ضیاالحق: آمریت اور شہادت کی کہانی


جنرل ضیاءالحق بھی پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے دیگر فوجی آمروں کی طرح ہی تھے مگر یہ فیشن بن گیا کہ جب کبھی ملٹری ڈکٹیٹروں پر تنقید کی جائے تو سب سے زیادہ نشانہ جنرل ضیاءالحق ہی کو بنایا جاتا ہے۔ ان کے شدید مخالف پورے ملک کا بیڑہ غرق کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاءکا دور تھا ہی غیر معمولی، اوپر سے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے نے ایسے تباہ کن منفی اثرات چھوڑے جن کا آج تک تدارک نہیں کیا جا سکا۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کئی سینئر جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے جونیئر ضیاءالحق کو آرمی چیف بنایا تھا۔ ذہین فطین بھٹو کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات موجود تھی کہ جنرل ضیاءالحق اس نوازش پر دوران ملازمت مکمل طور پر حکومت کے تابع فرمان رہیں گے۔ پاک فوج کے حوالے سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو خصوصاَ 1971ء کی جنگ کے تناظر میں کئی بڑے اقدامات کر چکے تھے۔ 90 ہزار فوجی قیدیوں کو بھارت سے رہائی دلوانا، افواج کا مورال بلند کرنا، دنیا بھر سے جدید اسلحہ کی خریداری اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کے بعد وہ خود کو خاصی بہتر پوزیشن میں کھڑا محسوس کر رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی اداروں کی نیشنلائزیشن، فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے قیام سمیت بعض دیگر اقدامات کے باعث تجارتی حلقوں اور مخالف سیاسی جماعتوں میں سخت جذبات پائے جاتے تھے۔ ان سب کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مجموعی طور پر مضبوطی سے آگے بڑھ رہی تھی۔

بھٹو مرحوم کا عالمی سطح پر بھی ایک کردار تھا۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ وہ عالمی سطح پر اپنے تعلقات بنا چکے تھے۔ بطور وزیراعظم بھٹو مرحوم نے اپنے ویژن کے تحت پوری امت مسلمہ کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور لاہور میں تاریخ ساز اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا اور تمام مسلم ممالک کے اتحاد کے لئے کی جانے والی تیاریاں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور پسند نہیں آ رہی تھیں۔ اپنے دور اقتدار کے دوران ہی انہیں خصوصاَ امریکی حکام کی جانب سے دھمکیاں ملیں۔ 1977ءمیں عام انتخابات کا موقع آیا تو 9 مخالف سیاسی و دینی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے پلیٹ فارم قائم کر کے مقابلے کی ٹھانی۔ یہ سچ ہے کہ عام انتخابات منصفانہ طور پر منعقد ہو جاتے تب بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن کوئی بری نہیں تھی مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 1977ء کے الیکشن میں زبردست دھاندلی کی گئی۔

دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک نے دنوں میں زور پکڑا تو فریقین مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس سے قبل کہ سمجھوتے اور نئے الیکشن کے لئے تاریخ کا اعلان ہوتا فوج نے بغاوت کر کے تختہ الٹ دیا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا نے صرف 90 روز میں عام انتخابات کرا کے واپس بیرکوں میں جانے کا اعلان کیا مگر اصل منصوبہ کچھ اور ہی تھا۔ نئے انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان کرکے پولنگ منسوخ کر دی گئی۔ کٹھ پتلی ججوں کے ذریعے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دلوا کر اس پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔ تاریخ کا ایسا داغ جو تا قیامت صاف نہ ہو سکے گا، یقینا اس تمام گھناﺅنے کھیل کے پیچھے عالمی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی ۔ یہ بات کہی جا رہی تھی کہ قبر ایک اور بندے دو، ضیاءالحق نے بھٹو کو چھوڑا تو خود نہ بچ پائیں گے۔

ضیاءالحق کے دور میں سابق سویت یونین، افغانستان میں گھس آیا تو پوری دنیا فوجی آمر کی عملی مدد کے لئے میدان میں آ گئی۔ مجاہدین تو بڑی تعداد میں موجود ہی تھے پھر بھی دنیا بھر سے جنگجو منگوائے گئے۔ جدید اسلحے کے ڈھیر لگ گئے، اس جنگ میں پاکستان کو براہ راست کودنا ہی کودنا تھا۔ جدید جنگی مشینری اور دنیا کی دوسری سپر پاور ہونے کی وجہ سے سابق سویت یونین کے عزائم افغانستان سے بھی آگے جانے کے تھے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد (کے پی کے) پر سرخ ریچھ کی نظریں تھیں۔ آج بعض تجزیہ کار اس سویت منصوبے کو محض خام خیالی قرار دیتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہ تھا ، دنیا کا سب سے بڑے رقبے والا ملک پاکستانی علاقوں پر قبضے کے بعد گرم پانیوں تک رسائی کا منصوبہ بنا کر میدان میں آیا تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر سویت افواج کو افغانستان میں نہ روکا جاتا تو بلوچستان اور سرحد میں ایسے عناصر موجود تھے جو غیر ملکی فوج کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ افغان جہاد کے ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے مگر اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ اس دھما چوکڑی میں کلاشنکوف کلچر بھی آیا اور ہیروئین کے سمگلروں نے بھی خوب کام دکھایا۔

ضیاءالحق کے دور میں آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران کا تختہ الٹ کر انقلاب لانے کا اعلان کیا۔ اس انقلاب کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے لگے تھے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے ایک روز اسلام آباد میں احتجاج کے دوران سیکرٹریٹ پر قبضہ جما لیا۔ اس موقع پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مسلکی بنیادوں پر جماعتیں کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے فرقہ واریت میں اضافہ تو ہونا ہی تھا مگر خونریزی بھی ہوئی۔ یہ فیصلہ ضیاالحق ہی نہیں بلکہ پوری اسٹیبلشمنٹ کا تھا، اگر اس وقت ”روشن خیال“ جنرل مشرف بھی حکمران ہوتے تو فیصلہ یہی ہونا تھا۔ ضیاءالحق کے دور کو کرپشن کا دور کہا جاتا ہے۔ درست کہ غنڈہ گردی، زمینوں پر قبضے اور بدعنوانی کے واقعات عام تھے مگر کرپشن تو قیام پاکستان کے فوری بعد اس وقت ہی شروع ہو گئی تھی جب لوگ جعلی کلیم کے لئے جائیدادیں ہتھیانے پر تل گئے تھے۔ ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام تکمیل کو پہنچا۔ 1984ءمیں ایٹم بم تیار کر لیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر بھٹو مرحوم کے بہت بڑے مداح ہیں مگر وہ بات کہنے سے ہرگز نہیں چوکتے کہ ضیاءالحق نے بھی تمام تر وسائل ایٹمی پروگرام کے لئے دستیاب رکھے تھے۔ ضیاءدور کی ایک اور اہم بات بعض اسلامی اقدامات تھے۔ یہ تاثر عام تھا کہ ضیاءالحق ذاتی حیثیت میں پابند صوم وصلوٰة ہیں اور مالی کرپشن میں ملوث نہیں۔ سرکاری دفاتر میں نماز باجماعت کا اہتمام سمیت دیگر ایسے کئی اقدامات کو رائج کیا گیا مگر مخالفین کے مطابق مرحوم جنرل کا یہ سارا عمل ریا کاری پر مبنی تھا۔ ضیاءالحق نے میڈیا (پی ٹی وی) پر اناﺅنسرزکو سر ڈھانپ کر خبریں پڑھنے کا حکم دیا۔ ڈراموں میں ڈائیلاگ تک کا خیال رکھا جاتا تھا کہ ان میں کوئی چیز مذہبی اور اخلاقی حوالے سے قابل اعتراض نہ ہو۔ ضیاءالحق کے اس اقدام پر ماڈرن اور فنکار برادری آج تک ان کے در پے ہے مگر سچ یہی ہے کہ اس دور میں مغربی کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا اور ٹی وی, فلموں میں اس کی خوب عکاسی ہو رہی تھی۔

ہر مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی طرح جنرل ضیاءکے دور میں بھی صوبائی منافرت میں اضافہ ہوا۔ ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی تاکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے توڑ کے لئے متحارب قوت پیدا کی جا سکے۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنا اقتدار مستحکم بنانے کے لئے ریفرنڈم کرایا اور ازخود صدر بن بیٹھے۔ 1985ءمیں عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرا کے سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ساری تدبیریں الٹی پڑیں، غیر جماعتی اسمبلی میں مسلم لیگ بنی اور اس کے شریف النفس وزیراعظم محمد خان جونیجو سے ان بن کے بعد 1988ء میں اسمبلی ہی توڑ دی گئی۔ اسمبلی توڑنے کا بدنام زمانہ صدارتی اختیار (58 ٹو بی) ضیاءالحق کے دور میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر ادھ موا کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ 1986ءمیں بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی پر لاہور میں ان کے فقید المثال استقبال نے ثابت کر دیا کہ پھانسی اور جلاوطنی والے لیڈر کبھی اتنی جلدی عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے۔

