پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا


اب ریاستی رٹ مٹانے کے لیے توپ و تفنگ، منظم حملوں اور طویل و گہری منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی ریاستی رٹ کو ’’ چل پرے ہٹ مال زادی ’’ کہہ کے دھکا دے سکتا ہے اور یہ بے چاری پھر سے کپڑے جھاڑ کے اٹھ کھڑی ہوتی ہے، اپنی آنکھوں میں التجا لیے ’’ کچھ تو خیال کر۔ دیکھنے والے کیا کہیں گے۔ کم از کم میری ضعیفِی کی ہی شرم رکھ لے بے شرما‘‘……

کتنا آسان ہوگیا ہے سب کچھ کرنا۔ ایسی مہربان ریاست کہاں ملے گی جس نے اپنا اقتدارِ اعلی بھی بیس کروڑ لوگوں میں بانٹ دیا ہے۔ بس آپ کے پاس اتنے بندے ہونے چاہئیں جو کسی بھی بڑے شہر کی مرکزی شاہراہ پر آگے پیچھے ہزار مربع گز میں چند گھنٹے کھڑے رھ سکیں، بیٹھ سکیں یا لیٹ سکیں۔ آپ کا کام ترنت ہو جائے گا۔

بس آپ کو یہ کرنا ہے کہ چوبیس گھنٹے کے لیے چند ہزار آئل ٹینکرز کا پہیہ جام کرنا ہے۔ ریاست گھٹنوں کے بل آئے گی۔ جائز ناجائز کی کھکیڑ میں الجھے بغیر تمام مطالبات مان لے گی اور شکرگذار بھی ہوگی کہ آپ مان گئے۔ اس کے بعد آیندہ آپ سے کوئی پولیس والا آئل ٹینکر کے کاغدات نہیں مانگے گا۔ جعلی اجازت نامہ چیلنج نہیں کرے گا۔ آپ کا آئل ٹینکر الٹ گیا توجل مرنے والوں کا خون بھی معاف۔ معاوضہ ریاست دے گی اور آپ کو اجازت ہوگی کہ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے آگے بڑھ جائیں، ایک نئے حادثے کا انتظام کرنے کے لیے۔

یہ تو بہت کرم نوازی ہے کہ آپ عدالتوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ اس کے عوض آپ کو کھلی چھوٹ ہے کہ قتل، اغوا، ریپ، گینگ ریپ کے فیصلے آپس میں باہمی رضامندی سے کر لیں۔ آپ کے بچے آپ کی ذاتی ملکیت ہیں اور ذاتی ملکیت کے معاملات میں ریاست کیسے مداخلت کر سکتی ہے۔ چاہیں تو قتل کر کے وہیں دفنا دیں، چاہیں تو کسی بھی عمر میں کسی بھی عمر کے شخص سے بیاہ دیں، چاہیں تو ہرجانے کے طور پر فریقِ مخالف کو سونپ دیں، چاہیں تو آنکھ کے بدلے آنکھ، لاش کے بدلے لاش، ریپ کے بدلے ریپ کے زریعے انصاف کے تقاضے پورے کر لیں۔ چند پاگلوں کو چھوڑ کے سب آپ کے ساتھ ہیں۔

کسی اجنبی یا غیر اجنبی کو قتل کرنا بھی آپ کا انفرادی و اجتماعی حق ہے۔ بس ایک ایسی بھیڑ ہی تو جمع کرنی ہے جو الزام اور جرم میں تمیز سے عاری ہو یا ثواب کمانے کے لیے بے چین ہو یا اپنے غصے، محرومی اور اندر کی بزدلی کی جذباتی نکاسی کر کے سکون پانا چاہتی ہو۔ بس اس بھیڑ چالی مجمع کو غیرت، مذہب یا نسل کا لال رومال ہی دکھانا ہے۔ باقی کام خود بخود ہوتا چلا جائے گا۔

کچھ بھی کیجیے اور بلادھڑک کیجیے۔ کوئی بال بیکا نہ ہو گا۔ کوئی گواہ نہیں ملے گا، کوئی ادارہ ٹانگ نہیں اڑائے گا۔ سب دیکھیں گے مگر کوئی نہیں بتائے گا کہ دیکھا ہے۔

پہلے ہر آدمی کو وہی نظر آتا تھا جو دوسرے کو نظر آتا تھا۔ اب آپ کو آزادی ہے کہ جو بھی جس رنگ میں چاہے دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ بھلے ایک بھی نہ دیکھیں بھلے ایک کے چار چار دیکھیں۔ کسی کو قتل سے بچانے، کسی زخمی کو اسپتال پہنچانے، کسی بھاگتی حوفزدہ لڑکی کے پیچھے بھاگنے والوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نابینا ہونا اور ایسے مناظر کو فوری یاداشت سے نکال پھیکنا ہی آج کی خرد مندی ہے۔ پہلے زمانے کے پرانی سوچ والے لوگ اس رویے کو بے غیرتی یا بے حسی سمجھتے تھے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آج اس بے حسی کو پریکٹیکل طرزِ عمل کے کپڑے پہنا کر خود کو احساسِ جرم سے پاک تسلی اوڑھائی جا سکتی ہے۔

آج آپ بااختیار ہیں کہ اپنی مرضی سے بینا ہو جائیں یا نابینا بن جائیں۔ آخر ریاست بھی تو یہی پریکٹیکل رویہ اپنا کر زندہ ہے۔ اوپر سے نیچے تک آج کا مقبول سچ یہی ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے ہزار درجے بہتر ہے۔

اس ریاست میں کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو انسان نہیں دو ٹانگوں پر چلنے والے دوپائے ہیں۔ انھیں ڈھائی سے پانچ ہزار روپے ماہانہ میں کوئی بھی صاحبِ استطاعت غلام یا باندی بنا سکتا ہے، ہر طرح کا تشدد کر سکتا ہے، بھوکا رکھ سکتا ہے، نکال کے پھر رکھ سکتا ہے۔ کسی بھی کارخانے میں، دوکان پر، گھر میں، یہ غلام آقا کی بیوی، بیٹی، بیٹے، حتی کہ ڈرائیور اور خانساماں تک کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔ میں نے تو آج تک کوئی غلام رکھنے والا غیر پڑھا لکھا آقا نہیں دیکھا۔

کچھ عرصے پہلے تک سڑک پر صرف کالے شیشے والی بڑی گاڑیاں ریاست کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا استحقاق رکھتی تھیں۔ اب محمود و ایاز کا جھگڑا نہیں رہا۔ کار اور موٹر سائیکل کی تفریق نہیں۔ اب یہ آپ کا صوابدیدی اختیار ہے کہ لال بتی پر رکتے ہیں یا لال بتی پر رکنے والوں کو گالیاں دیتے ہوئے زن سے آگے نکل جاتے ہیں۔ یکطرفہ ٹریفک کا سائن بورڈ پڑھتے ہیں یا یہ سائن بورڈ بھی اکھاڑ کے لے جاتے ہیں۔

اب آپ شائد یہ پوچھنے کے لیے کلبلا رہے ہوں کہ جب ریاست اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر نہ خود عمل کر سکتی ہے نہ دوسروں سے کروا سکتی ہے تو پھر ایسی ریاست کا کیا فائدہ ؟ اس کا جواب اقبال بہت پہلے نہائیت سہج کے ساتھ دے چکے ہیں۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

ریاست کو یہ سوچ کر بھی تو برداشت کیا جا سکتا ہے کہ اچھے وقتوں کے بزرگوں کی نشانی ہے لہذا کونے میں پڑا رہنے دو۔ جب ہمارے کسی معاملے میں یہ دکھیا ٹانگ نہیں اڑا رہی تو ہم اسے خامخواہ کیوں تنگ کریں۔ ریاست پر غصہ کرنا اور اسے طعنے دینا دراصل اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔

ویسے بھی مشرقی تہذیب میں پیرانہ سالی بذاتِ خود جواز احترام ہے۔ آخر آپ بزرگوں سے بھی تو حقیقی و فرضی و علامتی قصے کہانیاں سن کر چند لمحے کے لیے اپنے دکھ بھول جاتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ریاست بھی اس اعتبار سے غنیمت ہے کہ کم ازکم شیخیاں تو بگھارتی ہے، ماضی کے کردہ ناکردہ کارناموں کی کہانیاں تو سناتی ہے۔ گپ تو لگاتی ہے۔ کیا آپ کسی ستر سال کے بزرگ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ ہی کی طرح ون وہیلنگ کرے، کول نظر آئے، سکس ایپس بنائے، ڈنڈ پیلے۔ تو پھر ستر سالہ ریاست سے ایسی توقعات کیوں رکھتے ہیں ؟

اب پلیز یہ دلیل مت دیجیے گا کہ ستر سال کوئی عمر نہیں ہوتی۔ مغرب میں تو دو دو سو سال پرانی ریاستیں ایسی نک سک سے رہتی ہیں کہ دوشیزائیں بھی اس رکھ رکھاؤ کے آگے پانی بھریں۔ تو ہماری ریاست یہ سلیقہ کیوں نہیں سیکھ سکتی۔

ایسے سوالات پردہ دار تہذیب میں زیب نہیں دیتے۔ ریاست آپ کا پردہ رکھتی ہے لہذا آپ پر بھی لازم ہے کہ ریاست کا پردہ رکھیں۔ گھٹ گھٹ کے مرجائیں پر اف نہ کریں۔ پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).