ایک پٹواری کا خط۔ – بنام میاں نواز شریف


میاں صاحب

میرے حلقہِ احباب میں بیشتر لوگ مجھے پٹواری کہتے ہیں کیونکہ میں آپکا سیاسی سپورٹر رہا ہوں۔

میں آپ کی معاشی اور خارجہ پالیسیوں کا ایک عرصے سے گرویدہ تھا اور مزید گرویدہ اس وقت ہوا جب بی بی سی اردو سروس میں بطور کیمرہ مین ملازمت کرتے ہوئے ایک انٹرویو کی ریکارڈنگ کے دوران آپ سے ملاقات کا موقع ملا۔ مجھے آپ کے خطے میں امن کے ارادے اور پڑوسی ملک بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش بہت بھائی۔

زمانہِ طالبِ علمی میں ووٹ کا اہل بننے سے پہلے بھی میں اپنے والدین کی ووٹر لسٹوں میں رجسٹریشن یقینی بنایا کرتا تھا اور انہیں قائل کیا کرتا تھا کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں اور قومی و صوبائی الیکشنز میں آپکی پارٹی کو ووٹ دیں۔

2013  کے الیکشن میں بھی میں نے آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا جب کہ میرے سگے بہن بھائی اور تقریباً تمام احباب میرے قائل کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کے سپورٹر تھے کہ یہ پارٹی اس وقت نوجوان اور تعلیم یافتہ شہری طبقے میں اِن فیشن تھی۔

آپکی بطورِ وزیر اعظم ایک بلا جواز قانونی نقطہ پر نا اہلی پر میں رنجیدہ ہوں مگر میں اس بات پر بھی رنجیدہ ہوں کہ آپ جمود کا شکار سیاستدان ثابت ہوئے۔

جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کا دہقان آپ سے خوش نہیں ہے کہ آپ نے اس کی مشکلات میں آسانی کیلئے قابلِ ذکر کچھ بھی نہیں کیا۔

آپ کی مغلئی دور کی سیاست اور روایتی چہروں والی ٹیم ملک کی تعلیم یافتہ اور تبدیلی کی خواہشمند بیشتر شہری طبقے کو کبھی نہیں بھائی۔

جس مڈل کلاس شہری طبقے میں میرا اٹھنا بیٹھنا رہا ہے اس میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ روایتی مقتدر سیاستدان کرپشن، اقرباُ پروری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پبلک تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، صحت کی سہولیات کے فقدان اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کے حل کیلئے مخلص نہیں ہیں۔

یہ طبقہ جمود سے تنگ ہے اور اسے ایک نئے نجات دہندہ کی تلاش ہے۔ چاہے وہ عمران خان ہو یا کوئی نیا فوجی آمر۔

سول بالادستی کے خلاف ملکی اسٹیبلشمنٹ تو ہمیشہ ہی متحرک رہتی ہے اور جنجھلائے ہوئے زیرِ بحث طبقے کی سیاست دانوں کے لیے پہلے سے خراب پبلک پرسیپشن کو مزید زہریلا کیا جاتا رہا، لیکن افسوس کے آپ اس پکتے ہوئے آتش فشاں کو بھانپ نہیں پائے۔ حتیٰ کہ یہ آتش فشاں پھٹ پڑا اور اس کے بہتے ہوئے لاوے سے بچنے میں آپ اور آپکا خاندان بے دست و پا ہے۔

آپ کے پاس موقع تھا کہ آپ چہرے بدلتے، خاندانی سیاست نہ کرتے، کابینہ میں تبدیلی لا کر خوشامدی ٹولے کو کم کر کے اس میں تنوع پیدا کرتے۔ چیف ایگزیکٹو کے انتظامی اختیارات کو معاملہ فہمی سے استعمال کرتے، ایسے اقدامات کرتے کہ آپ کا تختِ لاہور کا حکمراں ہونے کا تاثُر کم ہوتا۔

 آپ کو ماضی سے نکل کر حال میں آنا چاہیے تھا۔ آپکو اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا چاہیے تھا۔ آپ کے پاس سیاسی مخالفین سے مفاہمت کے کئی مواقع تھے۔ آپ چاہتے تو ہوا کا رخ بھانپ کر خوشامدیوں اور حواریوں کے دربار سے بر وقت باہر نکلتے اور بڑھتی ہوئی مخاصمت کو آگے بڑھ کر خود ختم کر دیتے۔

افسوس کہ آپ ایسا کچھ بھی نہیں کر پائے اور آپ کی وزارتِ عظمیٰ اور کچن کابینہ کا تاثر ایک ایسے گروہ کا سا بن گیا جو تمام حکومتی معاملات کا کنٹرول اپنے مخصوص خاندانی حلقے میں رکھ کر ملکی وسائل کو ہڑپ کر جاتا ہے۔

آپکے شروع کیے گئے میگا پراجیکٹس آپ کے مخصوص ووٹ بینک کو تو متاثر کر پاتے اور شاید آپ دوبارہ سے منتخب وزیراعظم بھی بن جاتے لیکن آپ نے اس طبقے کے اطمینان کے لیے وہ سب نہ کیا جو کہ حکومتی اختیارات میں توازن اور موروثی سیاست کے خاتمے کا خواہش مند تھا۔ جو کہ شفافیت چاہتا تھا۔ ایک غیر روایتی اور ڈائنیمک وزیرِاعظم کی حکومت دیکھنا چاہتا تھا۔

آپ کو لگا کہ آپ کی وزارتِ عظمیٰ کا پاور بیس محض وسطی پنجاب کا سادہ لوح ووٹر ہے یا طاقتور حلقوں سے جڑے آپ کے دوست ہیں جب کہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔

آپ معاشی منصوبوں کے بین الاقوامی امور طے کرنے اور سفارت کاری کے لیے ایک قابل ٹیم رکھنے کے بعد اپنا زیادہ تر وقت سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداورں سے براہِ راست رابطوں میں گزارتے اور اداروں کے ساتھ تصادم سے پرہیز کرتے تو حالات کی نبض پر نظر رکھتے ہوئے خود سے بروقت فیصلے کرتے اور آج آپ اتنے کمزور نہ ہوئے ہوتے۔

سیاست کے ڈائنیمکس بدل چکے ہیں۔

جانے آپ خود کو کب بدلیں گے۔

بدل بھی پائیں گے یا نہیں۔

مخلص

پٹواری، حلقہ قانگو، ضلع گرداور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).