ ملک کے غیر منتخب ادارے فوج اور سپریم کورٹ ۔۔۔ اپنی دانست میں قومی مفاد اور اچھائی کے علمبردار بن کر منتخب وزرائے اعظم کے خلاف اقدام کرتے رہتے ہیں۔ درپردہ قوتوں یعنی فوج کے سیاسی مفادات کے حوالے سے جس قدر شبہات قوی ہوں گے، اسی قدر عدالت، اس کے فیصلہ اور فوج کے طرز عمل کے بارے میں ملک میں رائے مضبوط ہوگی۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ اس طرح یہ فیصلہ اور اس کے نتیجہ میں بننے والی رائے کا ملک کی سیاست اور اختیار کی بندربانٹ پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جس قدر یہ غیر یقینی گہری ہوگی، اسی قدر عالمی سطح پر ملک کا اعتبار بھی متاثر ہوگا اور اسے درپیش خطرات میں یوں اضافہ دیکھا جائے گا کہ ان سے نمٹنے کے لئے کوئی ایک مستحکم ادارہ یا نظام مضبوط نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے آج جو فیصلہ سنایا ہے، اس کی گونج آنے والے دنوں ہی میں نہیں بلکہ برسوں ملک میں سنی جائے گی۔ اس رائے کی بنیاد عدالتی فیصلہ کے قانونی دلائل یا اصول نہیں ہیں۔ کیوں کہ نہ تو ابھی یہ پہلو پوری طرح سامنے آئے ہیں اور نہ ہی اہل صحافت ان امور میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ تاہم، سیاسی نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے اس فیصلہ کا اثر صرف ایک وزیراعظم کی معزولی کی صورت میں برآمد نہیں ہوگا بلکہ یہ وسیع سیاسی جوڑ توڑ اور طاقت کے حصول میں اداروں کی جدوجہد میں نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ اس جدوجہد میں بعض ادارے اپنی موجودہ حیثیت اور طاقت سے محروم بھی ہو سکتے ہیں جن میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے۔

قانونی معاملات سے نابلد شخص بھی یہ جان سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کی بنیاد کسی ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر نہیں ہے۔ یعنی پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی ہے البتہ شبہات میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کی نامزد کردہ جے آئی ٹی ۔۔۔ جس کی آج کے فیصلہ میں قابل قدر کام کرنے پر تحسین کی گئی ہے اور جس کے ارکان کو مستقبل میں ملازمت کے حوالے سے عدالتی تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔۔۔ اگرچہ بہت سے پہلو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کے پاس بھی ایسے حتمی ثبوت نہیں تھے جن کی بنیاد پر سپریم کورٹ وزیراعظم کو نااہل قرار دیتی۔ لہٰذا فیصلہ میں نواز شریف کی قومی اسمبلی اور عدالت میں دروغ گوئی کو بنیاد بنا کر انہیں سرکاری عہدہ یعنی وزیراعظم رہنے کے لئے غیر موزوں قرار دیا گیا۔ اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا ہے کہ فوری طور پر قومی اسمبلی میں ان کی رکنیت کو ختم کیا جائے۔ ایسا ہی حکم نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بارے میں بھی جاری ہوا ہے۔

بدعنوانی اور مالی معاملات میں لین دین، وسائل کے حصول اور ترسیل کے جن معاملات میں وزیراعظم کو غلط بیانی کرنے پر نااہل قرار دینے کا فیصلہ ہوا ہے، وہ ابھی تک الزامات کی شکل میں ہی موجود ہیں۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے ساری دستاویزات احتساب عدالت کے حوالے کرنے اور 6 ماہ کے اندر نواز شریف اور ان کے دیگر اہل خاندان کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس عمل کی نگرانی بھی سپریم کورٹ کا ایک جج ہی کرے گا۔ فیصلہ کے اس پہلو کا حوالہ دینے کا مقصد یہ استفسار کرنا ہے کہ جب الزامات ابھی تک ثابت نہیں ہوئے تو کیا عدالت کی طرف سے نااہلی کا حکم صرف ججوں کے تاثر یا تفہیم ہی کی بنیاد پر ہی دیا گیا ہے کہ نواز شریف نے ان معاملات میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ کیوں کہ مقدمہ چلنے، اس میں دلائل دینے اور فیصلہ سامنے آنے تک کیسے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کا قومی اسمبلی میں بیان اور عدالت کے سامنے فراہم کردہ معلومات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اگر احتساب عدالت کی کارروائی میں الزامات ثابت نہ ہو سکے تو ججوں کے اس تاثر کی بنیاد پر کئے گئے فیصلہ کو کس قانون کے تحت درست کہا جائے گا۔ یہ طے ہے کہ اس کا جواب تو بنچ کے ججوں سے نہ پوچھا جا سکتا ہے اور نہ ہی وقت آنے پر شاید وہ جواب دینے کے لئے موجود ہوں گے لیکن اس کے اثرات پوری قوم آج بھی بھگتے گی اور آنے والے وقت میں بھی ان سے نمٹنا پڑے گا۔

اس حوالے سے یہ دو پہلو بھی قابل غور ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم میں احتساب عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ 6 ماہ کے اندر نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے خلاف تمام مقدمات کا فیصلہ کرے۔ اس عمل کی نگرانی بھی سپریم کورٹ کا ایک جج اسی طرح کرے گا جس طرح سہ رکنی اسپیشل بنچ نے جے آئی ٹی کی نامزدگی اور کارکردگی کے دوران کی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جائے گا کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں دراصل اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتی تھی کیوں کہ جے آئی ٹی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی لیکن اس کے کام کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا گیا بلکہ اس کی فیصلہ میں بھرپور تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اس کے ارکان کو اچھی کارکردگی کا انعام دینے کے لئے یہ ضمانت فراہم کی گئی ہے کہ ان کے محکمے سپریم کورٹ کی مرضی کے بغیر ان کی بقیہ مدت ملازمت میں ان کی تقرری اور فرائض کے تعین کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔

فیصلہ میں احتساب عدالت کی نگرانی کا حکم دے کر سپریم کورٹ کے بنچ نے اس سوال کو خود ہی جنم دیا ہے کہ کیا عدالت عظمیٰ احتساب عدالت سے وہی فیصلہ حاصل کرنا چاہتی ہے جسے وہ خود درست سمجھتی ہے۔ چونکہ قانون سپریم کورٹ کو ٹرائل کورٹ کے طور پر کام کرنے کا حق نہیں دیتا اس لئے ضابطے کی کارروائی کے لئے یہ معاملہ احتساب عدالت کے حوالے کیا جائے گا۔ اس بارے میں یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کے فیصلوں کے لئے اس عجلت یعنی 6 ماہ کی مقررہ مدت میں نتیجہ حاصل کرنے کا حکم صرف ایک ہی شخص یا خاندان پر کیوں لاگو ہوگا۔ ملک کے درجنوں سیاستدانوں اور دیگر لوگوں کے خلاف طویل عرصہ سے تعطل کا شکار اسی قسم کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے مدت کا تعین کب ہوگا۔ اگر نہیں تو کون سا قانون ایک ہی خاندان کے ساتھ ”امتیازی سلوک“ کا حق دیتا ہے۔

عدالت نے نواز شریف کو دروغ گو ثابت کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں ان کی تقریر کا حوالہ دیا ہے۔ 5 رکنی بنچ نے ملک کے مقبول ترین وزیراعظم، سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اور پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والے رہنما کو جھوٹ بولنے یعنی آئین کی شقات 62-63B کے تحت سزا دینے کے لئے قومی اسمبلی کی تقریر کو بنیاد بنایا ہے۔ اس طرح عدالت نے یہ طے کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں پر عدالتوں میں مواخذہ ہو سکتا ہے۔ ہر سیاستدان سے سچ بولنے کی توقع کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو مقدس مانا جاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر پارلیمنٹ میں غلط بیانی سے کام لے تو اسے اس کی بھاری سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ میں قومی اسمبلی کی تقریر پر احتساب کرکے یہ عدالتی روایت قائم کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ میں کہی گئی باتوں کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں ہیں یا قابل گرفت ہیں۔ اس طرح یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیار کو محدود کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ اگر یہ فیصلہ قانونی کتابوں میں اسی طرح موجود رہا تو کسی بھی تقریر کے مندرجات کو غلط ثابت کرکے، یا یہ کہہ کر اس رکن کو نااہل کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہو گیا ہے۔

کیا سپریم کورٹ خود کو پارلیمنٹ سے بالاتر ایک ادارہ بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے اور کیا یہ ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی اور نظام مملکت میں اداروں کے دائرہ کار کے تعین میں ڈرامائی تبدیلی کا باعث نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ اسی وقت تک اعلیٰ عدالت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے کا کردار ادا کر سکے گی جب وہ خود کو قانون اور پارلیمنٹ میں کئے گئے فیصلوں کا پابند رکھے گی۔ اس اصول کے تحت عدالتوں کو پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں پر کسی کو جھوٹا سچا کہنے کا اختیار کیوں کر دیا جا سکتا ہے۔

آج کا فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ازخود کارروائی کے اختیار کے تحت ہوا ہے۔ یعنی عدالت نے آئین کی شق 3-184 کے تحت اقدام کرتے ہوئے ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا ہے۔ اسی طرح امین و صادق کے حوالے سے شقات کا استعمال کرکے یہ طے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی منتخب رکن کی صداقت و امانت کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ آج یہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا ہے، کل عمران خان اور جہانگیر ترین یا کوئی دوسرا اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ نواز شریف سے اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ اختیار اور اقتدار کا مرکز پارلیمنٹ کو رکھنا چاہتی ہیں یا درپردہ ڈوریاں ہلانے والوں اور عدالتوں میں متعین ججوں کو یہ اختیار دینا چاہتی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ سے بالا سیاستدانوں کے علاوہ ملک کی تقدیر کے فیصلے کریں۔

ملک کو جب بھی سیاسی بحران کا سامنا ہوا ہے اور جب بھی کسی غیر منتخب قوت نے اہم فیصلے کئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ سیاسی پارٹیوں کا انتشار اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلش رہی ہے۔ جمہوریت کے نام پر لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاستدانوں پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ کی روشنی میں ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے غور و فکر کریں اور ضروری اقدام کئے جائیں۔ ان میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو فرد یا خاندان کی بنیاد پر استوار کرنے کی بجائے اصولوں اور سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر منظم کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اگر ایک سیاسی منشور اور انتظام کے تحت قائم ہوتی تو آج اس اندیشے کا اظہار نہ کیا جاتا کہ نواز شریف کی نااہلی سے پارٹی منتشر ہونے کا خطرہ ہے۔ ملک کی ہر پارٹی اور جمہوری نظام کو اس وقت تک یہ اندیشہ لاحق رہے گا جب تک سیاستدان ان خطرات کو محسوس کرکے انہیں ختم کرنے کے لئے کام کا آغاز نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali