ناچ کے ہار مناؤ تو ہم آگے بڑھتے ہیں


گرمیوں کی چھٹیاں ہوا کرتیں تو ہم بچوں کو پشاور سے پنڈ پارسل کر دیا جاتا۔ یہ سفر خجل ہوتے طے ہوا کرتا تھا۔ جی ٹی ایس کی بس اکثر ہی راستے میں جواب دے جایا کرتی تھی۔ ڈرائیور فیصل آباد کو فاصلہ باد کہتے تو پتہ لگتا تھا کہ کتنا جل چکے ہیں کھٹارہ بسوں سے۔ ٹرین کبھی وقت پر نہیں پہنچتی تھی بس کے سفر سے دگنا وقت لگتا تھا۔

تھک ٹوٹ کر پنڈ پہنچتے تو دادی گلے لگا لیا کرتی تھیں۔ لسی پانی کے بعد سونے کی بجائے اکثر فوری طور پر کچھ نہ کچھ پکڑا دیا جاتا کے یہ لے کر فوری مربعے پہنچا آؤں۔ تپتی دوپہر میں ڈیرے تک جانا اک امتحان لگتا تھا۔ وہاں پہنچتے تو پیپل کے درخت کی چھاؤں میں سونے کی چاہ ہوتی تھی۔

دادا اور بھائیوں نے زمین تقسیم نہیں کی تھی ڈیرہ مشترکہ تھا۔ وہاں پہنچتے تو سب سے ملنا ہوتا تھا۔ بیٹھنے سے بھی پہلے دادا کے بھائی کا حکم ہوتا کہ منڈا پشوروں آیا اب اس کا امتحان ہو گا۔ کزنوں کے ساتھ کشتی لڑنی پڑتی، چار پانچ کشتیاں لڑ تو لیتا ہار جیت کا بھی پتہ نہ لگتا لیکن چھلائی اچھی طرح ہو جاتی۔ ایک مربعے کا باغ بھی تھا جس میں میٹھے کے مہربان درخت بھی تھے جن کے نیچے بیٹھ کر گرمی نہیں لگتی تھی۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی کہ ہمیں آم کے درخت کے نیچے بٹھایا جاتا جہاں گرمی دگنی ہو کر لگتی تھی۔

گرمی کے دن ہی نہیں راتیں بھی شدید ہوتی تھیں۔ ہوا بند ہوتی تھی قمیض اتار کر بستر پر کروٹیں بدلا کرتے۔ پشتو متل ہے کہ جس بلا سے بھاگ نہیں سکتے اس سے دوستی کر لو۔ خود تو نہیں کی شاید گرمی نے ہی ہم سے دوستی کر لی۔ پتہ نہیں کس کو کون بلا لگا۔

پشاور میں کچھ سال پہلے ایسے دن بھی گزرے جب بیس بیس گھنٹے بجلی نہیں ہوتی تھی۔ کچھ تو بجلی کا بحران تھا کچھ شدت پسند ٹرانسمیشن لائین ہی اڑا دیا کرتے تھے۔ ان مشکل راتوں میں جب گھر والے بھی اور ہمسائے بھی جاگتے رہتے۔ ہم مزے سے سویا کرتے۔

سکول میں ہم شیطانوں کی ایک کلاس تھے۔ شرارت کوئی ایک کرتا تھا مار ساری کلاس کو پڑتی تھی۔ ہمارے سکول میں وہ بچے بھی ہر کلاس میں ہوتے تھے جو ذہنی طور پر نارمل نہیں تھے بڑے ہو کر بھی ذہنی طور پر چھوٹے بچوں جیسے ہی تھے۔ میڈم لودھی نے سکول اپنے ذہنی معذور بیٹے کے لیے بنایا تھا۔ یہ سوچ کر کہ نارمل بچوں میں رہے گا تو زیادہ سیکھے گا۔ ہماری شرارتوں پر جب ہماری پٹائی ہوتی تو یہ بچے بھی ساتھ ہی کٹ کھایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ان کو سر نہیں مارتے تھے لیکن یہ جا کر ہاتھ آگے کیا کرتے تھے کہ انہیں بھی برابر پھینٹا جائے۔ کسی کے کچھ بتائے بغیر ہم سب ہی یہ سیکھ گئے کہ ہم جو کچھ بھی کریں گے اس کی وجہ سے وہ بھی بھگتیں گے جو یہ سمجھ ہی نہیں رکھتے کہ ان کو رگڑا کیوں لگا مار کیوں پڑی۔

ہماری کلاس میں ہمارا گینگ لیڈر نواز شنواری اب بیمار رہتا ہے۔ وہ سکول پڑھنے نہیں آتا تھا اسے بڑے ہو کر بس یہ قسم کھانی تھی کہ ما تہ قسم وئی ما سکول ویلے دے۔ مجھے قسم ہے کہ میں نے سکول پڑھا ہوا ہے۔ ہمارا ہم جماعت جو اس وقت ہمارے صوبے کا سب سے اچھا سرجن ہے، نواز کا احسان مند ہے۔ سرجن کی ہر شرارت پر نواز ایسا منہ بناتا تھا کہ میڈم اسے ہی سر میسی کے پاس مار کھانے کو بھیج دیتی تھیں۔ سرجن صاحب کو پھر ہم سب مل کر سیدھا کرتے تھے۔ ہم شاید تبھی سیکھ گئے تھے کہ زندگی مل جل کر آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ایک دوسرے کی کمزوری صلاحیتوں کا اعتراف کر کے انہیں موقع دینے مدد کرنے اور بچانے کا نام ہے۔

ہم لوگوں نے ایک کرکٹ ٹیم بنائی تھی۔ یہ ٹیم ہر طرح سے پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم جیسی تھی۔ ہم اکثر ہارتے رہتے تھے۔ اچانک کوئی ٹورنامنٹ جیت جایا کرتے تھے۔ ہم سے ہار کے تو اگلوں کے دل جل ہی جاتے تھے ہمیں ہرا کر بھی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ وجہ بس یہ تھی کہ ہم مقابلہ کرتے تھے آخری بال تک۔ ہماری اس ٹیم کو یہ جذبہ ہمارے مشر کی ایک حرکت نے بخشا تھا۔ پہلی بار جب ہم شہر کے دوسرے کونے میں ایک ٹورنامنٹ کا ابتدائی میچ ہی ہارے تو سب کے منہ لٹک گئے تھے۔ مشر نے کہا چلو اب نکلو گاڑیوں کے پاس آئے تو اس نے کہا کوئی بھی گاڑی میں نہیں بیٹھے گا۔ ڈیک لگا کر تیز میوزک لگایا اور سب کو بھنگڑے کی دعوت دی۔ بڑا برا لگا لیکن پہلے ایک کودا پھر دوسرا پھر سارے پھر جیتنے والے بھی آن ملے۔ اس کے بعد ہم جیتنے پر تو ناچنا بھول جاتے تھے اکثر لیکن ہار پر کبھی نہیں بھولا کرتے تھے۔ پھر ہم ہارتے بھی تو نہیں تھے اتنا۔ ناکامی بھی ہار بھی نئے چیلنج لے کر آتی ہے اس کی وجہ سے سر ڈال کر بیٹھ جانا بہت پیچھے لے جاتا ہے۔ یہ بھی زندگی کا ایک سبق ہی تھا شاید کہ ہار کو بھی انجوائے کرنا سیکھا اس پر بھی دل کو نچایا۔ پھر ہم بھی دل بھی اسے بھول کر آگے بڑھتے رہے۔ شاید ناچ کے ہار مناؤ تو ہم آگے بڑھتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi