ہت تیری پنچائت کی!


جس وقت سارا ملک آنکھیں پھاڑے، ملک کے وزیرِاعظم کی صداقت، امانت، شرافت، لیاقت کی دھجیاں اڑتے دیکھنے میں محو تھا، اسی دوران اسی ملک کے ایک شہر مظفر گڑھ میں پنچائت کے حکم پہ ایک لڑکی کا ریپ ہوا۔

ریپ کے وقت مبینہ طور پہ 26 لوگوں کی پرے وہاں موجود تھی۔ پولیس نے ان سب کو گرفتار کیا اور یقیناً ان کو سزا بھی ملے گی۔ مگر کیا ان دونوں لڑکیوں کو انصاف مل گیا؟

یہ خبر اخبار کے کسی کونے کھدرے میں غائب ہو جائے گی کیونکہ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک اقامہ برآمد ہو جانے پر جمہوریت ‘ڈی ریل’ ہو رہی ہیں۔ کون سی جمہوریت؟ جو آج تک پنچایتی اور جرگہ کے نظام کو دیس نکالا نہ دے سکی؟

پنچائت کا نظام، پنجاب میں صدیوں سے رائج تھا۔ ذرائع آمدورفت کی کمی اور مرکز سے دوری کے باعث دور دراز دیہاتوں میں معاشرتی زندگی کو چلانے کی غرض سے پانچ عزت دار اور سچے لوگوں کی ایک کونسل سی بنا دی جاتی تھی، ایک شخص سر پنچ ہوتا تھا۔ چھوٹے موٹے مقدمات، لڑائیاں جھگڑے سہولت سے طے ہو جاتے تھے۔

اس وقت کے حساب سے پنچ بے حد دانا اور زیرک لوگ ہوتے تھے، جو تعلیم، خاندان، مال، ہر شے میں ممتاز ہوتے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ یہ نظام کمزور پڑتا گیا، زمیندارانہ نظام میں گو یہ ساتھ کے ساتھ چلتا رہا مگر اتنا مضبوط نہ رہا۔

انگریز کے دور میں پہلے تو یہ نظام بالکل ہی ڈوب گیا، مگر چونکہ گاندھی جی اس کے بہت حامی تھے اس لیے اس نے پھر سے انجے پنجے نکالے۔

لیکن جس طرح انگریز نے برِصغیر کی گنگا جمنی تہذیب کا بیڑہ غرق کیا اسی طرح، پنچائتی نظام کی بھی ایسی تیسی کر دی۔

پاکستان میں اس وقت قانونی طور پہ پنچائت کا وجود تسلیم نہیں کیا جاتا، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ پنچائت ہر طرف ہے۔

گلیوں محلوں میں، کوئی نہ کوئی بڑا بوڑھا ایسا ہوتا ہے جو ہر وقت لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کرانے کو ڈیوڑھی میں پلنگڑی ڈالے پڑا رہتا ہے۔

دکانداروں میں، کاروباری لوگوں میں، عام گھریلو جھگڑوں میں، ہر جگہ ایک غیر علانیہ پنچ ہوتا ہے اور ایک غیر موجود پنچائت۔

لین دین کا جھگڑا ہو، کسی کے دروازے کے آگے کوڑا پھینکنے کی بات ہو، کسی کا لڑکا بے وجہ چھت پہ کھڑا ہو، محلے کا نل خراب ہو، میاں بیوی میں لڑائی ہو، کرایہ دار مکان نہ چھوڑ رہا ہو، قرض دار قرض نہ دے رہا ہو، بڑا بھائی ابا کے مکان پہ قابض ہو، محلے کی آنٹی کمیٹی کے پیسے لے کر بھاگ جائیں، ہر معاملے میں ایک غیر علانیہ پنچائت اچانک برآمد ہو جاتی ہے، دستیاب لوگوں میں سب سے فسادی، سازشی، کم تعلیم یافتہ، انسانی حقوق سے بے بہرہ شخص ،فوری طور پہ سر پنچ بنا دیا جاتا ہے۔

باقی ماندہ لوگوں میں بھی بد فطرت لوگوں کا ایک ٹولہ اس شخص کی معاونت کو آگے بڑھتا ہے اور کوئی احمقانہ سا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جس کی بنیاد، فریقین میں سے کسی سے حسد اور کینے پر قائم ہوتی ہے۔

بظاہر جھگڑا رفع دفع ہو جاتا ہے، لیکن صلح چونکہ معاہدہ ورسلیز جیسی غیر منصفانہ ہوتی ہے، اس لیے یا تو کوئی فریق پولیس کے پاس پہنچ جاتا ہے یا بالا ہی بالا طاقت استعمال کر کے بدلہ چکا دیا جاتا ہے۔

ہر دو صورتوں میں پنچائت کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا ہے، یعنی معاملے کو کمیونٹی کی سطح پہ حل کرنا۔ جھگڑا مزید بڑھتا ہے ۔کئی دفعہ مجھے یہ پنچائت اس اناڑی دائی کی طرح لگتی ہے جو اپنے احمقانہ ٹوٹکے اس وقت تک آزماتی ہے جب تک معاملہ اس کی سمجھ سے باہر نہیں ہو جاتا۔

یوں سمجھ لیجیے کہ پنچائت ہمارے قانونی نظام میں اپنڈکس کی طرح ایک طرف پڑی ہے ، بے وجہ ۔جب کبھی یہ اس نظام کاحصہ بننے کی کوشش کرتی ہے شدید تکلیف پہنچاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ پنچائتی یا گھریلو فیصلوں پہ بالکل پابندی لگا دی جائے۔ جہاں کہیں اس قسم کے اجتماع یا فیصلے کی خبر ملے، سخت کارروائی کی جائے اور ان فیصلوں پہ عملدرآمد ہونے سے پہلے ہی قانون حرکت میں آجائے۔

لیکن چونکہ ہمارا عدالتی نظام بھی نوآبادیاتی آقاؤں کا بخشا ہوا ہی ہے اس لیے اس میں بھی اس قدر سقم موجود ہیں کہ لوگ آخر تنگ آ کر عدالت سے باہر ہی لولا لنگڑا انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آخری صورت یہ بچتی ہے کہ پنچائتی نظام ہی کو درست کر لیا جائے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو پنچ مقرر کیا جائے، جنھیں قانون اور انسانی حقوق سے آگہی ہو۔ خیر یہ تو بالکل ہی ممکن نہیں، ان شرائط پہ تو عوامی نمائندے تک پورے نہیں اترتے۔

تو پھر کیا ایک کے بعد ایک اس قسم کے معاملات سامنے آتے رہیں گے؟ کیا کبھی سستا اور فوری انصاف لیڈروں کی تقریروں سے نکل کر عوام کے دروازے پر بھی آئے گا یا ہمارے نصیب میں یہ الجھا ہوا عدالتی نظام اور جاہل پنچائت ہی رہے گی؟ اگر ایسا ہے تو عدالت کو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی مگر ‘ہت تیری پنچائت کی۔۔۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).