سویلین بالا دست


پروفیسر ستیہ ایم رائے اپنی کتاب ’’پنجاب کی انقلابی تحریک‘‘ میں اگست 1917ءکو برطانوی ہندوستان اور بالخصوص پنجاب کی تاریخ میں ایک یادگاری حیثیت قرار دیتے ہیں۔ پنجاب سے انگریزوں کے باغیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد نے امریکہ اور کینیڈا میں انگریزوں سے ہندوستان آزاد کرانے کی غرض سے غدر پارٹی کے زیر تحت غیر معمولی نوعیت کا تنظیمی کام سر انجام دینا شروع کر دیا۔ امریکہ پہلی جنگ عظیم میں ذرا دیر سے کودا تھا۔ لیکن جب کودا تو امریکہ نے برطانیہ کے خلاف ’’سازش‘‘ کرنے کے ’’جرم‘‘ میں غدر پارٹی کی امریکہ میں موجود قیادت کو گرفتار کر لیا اور مشہور زمانہ سان فرانسسکو ٹرائل اگست 1917ء میں ہوا جس میں ایک کے سوا تمام غدر پارٹی کی قیادت کو سزا ہو گئی۔ اس عدالتی کارروائی پر امریکہ نے تیس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی کہ جس میں سے 25 لاکھ ڈالر برطانیہ نے فراہم کیے۔ مقدمہ کے آخری روز رام سنگھ نے رام چندر کو جو خود بھی گرفتار شدگان میں شامل تھا گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جبکہ رام سنگھ ایک عدالتی اہلکار کی گولی کا شکار ہو گیا۔ رام چندر 1914ء سے غدر پارٹی میں برطانوی ایجنٹ کے طور پر شامل ہو چکا تھا اور سان فرانسسکو ٹرائل میں بڑھ چڑھ کر گواہیاں دیتا رہا تھا۔ جب ان رہنمائوں کی امریکہ بدری کا معاملہ در پیش ہوا تو ہندوستان میں برطانوی تخت لرزنے لگا۔ غدر پارٹی کے ایک رہنمارگھو بیر سنگھ نے لکھا ہے کہ اس موقع پر برطانوی حکومت نے انڈین نیشنل کانگریس کو پھوٹ ڈالنے کا کام سپرد کیا۔ اس کے دو رہنما مسز سروجنی نائیڈو اور سید حسن کو الگ الگ طور پر امریکہ اور کینیڈا روانہ کیا گیا۔ سید حسن مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ غدر پارٹی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا ایک گروہ ہے جنہوں نے حد درجہ کی مہم جوئی کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو مروا دیا ہے۔ مسز سروجنی نائیڈو گاندھی کے نظریات کا پرچار کرتی تھی کہ عدم تشدد سب سے بڑا سیاسی ہتھیار ہے۔ دونوں کانگریسی رہنمائوں کا مقصد ایک تھا لیکن طریقہ کار مختلف تھا۔ جب یہ سارے مشن سے واپس آئے تو انگریز حکومت کو کامیابی کی رپورٹ دی۔ کامیابی یہ بھی تھی کہ مسلمانوں اور سکھوں میں مذہبی منافرت کے بیج بو آئے تھے۔ 1917ء کے عدالتی ٹرائل سے لے کر 2017ء کے عدالتی ٹرائل تک ایک مماثلت گہری طور پر پائی جاتی ہے کہ نو آبادیات سے آزادی مانگنے والوں سے لیکر عوام کے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے حق کی بات کرنے والوں سویلین بالا دستی کو شعوری اور سماجی ترقی کی بنیاد قرار دینے والوں کو عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ابھی 28جولائی کو سامنا کیا ہے۔ ان حالات تک لانے اور سویلین بالا دستی، عوام کا حق حکومت کا خواب توڑنے کے لئے موجودہ حزب اختلاف نے مسز سروجنی نائیڈو اور سید حسن کا کردار ادا کیا ہے کہ کسی کے اشاروں پر ناچتے رہے ہیں۔ کم و بیش ایک سال قبل کی بات ہے کہ اسلام آباد میں ایک دوست ملک کے سفارتکار کے جن کا ملک وطن عزیز میں سرمایہ کاری میں بھی پیش پیش ہے۔ ملے تو کہنے لگے کہ نوازشریف سے پاکستان میں کردار ادا کرنے والے ممالک خفا ہو چکے ہیں۔ بلکہ وہ نوازشریف کی پالیسیوں کے سبب سے صرف خفا ہی نہیں خائف بھی ہو چکے ہیں۔ اور نوازشریف کو رخصت کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا چکی ہے۔ حکمت عملی وہی ہو گی کہ جس کا انکشاف جاوید ہاشمی نے 2014ء میں کر دیا تھا۔ اس ملاقات کے کچھ عرصے بعد ہی گارجین لائیو نے 2017ء کے وسط تک عدالتی فیصلے کے ذریعے نوازشریف کی رخصتی کے پلان کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ اور اس کی وجہ بھی نوازشریف حکومت کی کسی کو خاطر میں لائے بغیر آزاد خارجہ پالیسی کی جانب اقدامات تھے۔ نوازشریف سے خائف ہونے کا مرحلہ اس وقت شروع ہو گیا جب 2013ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شام میں موجود قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کی برملا مخالفت کر دی تھی۔ اسی تقریر میں عرصے بعد کشمیر کا ذکر کیا۔ (اور گزشتہ اجلاس تک برہان وانی کی شہادت تک کا تذکرہ کرنے سے بھی نہیں چوکے)۔ اس وقت ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ مشرف کی آمریت ، مختلف جھوٹے مقدمات اور جلا وطنی نے نوازشریف کو توڑا نہیں بلکہ مزید مضبوط کر دیا ہے اور وہ اشاروں پر نہیں چلے گا۔ پھر عرب و عجم کے تنازع سے پاکستان کو دور رکھنے اور بلوچستان میں کسی کی بھی بالا دستی قائم نہ ہونے کی حکمت عملی نے نوازشریف حکومت کے خلاف سازشیوں کو انتہائی مشتعل کر دیا تھا۔ حالانکہ ان کی روانگی کا فیصلہ کتنا معتبر ہے اس کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگی حلقوں سے ذرا ہٹ کے رائے معلوم کی جائے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی پیپلز پارٹی کے سکہ بند رہنما ہیں۔ پیپلز پارٹی جب نوازشریف کے خلاف فیصلے پر خوشی سے نہال ہوئی جا رہی تھی تو اس وقت رضا ربانی نے اس فیصلے کو پارلیمنٹ پر ایک اور طرف سے حملہ قرار دیا تھا۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر نوازشریف حکومت کی ناقد رہی ہیں۔ مگر اس فیصلے پر ان کا سخت ردعمل آنا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ صرف مسلم لیگ میں ہی تحفظات نہیں پائے جاتے بلکہ فیصلے اور اس کے نتائج کو سمجھنے والے افراد بھی پر زور احتجاج کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ دونوں صاحبان ملک کے چوٹی کے قانون دان بھی ہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی محاذ پر نوازشریف کی ’’نافرمانیوں‘‘ کے علاوہ داخلی محاذ پر سویلین بالا دستی کی صرف خواہش ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات نے ان کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو ایک صفحے پر اکٹھا کر دیا۔ سویلین بالا دستی کسی فرد یا ادارے کی بالا دستی کا نام نہیں ہے بلکہ آئین کی بالا دستی کا نام ہے۔ آئین کی بالا دستی جسم میں دوڑتے ہوئے لہو کی مانند ہوتی ہے جو ملک میں بسنے والی مختلف قومیتوں اور طبقات کو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ سویلین بالا دستی اور آزاد خارجہ پالیسی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے منتخب پارلیمنٹ کو فی الفور اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ آئین میں موجود ابہامات اور ایسی شقیں جن سے مستقبل میں پارلیمنٹ پر یا بنیادی انسانی حقوق پر حملہ آور ہوا جا سکتا ہے کو باہر کا راستہ دکھا دینا چاہیے۔ جب کہ سویلین بالا دستی قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کے سول اداروں کی بھی آئینی بنیادوں پر از سر نو تشکیل دی جائے جو صرف اور صرف آئین کے تابع فرمان ہوں۔ اگر آئینی اور قانونی سقم موجود رہے تو المیے معمول رہیں گے۔

(بشکریہ جنگ نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).