ایوب، یحییٰ، مشرف کی طرح جنرل ضیاءالحق بھی آل ان آل تھے۔ عدلیہ ان کے گھر کی لونڈی تھی تو انتظامیہ نوکر، ملک کے اصل حکمران ادارے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی اور ایم آئی ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ منتخب نمائندے تو محض بیٹ مین کی حیثیت رکھتے تھے لیکن کہیں کچھ اور بھی تھا۔ اوپر اللہ تعالیٰ اور نیچے عالمی استعمار جس کے نزدیک فوجی آمر کی ایکسپائری ڈیٹ آ چکی تھی۔ 1988ءمیں جونیجو حکومت کی برطرفی کے ساتھ ہی اوجڑی کیمپ کا واقعہ بھی رونما ہو گیا۔ معاملات سمٹ نہیں رہے تھے۔ جنرل ضیاءالحق کو مختلف معتبر حلقوں کی جانب سے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ ان کی جان لینے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ 14 اگست 1988ء کی تقریب کی تیاریوں کے سلسلے میں پورا فنکشن آرمی ہاﺅس میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک روز قبل ریہرسل کے لئے پی ٹی وی ٹیم آرمی ہاﺅس گئی تو ضیاءالحق خود ملنے آ گئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ سٹیج کس طرف لگے گا، پھر اطراف کا جائزہ لیا۔ وہاں موجود درختوں کے جھنڈ کو اپنے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے 40 درخت کٹوا دیئے۔ انہیں خدشہ تھا کہ منصوبہ ساز انہیں اندر والوں کے ذریعے ہی نشانہ بنوائیں گے۔

دومعروف صحافی جو اب بھی پوری طرح سے چاق و چوبند ہیں ضیاءالحق سے ملاقات کے لئے 14 اگست کو ہی آرمی ہاﺅس گئے، بعد میں الگ الگ محفلوں میں انہوں نے بتایا کہ ہم ملنے کے لئے پہنچے تو جنرل صاحب کے چہرے پر واضح طور پر موت کا خوف جھلک رہا تھا۔ 17 اگست کو جنرل ضیاءالحق بہاولپور گئے، تمام تر حفاظتی انتظامات کے ساتھ ٹینکوں کی مشق کا جائزہ لیا۔ وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ کے علاوہ 11 دیگر جنرل صاحبان اور امریکی سفیر و دفاعی اتاشی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ تقریب ختم کر کے اپنے طیارے کی جانب گئے اور سب کو ساتھ لے کر سوار ہو گئے۔ جنرل اسلم بیگ علیحدہ سے اپنے طیارے پر آئے تھے جس نے الگ اڑان بھری۔ ٹاپ فوجی لیڈر شپ ہی نہیں امریکی حکام بھی ساتھ تھے۔ بظاہر سب کچھ محفوظ تھا مگر طیارہ فضا میں بلند ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی بستی لال کمال میں گر کر بھسم ہو گیا۔ قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ امریکی سفیر اور دفاعی اتاشی بھی لقمہ اجل بن گئے مگر سپر پاور نے اصل منصوبہ سازوں تک پہنچنے اور نام افشا کرنے میں دلچسپی بھی نہیں لی۔ پاکستان کے اندرتحقیقات کا بہت شور مچا بعض افسران کے نام بھی سامنے آئے ایک موقع پر یوں لگا کہ قاتل پکڑے ہی جانے والے ہیں لیکن پھر سارا معاملہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے آج تک مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے والد (جو فوج کے سربراہ بھی تھے) کے قتل کی تحقیقات کرا کررپورٹ جاری کی جائے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اب تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں پتہ کہ اتنے بڑ ے واقعے کے حوالے سے کوئی جامع تفتیش ہوئی بھی تھی یا نہیں۔

بہرحال جنرل ضیا کی آن ڈیوٹی موت شہادت قرار پائی، بہت بڑا جنازہ ہوا،

ملک میں بڑے پیمانے پر سوگ کی فضا دیکھی گئی، ہر برسی کے موقع پر شروع شروع میں بڑے بڑے تعزیتی جلسے ہوئے جو اب سمٹ کر محض چند درجن افراد تک رہ گئے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ضیاءالحق کی سیاسی دریافت نواز شریف آج بذات خود ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ ضیاءالحق کی حالیہ برسی پر ”گو نواز گو“ کے نعرے بھی لگ گئے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال کیا ہو گی کہ جو وزیراعظم نااہل ہو کے گھر سدھار چکا اس کے بارے میں ضیاءالحق کے بچے کھچے حامیوں کو اب بھی یقین نہیں کہ وہ جا چکا ہے۔ کہیں باقی مخالفین بھی تو ایسا ہی نہیں سوچ رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).