نواز شریف تو گئے، بتایئے اب کیا کریں؟


ذوالفقار علی بھٹو پارلیمنٹ کی علامت تھے۔ پارلیمنٹ سے باہر کھڑی قوتیں غلط سمت پر کھڑی تھیں۔ بھٹو مل بیٹھنے کی سبیل نکالنے کا کہتے، قومی اتحادکی قیادت انکار کرتی کہ دھاندلی سے قائم ہونے والی ایک غیرآئینی حکومت سے کیسے بات ہوسکتی ہے۔ بھٹو حکومت برطرف کر دی گئی، ضیاالحق کی غیر آئینی حکومت آ گئی۔ نیت کا پتہ یہاں چل جاتا ہے کہ قومی اتحاد کے رہنما بشمول جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنماوں کے، ضیاالحق کی غیر آئینی کابینہ میں بیٹھ گئے۔ بے نظیربھٹو پارلیمنٹ کی علامت تھیں۔ پارلیمنٹ سے باہر برسراحتجاج قوتیں غلط سمت میں کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ قومی اتحاد کی دوسری صورت تھی جسے محترمہ نے تنہا شکست دی تھی۔ فتح کے بعد بھی اکٹھ قائم رہا۔ آف شور کمنیاں تھیں نہ اقامہ تھا۔ فاحشہ، بدعنوان اور سیکورٹی رسک قرار پائیں۔ جی کا جانا ٹھہر گیا تھا، چلا گیا۔ میاں صاحب پارلیمنٹ کی علامت نہیں تھے، بہرحال آئینی طور پر قائد ایوان ضرور تھے۔ انہوں نے اپنا پہلا اقتدار اپنے ماضی کے بچھائے ہوئے جال کے سبب کھویا۔ یہ سچ ہے کہ عوام جب حکمران سے اس کے دکھائے ہوئے خوابوں کی تعبیر کا سوال کرتے ہیں، تو حکمران اختیارات کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسے تقاضوں میں تصادم ہوتا ہے ۔ تصادم کا تصفیہ بااختیار کرتا ہے۔ چنانچہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم کے استعفے کی صورت میں تصفیہ کردیا۔

بے نظیرصاحبہ نے سارے سبق سلاخوں کی دوسری طرف کھڑے ہوکر ازبر کر لیے تھے۔ میاں صاحب کو اقتدار میں آ کر بات سمجھ آئی۔ چنانچہ دیر سے سہی، انہوں نے اپنا کیمپ بدل لیا۔ میاں صاحب پارلیمنٹ کی علامت ہو گئے۔ تاہم نئے منظر نامے میں پارلیمنٹ کے نمائندہ چہروں میں میاں صاحب تنہا نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری، اسفندیار خان، مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی وغیرہ اسی صف میں ہیں۔ یہ ترکیب ابھی پختہ نہیں ہوئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی کارکن کا سیاسی شعور ابھی رستے میں ہے۔ اسی لیے میاں صاحب گیلانی سے استعفی مانگنے چلے آتے ہیں اور پیپلز پارٹی انجامِ کار سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت میں حاضری دینے لگ جاتی ہے۔ بیشتر یہ سب ناپختہ کار ووٹر کے اطمینان کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ ابھی اس کے مزاج کو مزاحمت ہی بھاتی ہے۔ اس وقت میاں صاحب پارلیمنٹ کی علامت ہیں۔ قومی اتحاد کی تیسری صورت پارلیمنٹ کے باہرغلط سمت میں کھڑی ہے۔ قومی اتحاد کی جو بھی صورت ہو، اس کی علامت یہ ہوگی کہ جماعت اسلامی اس کا حصہ ہوگی۔ جماعت اسلامی کو پارلیمنٹ کی نمائندہ قوتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق خدا نے کبھی نہیں دی۔ جیسے عاصمہ جہانگیر کو سیاسی جنگ میں کبھی غلط سمت میں کھڑے ہونے کی توفیق نہیں ملی۔ یہ خدا کی تقسیم ہے، خدا کا بندہ کچھ نہیں کر سکتا۔

بھٹو کے خلاف تحریک کس نے اٹھا رکھی تھی، یہ تاریخی دستاویز کے سرورق پہ جلی حروف میں لکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر دستخظ کرنے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بادل چھٹتے ہی اعتراف کیا کہ یہ عدالتی قتل تھا۔ مرحوم کے اعتراف کی چنداں ضرورت نہیں تھی، مگر تاریخ کے خون آلود پنے پر اعتراف رجسٹر ہو گیا، یہ اچھی بات ہے۔ بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف تحریکیں کس کی ایما پر چل رہی تھیں، یہ اصغرخان کیس نے بتا دیا ہے، مزاجِ یار میں آئے تو پڑھ لیجیے۔ موجودہ پانامہ کا قصہ کیا تھا، رواں برس پورا ہونے سے پہلے مورخ بتا دے گا۔ ایک برس بھی بہت زیادہ ہے۔ نواز شریف کا طیارہ ہائی جیکنگ کیس کیا تھا، یہ جسٹس رحمت حسین جعفری دوستوں کو بتاتے رہتے ہیں۔ جسٹس صاحب ان ججز میں سے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تھا۔ طیارہ ہائی جیکنگ کی کی سماعت آپ ہی کر رہے تھے۔ اس کیس میں ان پر سخت سے سخت سزا کے لیے دباؤ تھا۔ فرار کا کوئی رستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ خود کشی کر لی جائے۔ کیا کیجیے؟ سزائے موت سنا دی جائے؟ نہیں، ان کا کوئی بھروسہ نہیں یہ لٹکا بھی دیں گے۔ کیا کریں؟ چلیے، کوئی ایسی سزا سناتے ہیں جس پر سوالات کھڑے ہو سکیں۔ سوالات کو جنم دینے والا فیصلہ تخلیق کرنے کی دن رات کوشش کی، مگرحالات نے اتنی ہی گنجائش دی کہ عمر قید کی سزا سنا دی، جو عموما چودہ برس ہوتی ہے۔

پانامہ کیس میں وزیراعظم کی نااہلی کے لیے جس چیز کو بنیاد بنایا گیا، وہ ایک تو غیر متعلقہ ہے اور دوسرا غیر منطقی ہے۔ فیصلے سے زیادہ اس میں پیغام نظر آتا ہے۔ اس فیصلے نے سوالات کھڑے کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ آپ میری رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں، مگر میری رائے یہی ہے کہ یہ سزا سناتے وقت جج صاحبان اسی قیامت سے گزرے ہیں جس قیامت سے جسٹس رحمت حسین جعفری گزرے تھے۔ انہوں نے لاٹھی توڑدی ہے، سانپ کو زخمی کر دیا ہے۔ حکم کی تعمیل بھی ہوگئی سر سے بوجھ بھی اترگیا۔ ایک سیاسی کیس میں اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے؟

آج تاریخ تک مجھ جیسے طالب علموں کا مدعا ایک ہی رہا۔ ہم سیاسی کیسز عدالتوں میں چلانے کے ابھی قابل نہیں ہوئے۔ عدالت کا فیصلہ ثبوت و شواہد پر مبنی ہوتا ہے۔ سیاسی کیسز میں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فی الحال فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلے صرف ٹاک شوز کے تجزیوں اور غالب قوتوں کی مداخلت سے ہی ممکن ہیں۔ اس حقیقت کے تسلیم کرنے کو ہم دیانت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ جبکہ اس سچائی کو تسلیم کیے بغیر ہم ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ آج نواز شریف نااہل ہوئے کل عمران خان کو اناہل کروانے کی کوششیں ہوں، پرسوں زرداری صاحب قطار میں کھڑے ہوں، اس سے ہم کیا حاصل کر پائیں گے۔ یہی کہ انجام کار ہم بیٹھ کر خود اتفاق رائے سے فیصلہ کریں گے کہ بس اب بہت ہوگئی۔ جو فیصلہ دس برس بعد کرنا ہے، وہ ہم آج کیوں نہیں کرلیتے۔ سمجھوتہ!

ہمیں کشادہ دلی اور کشادہ فہمی کے ساتھ ایک سمجھوتے کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ا ب یہاں سوال اٹھے گا کہ کیا چوریاں معاف کر دی جائیں، آپ چوری کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟ دیکھیے، معاملہ نظم اجتماعی کا ہے ۔ نظم اجتماعی کی خاطر ہمیں کسی ایسے سیاسی سمجھوتے کی طرف جانا ہو گا، جو بات کو آگے بڑھا سکے۔ یہ سمجھوتہ کیا ہوسکتا ہے۔ آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں، میری رائے میں ہمیں اُس دن سے پہلے کے تمام سیاسی کیسز بند کردینے چاہیئں، جس دن پرویز مشرف ایوان صدر سے رخصت ہوئے تھے۔ جنرل مشرف کے کیسز بھی اس سمجھوتے میں شامل کر کے، سیاسی سرگرمیوں کے لیے انہیں آزاد چھوڑدینا چاہیئے۔ طے کرلینا چاہیئے کہ اب ہرحکومت سے اس کے دورِ حکومت کا حساب مانگا جائے گا۔ زرداری صاحب اپنے دور حکومت میں تاریخ قبل از مسیح کے کیس کا سامنا کرتے رہے، یہاں تک کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو رخصت کردیا گیا۔ میاں صاحب سے ان کے دور حکومت کے کسی منصوبے یا پالیسی کے متعلق کوئی سوال نہیں ہوا۔ اپوزیشن نے چار برس تک پرانی قبریں کھودی ہیں، یہاں تک کہ ایک منتخب وزیراعظم کو رخصت کردیا گیا۔

ہر رخصتی پر ہم کہتے ہیں آج ایک تاریخی دن ہے۔ کیونکہ ہم انا کی جنگیں لڑرہے ہیں۔ گیلانی کے جانے سے انا کو تسکین ملی، سوئس اکاونٹس کا پیسہ نہیں ملا۔ میاں صاحب کے جانے سے بھی انا کو ہی تسکین ملی، پیسہ نہیں ملا۔ ہر وہ دن جس نے انا کو تسکین دی، ہم نے اسے تاریخ کا سنہرا دن کہہ دیا۔ جو تاریخی دن اب تک گزر گئے ہیں اس کا حاصل کیا رہا، جو تاریخی دن آگے ہمارے منتظر ہیں وہ ہمیں کیا دے دیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کو عوامی احتساب کا عادی بنایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ حلف کے دوسرے دن کسی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دینا کوئی سیاسی فریضہ نہیں ہے۔ یہ فقط عادت ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی کا احتساب وہ تھا جو عوام نے دوہزار تیرہ کے انتخابات میں کیا تھا۔ مسلم لیگ کا احتساب وہ ہوگا جو عوام دو ہزار اٹھارہ میں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).