اسلام آباد کی بند گلی میں اقتدار کا خطرناک کھیل


صلح صفائی یا دل صاف ہونے کی بظاہر کوئی صورت نہیں۔ دیکھنا ہے کہ معاملات تھوڑی اونچ نیچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں یا پھر بڑی بڑی رکاوٹیں حائل کر کے سسٹم گرایا جائے گا۔ وزارت عظمیٰ کے لئے شاہد خاقان عباسی کا انتخاب تو بہت آسان ثابت ہوا۔ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ اسمبلی کی باقی ماندہ مدت تک وہ اسی منصب پر براجمان رہیں گے۔ لیکن کیا سکرپٹ محض اتنا ہی تھا کہ نواز شریف کو خاندان سمیت فارغ کر کے مسلم لیگ (ن) کو حکومت کی مدت پوری کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دیدی جائے۔ یقینا ایسا نہیں ہے اور سٹیک ہولڈروں سمیت کئی حلقے آنے والے دنوں کے بارے میں ادراک رکھتے ہیں۔

اصل ٹارگٹ مسلم لیگ (ن) بطور جماعت کے ہے تاکہ پنجاب میں کسی اسٹیبلشمنٹ نواز گروہ کے لئے جگہ بنائی جا سکے۔ نواز شریف کے بعد شہباز شریف کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ غیر واضح اکثریت والی اسمبلی میں کمزور سا وزیراعظم درکار ہے۔ ملک بھر میں کسی مضبوط سیاسی جماعت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس تمام کھینچا تانی میں کئی دلچسپ موڑ آ رہے ہیں اور کھیل کبھی ایک کبھی دوسرے فریق کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ پلان بی میں بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کہیں کہیں یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ اس تمام لڑائی میں مختلف لابیاں بھی مرحلہ وار کودنا شروع ہو گئی ہیں۔ صف بندیاں ہو رہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے چند فیصلے سامنے آ رہے ہیں جن میں سب سے اہم نواز شریف کی جلوس کے ساتھ بذریعہ موٹروے لاہور واپسی کا اعلان ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس شو میں عوام کی قابل ذکر تعداد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پارٹی کی مضبوطی اور آئندہ سیاسی منظر نامے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ واضح طور پر ایسا صرف طاقت کے اظہار کے لئے ہی نہیں ہو رہا بلکہ فریق ثانی کو پیغام بھی دیا جا رہا ہے۔ بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر نااہل قرار پانے والے وزیراعظم جی ٹی روڈ کے راستے لاہور واپس آتے تو سٹریٹ پاور دکھانے کے لئے کہیں بہتر مواقع ملتے۔ ادھر لیگی ذرائع بتاتے ہیں کہ انہیں خدشات ہیں کہ جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ رک کر استقبالی ہجوم سے خطاب کیا گیا تو کسی موقع پر دھماکہ ہو سکتا ہے۔

واقفان حال کے لئے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حوالدار اینکروں کی ایک مخصوص کھیپ کا اپنے پروگراموں میں یہی مطالبہ تھا کہ نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے واپس آنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا پھر حکومتی جماعت کی مرکزی قیادت نے واقعی کوئی بڑا خطرہ بھانپ لیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دھماکوں اور دھمکیوں سے ڈرنے کا وقت اب نہیں رہا۔۔ حکمت عملی کے حوالے سے اسی نوع کی صورتحال شاہد خاقان عباسی کو باقی مدت کے لئے وزیراعظم بنائے رکھنے کے فیصلے کے بارے میں بھی ہے۔

اطلاعات ہیں کہ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے قبل ہی نواز شریف کو پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ آپ استعفیٰ دے کر گھر جائیں اور اپنے خاندان سے باہر کسی کو بھی وزیراعظم بنا دیں۔ حکومت کو مدت پوری کرنے کی اجازت ہو گی۔ نواز شریف نے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے نااہلی قبول کر لی۔ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے فیصلے پر نظرثانی بھی ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی فرمائش پر نہیں بلکہ اپنی سیاسی اور اگلی ممکنہ انتخابی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی ہو کیونکہ یہ بات طے ہے کہ فریقین میں اعتماد کا رشتہ ختم ہو چکا۔

