پاکستان کے ممتاز کمیونسٹ رہنما جمال الدین نقوی چل بسے


پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے مرکزی رہنما اور معلم پروفیسر جمال الدین نقوی انتقال کر گئے ہیں، ان کی عمر 85 سال تھی۔

جمال الدین نقوی گذشتہ کئی برس سے علیل تھے۔

پروفیسر جمال نقوی نے نہ صرف خود بائیں بازوں کی سیاست کی بلکہ نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد کو اس طرح راغب کیا۔ ان کا شمار کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔

جمال الدین نقوی کی پیدائش 1932 میں انڈیا کے شہر الہ آباد میں ہوئی، ان کے والد سید نہال الدین الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر تھے۔ پروفیسر جمال نقوی دوسری جنگ عظیم کے بعد بائیں بازو کی سیاست میں شامل ہوئے، اس کی وجہ ان کے کزن شفیق نقوی بنے جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اتر پردیش کے عہدیدار تھے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی اور سنہ 1948 میں کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ پروفیسر جمال نقوی سنہ 1949 میں پاکستان آگئے، یہاں انھوں نے کراچی میں اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی جو کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم تھی۔

سابق سیاسی کارکن اور پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ان دنوں تعلیمی ادارے کئی مسائل کا شکار تھے، یونیورسٹی فعال نہیں تھی، کالج کم اور فیس زیادہ تھی جبکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی، جن کے حل کے لیے ڈی ایس یف نے آٹھ جنوری 1953 کو پاکستان میں پہلی طلبہ تحریک چلائی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ان دنوں خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے، انھوں نے اس تحریک کو طاقت سے کچلا نتیجے میں آٹھ طالب علموں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ پروفیسر جمال نقوی سمیت کئی طلبہ رہنما گرفتار کر لیے گئے، بالاخر خواجہ ناظم الدین نے طالب علموں کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں فیسیں ختم کردی گئیں، نئے تعلیمی ادارے بھی بنے اور ٹرانپسورٹ میں طالب علموں کےلیے رعایت کی گئی۔ اس وقت طالب علموں کی قیادت میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر سرور کے ساتھ پروفیسر جمال نقوی بھی شامل تھے۔‘

1960 کی دہائی میں جب کمیونسٹ پارٹی پر کریک ڈاؤن ہوا تو پروفیسر جمال نقوی انڈر گراونڈ چلے گئے۔ پروفیسر توصیف احمد کے بعد پروفیسر جمال نقوی کمیونسٹ پارٹی آف مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رابطہ کار تھے۔ یحییٰ خان کے دور میں بنگلادیش میں قتل عام ہوا اور کمیونسٹ پارٹی نے احتجاج کیا، انھیں ایک بار پھر انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا اور انھیں نامور بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے اپنے گاؤں میں پناہ دی۔

پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی جب سنہ 1966 میں چین اور ماسکو کی حمایت میں نظریاتی طور پر تقسیم ہوگئی تو پروفیسر جمال نے نازش امروہی کے ساتھ مل کر ماسکو کی حمایت جاری رکھی۔

صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ جب سنہ 1973 کا آئین بن رہا تھا اس وقت پروفیسر جمال نقوی اور کمیونسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ تھی۔ جب نیپ نے آئین سازی کے دوران بائیکاٹ کیا تو اس میں پروفیسر جمال نقوی کا بڑا اہم کردار تھا، بعد میں میر غوث بخش بزنجو نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں کہا تھا کہ اگر نیپ بائیکاٹ نہیں کرتی تو 1973 کے آئین کی شکل بلکل مختلف ہوتی۔

جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں سنہ 1980 میں پروفیسر جمال نقوی کو گرفتار کیا گیا اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قائم مقام سیکریٹری جنرل تھے، ان دنوں گرفتار ہونے والوں جام ساقی، سہیل سانگی، امر لال، کمال وارثی، بدر ابڑو ، شبیر شر اور نذیر عباسی شامل تھے۔ جن میں سے نذیر عباسی دوران تشدد ہلاک ہوگئے۔

فوجی عدالت میں زیر سماعت مقدمہ جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہے، تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق پاکستان کی تاریح کا یہ واحد مقدمہ ہے جس میں اس وقت کے چوٹی کے سیاست دانوں نے کمیونسٹ رہنماوں کا دفاع کیا تھا ،ان میں بینظیر بھٹو بھی شامل تھیں جو نظربندی کے بعد پہلی بار اس مقدمے میں منظر عام پر آئی تھیں۔

جب 1981 میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا گیا تو ہائی جیکرز نے بہت سے سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ان میں جمال نقوی سمیت یہ ساتوں کمیونسٹ رہنما شامل تھے لیکن انھوں نے یہ کہہ کر یہاں سے جانے سے انکار کردیا کہ وہ ملک کے اندر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور تشدد کی سیاست کے خلاف ہیں۔

پروفیسر جمال نقوی نے رہائی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی، چند سال قبل انھوں نے ’لیونگ دی لیف بیہائینڈ‘ کے نام سے کتاب تحریر کی جس سے انھوں نے اپنے سیاسی نظریے کو مسترد کیا۔

تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کسی سیاست دان نے عوامی سطح پر یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے جو سیاست کی وہ غلط سیاست تھی۔ ان کے اس اعتراف پر بڑی تنقید بھی ہوئی، لیکن انھوں نے جو جدوجہد کی اس کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp