سر سید، حالی اور حسرت موہانی نااہل قرار پائے (2)


اس کے بعد ایک اور صاحب سامنے آئے۔ بہت سادہ میلا کچیلا لباس، شیروانی کےبٹن ٹوٹے ہوئے، سر پر میلی چکٹ ٹوپی، چہرے پر شرعی داڑھی۔ نام پوچھا تو حسرت موہانی بتایا۔ اٹارنی جنرل کہا کہ ان کا تعارف وہ خود کروائیں گے۔ ان کی ملی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، جیل میں چکی بھی پیستے رہے، لیکن حق گوئی کا شعار کبھی ترک نہ کیا۔ ہمیشہ فقیرانہ گزر بسر کی۔ یہ وہ شخص ہے جس نے انگریزوں سے مکمل آزادی کا سب سے پہلے نعرہ لگایا جس کو سن کر مہاتما گاندھی بھی پریشان ہو گئے تھے۔ تحریک پاکستان کے قائدین میں ان کا شمار ہوتا ہے، مسلم لیگ کے لیے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔

مسلم لیگ کا نام سن کر ایک رکن کمیشن چونکے اور سخت لہجے میں اٹارنی جنرل کو کہا آپ یہاں ریاست کی نمائندگی کر رہے نہ کہ ایک جماعت کی۔ جس جماعت کو ابھی کچھہ ہی عرصہ پہلے نااہل قرار دیا گیا ہے، آپ اس کے نمائندے کی تعریف کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا می لارڈ میں مسلم لیگ نواز کا نہیں بلکہ قائد اعظم کی مسلم لیگ کا ذکر کر رہا ہوں۔ اور فیصلے میں جماعت نہیں بلکہ اس کے لیڈر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ اس پر رکن کمشن اور خفا ہو کر کہنے لگے سبھی مسلم لیگیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ جناح صاحب کی لیگ کے متعلق بھی علمائے حق نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے جن خدشات کا ذکر کیا تھا بعد میں سب درست ثابت ہوئے۔ علمائے حق جو کہتے ہیں درست کہتے ہیں۔ جس جماعت کا لیڈر صادق اور امین نہ ہو، باقی جماعت کیسے معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔ کیا آپ نے قانون کا وہ مشہور اصول نہیں سنا کہ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہوتی ہے۔

 اس سرزنش کے بعد اٹارنی جنرل خاموش ہو گئے۔ اب کمیشن نے اعتراضات پیش کرنے کی دعوت دی۔ ایک شرعی حلیے والے وکیل صاحب، جو وکالت سے پہلے اردو ادب کے استاد رہے تھے، کھڑے ہوئے اور کمیشن کے معزز ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص جو معصوم صورت بنائے سامنے کھڑا ہے اس پر وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ شکل مومناں کرتوت کافراں۔ اس پر کچھ شور بلند ہوا تو کمشین کے چئیرمین نے آرڈر آرڈر کہہ کر میز پر زور سےہتھوڑا مارنا شروع کیا۔ جب خاموشی چھا گئی تو کمیشن نے معترض سے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ اس پر وکیل صاحب نے کہا کہ سرکاری وکیل حقائق چھپانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بتایا ہی نہیں کہ یہ صاحب فساد عقائد کا شکار تھے اور خود کو اشتراکی مسلم قرار دیتے تھے۔ اب آپ خود سوچیے جو اشتراکیت جیسے ملحدانہ نظریات کی حمایت کرتا ہو، وہ ایک اچھا مسلمان کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ سرکاری وکیل نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ صاحب شاعری بھی فرماتےتھے اور اپنی شاعری کو فخریہ طور پرخود ہی فاسقانہ قرار دیتے تھے۔

بطور ثبوت ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

حائل رہی جو ہم میں رضائی تمام رات

اس ڈر سے ہم کو نیند نہ آئی تمام رات

شعر سن کر کمیشن کے ارکان نے بلند آواز سے لاحول پڑھی۔ وکیل صاحب نے کہا مسلمان بہو بیٹیاں اگر اس قسم کے اشعار پڑھیں گی تو کیا ان کے اخلاق درست رہنے کی کسی طرح گارنٹی دی جا سکتی ہے۔ اب اس شخص سے پوچھا جائے کہ اگر آپ لاعلمی کی وجہ سے کسی غیر عورت کی رضائی میں گھس ہی گئے تھے تو رات بھر وہاں ٹکے رہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا واضح مطلب کہ اس کی نیت میں فتور تھا۔

می لارڈ اس کی ایک رسوائے زمانہ غزل تو آپ کے علم میں بھی ہو گی جس کا مطلع ہے:

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

می لارڈ یہ غزل مسلسل ہے اور غزل کیا ہے کھلم کھلا بےحیائی اور فسق و فجور کا اشتہار ہے۔ اس کو ایک گویے غلام علی نے گا کر بہت شہرت د ے دی ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ پرائی بچیوں کو دوپہر کے وقت چھت پر ننگے پاؤں بلاتا ہے اور یہ بھی نہیں سوچتا کہ گرمیوں کی دوپہر میں ان کے نازک نازک پاؤں جل جائیں گے۔ پوری غزل میں حد درجہ رکیک اور فاسقانہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ حیا مانع آتی ہے اس لیے میں پوری غزل نہیں سنا سکتا۔ اس لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ وہ غزل خود ہی سن لیں۔

احتساب کمیشن کے متقی ارکان چونکہ موسیقی سے پرہیز کرتے تھے اس لیے غلام علی کی گائی ہوئی غزل سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے حکم دیا کہ یہ غزل کمیشن میں سنائی جائے۔ اگرچہ موسیقی سننا ان کے نزدیک حرام ہے، لیکن جرم کی تفتیش کے لیے اس کار ممنوع کو گوارا کر لیا جائے گا۔ جب غزل کی سی ڈی ٹی وی سکرین پر پلے کی گئی تو کمشن کے ارکان کے چہرے فق ہو گئے اور پیشانیاں، جن پر نشان ہائے عبادت نمایاں تھے، عرق ندامت سے تر ہو گئیں۔ غزل ختم ہوئی تو سب نے بلند آواز میں ایک بار پھر لاحول کا ورد کیا۔

اس کے بعد وکیل نے کہا کہ یہ شخص اپنے اثاثوں کا چھپانےکے سنگین جرم کا بھی مرتکب بھی ہوا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے تحریر کردہ خاکے سے یہ ثبوت پیش کیا۔ ایک دفعہ جب حسرت علی گڑھ میں ایک مقالے کا زبانی امتحان لینے گئے تو انھوں نے ٹی اے ڈی اے وصول کرنے سے انکار کر دیا جو یہ وصول کرنے کا قانونی حق رکھتے تھے۔ اپنے اثاثہ جات میں انھوں نے اس غیر موصول شدہ رقم کا اندراج نہیں کیا، جب کہ اس پر واضح عدالتی نظائر موجود ہیں کہ غیر موصول شدہ رقم کا شمار اثاثوں میں ہوتا ہے۔

ان واضح اور مسکت دلائل کے بعد کمیشن نے فیصلہ سنایا کہ یہ شخص دفعہ باسٹھ تریسٹھ پر پورا نہ اترنے کی بنا پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ مزید براں اپنی فاسقانہ شاعری کی بنا پر قذف کی شرعی سزا، جو اسی کوڑے ہوتی ہے، کا بھی مستحق ہے۔ لیکن صد افسوس، کمیشن کو اس سزا کے نفاذ کا اختیار نہیں دیا گیا، اس لیے اس کا معاملہ منصف اعلی کو بھجوایا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر لارجر بنچ تشکیل دے کر فیصلہ صارد فرمائیں۔

مزید براں کمیشن یہ سفارش بھی کرتا ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے یہ بھی لازم قرار دیا جائے کہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ بھی باسٹھ تریسٹھ کی اسلامی دفعات پر پورا اترتے ہوں۔ عدالت کل تک برخواست کی جاتی ہے۔

حسرت موہانی عدالت سے باہر آتے ہوئے بآواز بلند غالب کا یہ شعر پڑھ رہے تھے:

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق

ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).