نااہلی سے پہلے بھی نواز شریف کا یہی اندازہ تھا کہ استعفے کی طلبی ان کی سیاست ختم کرنے کی چال ہے۔ اگریہ بات مان لی گئی تو بھی حکومت بچانے یا عدالتی کارروائیوں سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ نواز شریف نے بطور وزیراعظم اسی لئے کھل کر کہہ دیا تھا کہ دھرنا تھری کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اب تک تو نواز شریف کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے تمام حربے بے کار جا رہے ہیں۔ نااہل ہونے کے باوجود تمام پارٹی و حکومت امور انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کے لئے جسٹس اعجاز الاحسن کو نگران جج مقرر کر دیا گیا ہے۔ معزز جج اس بنچ میں شامل تھے جس نے وزیراعظم کو نااہل کرنے کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ اس تمام صورتحال پر غیر جانبدار بلکہ نواز شریف کے مخالف وکلاءرہنما بھی چونک گئے ہیں۔

نواز شریف کے خلاف استعفیٰ مہم میں پیش پیش رہنے والے سپریم کورٹ بار کے صدر جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے نگران جج مقرر کرنے کے فیصلے کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ تو خیر اپنا کام جاری رکھے گی ہی مگر اب شاید غیر روایتی طور پر آئین کی بالادستی کی وکلا کی جانب سے کارروائی کی نگرانی کی جائے گی۔

عمران خان کو فی الحال بچا کر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف کسی عدالت سے کوئی حکم آنے کا امکان نہیں۔ اب عدالتی کارروائی سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے سب سے زیادہ زور تحریک انصاف اور بالخصوص اس کے سربراہ عمران خان کی شخصیت سازی پر لگایا گیا ہے ایسے میں اگر کپتان ہی نااہل ہو گیا تو تحریک انصاف میں دم رہ کتنا رہی جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک ”عفریت“ کی حیثیت رکھنے والی (ن) لیگ کو سیاسی میدان میں (ق) لیگ چیلنج کرے گی کیا؟ سو اب عمران کے حوالے سے فی الحال تمام مقدمات بے سود ہیں۔ خواہ 2+2 والا سیتا وائٹ کیس ہی آ جائے۔ کپتان کے مطلوبہ سیاسی استعمال تک مقدمہ لٹکا ہی رہے گا۔

سیاسی بھونچال میں ایک آواز چیئرمین سینیٹ کی صورت میں گونجی ہے۔ رضا ربانی نے وزیراعظم کی سپریم کورٹ سے نااہلی کو اسمبلی توڑنے کے بدنام زمانہ صدارتی اختیار 58 ٹو بی کی نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک خطرے میں ہے۔ کھینچا تانی کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ کوئٹہ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رضا ربانی نے مزید کہا کہ سویلیئنز کو راولپنڈی سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسی باتیں کئی دیگر سیاستدان بھی کر رہے ہیں مگر کھیل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عدالتی حکم پر وزیراعظم کی نااہلی کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بھی تنقید اور خبروں کی زد میں ہیں۔ الحاق کے حوالے سے راجہ فاروق حیدر نے اپنے ریمارکس کی وضاحت تو کر دی مگر وہ عناصر جو پورا زور لگا کر بات کو اچھالنے اور فاروق حیدر پر غداری کا مقدمہ چلانے کے در پے تھے بیان کے اثرات کا اندازہ ہی نہ لگا پائے۔ ایک دو دن کی مہم جوئی کے بعد انہیں علم ہوا، معاملہ الٹا گلے پڑ گیا۔ کنٹرول لائن کے اس پار اسی بیان کو من مانی تشریح کر کے عالمی برادری کے لئے پیغام بنایا جا رہا ہے۔

حالات کی نزاکت کا احساس ہوتے ہی مہم کو ہنگامی بنیادوں پر ریورس کیا گیا یہ صائب اور بروقت فیصلہ تھا ورنہ کشمیر کاز پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے موقع پر کمرہ عدالت میں جج صاحبان کی فیملیوں کی موجودگی اور فیصلے کا اعلان ہونے کے بعد تالیاں بجانے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ آخر ایسا کسی اور ملک میں ہوتا ہے؟ حقیقت میں یہ واقعہ نا صرف انوکھا بلکہ عدالتی وقار کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے۔

سپریم کورٹ سے وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے کو نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت حکومت کے حلیف بڑے بڑے سیاستدانوں اور کئی حلقوں نے بھی ماننے سے انکار کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس سب کے باوجود فیصلہ لاگو ہو چکا۔ اب نواز شریف وزیراعظم نہیں مگر ان کا تعاقب جاری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ منظر بھی دیکھنے کو ملے کہ اپنی پارٹی کی حکومت، اپنا وزیراعظم، اپنی کابینہ اور سگے بھائی کے وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود نواز شریف بچوں سمیت جیل بھجوا دیئے جائیں۔ اب تک تو ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کو سزا دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ نواز شریف کے پاس کھیلنے کو کوئی کارڈ نہیں بچا۔ ابھی تک کئی پتے ان کے ہاتھ میں ہیں مگر رسک لئے بغیر کھیلے نہیں جا سکتے۔ اگر وہ ذوالفقار بھٹو یا بینظیر بھٹو والے انجام سے خوفزدہ ہیں تو ان کا جوابی ردعمل خاطر خواہ گھڑمس پیدا کر سکتا ہے۔ اس صورت میں کسی بھی فریق کو آسانی کے ساتھ پاﺅں جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ مخالفین کو للکارنے کے لئے اپنی پارٹی اور حلیف جماعتوں کا ساتھ تو درکار ہے ہی۔ مختلف لابیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔

ویسے یہ کام کسی حد تک شروع ہو چکا ہے۔ منصوبہ ساز صدارتی نظام مارشل لا یا اس سے ملتے جلتے کسی مستقل غیر آئینی بندوبست کے متعلق بھی سوچ رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ جمہوری قوتیں اس بات کا عزم کئے ہوئے ہیں کہ کسی کو طاقت کے ذریعے من مانی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس نتیجے پر یہ امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں خود اسٹیبلشمنٹ کو بند گلی میں دھکیل دیں گی۔

ادھر وزیراعظم ان ویٹنگ عمران خان کے خلاف بھی سازشیں جاری ہیں۔ رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی کی پریس کانفرنس سے کپتان پر بدکردار ہونے کے الزام نے تھرتھلی مچا دی ہے۔ سچ یا جھوٹ کا فیصلہ تو تحقیقات سے ہی ہو سکتا ہے۔ عائشہ گلالئی نے کپتان کا بلیک بیری چیک کرنے اور پی ٹی اے سے ریکارڈ نکلوانے کی بات کی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ریکارڈ پہلے ہی سے نکلوایا جا چکا ہو۔ اس صورتحال سے مسلم لیگ (ن) نے تو یقینا فائدہ اٹھانا ہی تھا اور اٹھایا بھی مگر کچھ عجیب واقعات بھی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نواز ایک نامور صحافی اینکر نے کھل کر عائشہ گلا لئی کے بیان کی حمایت کی۔ ٹی وی پروگرام میں مخصوص نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے پیش ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے ایک پروگرام میں اسی طرح کا موقف اختیار کیا۔ پتہ نہیں کہ یہ صاحبان کیوں عائشہ گلا لئی کے الزام پر ٹھوس تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ عمران خان اس ساری صورتحال پر قدرے سراسمیہ نظر آتے ہیں۔ عائشہ گلا لئی نے بعض ذمہ دار صحافتی شخصیات کو عمران خان کے مبینہ ٹیکسٹ میسجز بھی دکھا دیئے ہیں جس سے یہ معاملہ اور بھی گمبھیر ہو گیا۔ آخر میں جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے تازہ بیان پر بات ہو جائے موصوف فرماتے ہیں کہ احتساب کا معاملہ نواز شریف تک رکا تو محض تعصب کہلائے گا۔ ججوں۔ جرنیلوں سمیت سب کا احتساب کیا جائے۔ بات دل کو تو لگتی ہے مگر طاقت کے اصل مراکز میں یہ مطالبہ سنتے ہی قہقہہ گونجا ہو گا ”ہا ہا ہا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).