افغان گرہ، جغرافیائی گہرائی، بحران میں توسیع اور تنہائی کا تسلسل


امریکا کے صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس پر غور کرنا چاہیے۔ پرانے زمانے میں آسمان سے جو بلا اترتی تھی انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی تھی۔انوری فارسی کا شاعر تھا ۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے عالم بالا کی سخن فہمی کا اندازہ لگا لیا تھا۔ انوری صاحب بہت پہلے انتقال کر گئے۔ آسمان سے بلائیں اب بھی اترتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب پاکستان کا نام لیتی ہوئی وارد ہوتی ہیں۔ امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہو جائے ، قدموں کے نشان طورخم اور چمن کے راستے پاکستان پہنچ جاتے ہیں۔ افریقہ میں سفارت خانوں پر حملہ ہو، نامزد ملزم پاکستان سے گرفتار ہوتا ہے۔ سعودی عرب سے بھاگ کر سوڈان اور پھر افغانستان میں پہنچنے والا شخص بالآخر ایبٹ آباد میں مارا جاتا ہے۔ شعیب بن عزیز کیا خوب کہتے ہیں۔ سب جسے دیکھتے ہیں وحشت میں،یہ میری آستیں سے نکلا ہے…. افغانستان میں لڑے ، ایران میں خاک چھانی مگر مرنے کے لیے ملا اختر منصور کچلاک آ گئے۔ پھر تعجب کیسا کہ افغانستان پالیسی کے اعلان میں دھمکیاں پاکستان کو دی جاتی ہیں۔ ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ امریکا ابھی افغانستان سے نہیں نکلے گا۔ کب نکلے گا یہ نہیں بتا سکتے کیونکہ دشمن گھات میں بیٹھ جاتے ہیں۔ فوجی کارروائی ضرور کی جائے گی حتمی وقت نہیں بتائیں گے۔ کیا کریں گے ؟معاشی ، سیاسی، سفارتی اور فوجی راستے اختیار کریں گے۔ پاکستان ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے اور دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ یہ تو بہت سخت الزام ہے لیکن یہ الزام تو ہیلری کلنٹن نے ستمبر 2009 ءمیں بھی لگایا تھا۔ ٹرمپ صاحب مانتے ہیں کہ مستقبل میں کبھی طالبان سے بات چیت بھی کی جائے گی لیکن فی الحال ان کی ناک رگڑنے کا ارادہ ہے۔

افغانستان کے ایک بہت بڑے رقبے پر طالبان نے قبضہ کر رکھا ہے۔ زیادہ مدت نہیں گزری امریکیوں نے معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر ایٹمی بم افغانستان میں گرایا تھا۔ اقوام متحدہ نے حزب المجاہدین کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ حافظ سعید صاحب نظربند ہیں لیکن ان کے ساتھیوں نے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے قبائلی علاقوں کے شمالی حصے میں آپریشن خیبر فور کی کامیابی کا اعلان کیا ہے ۔ اچھی خبر یہ دی کہ 250 کلومیٹر کا دشوار گزار علاقہ دہشت گردوں سے بازیاب کرا لیا ہے۔ اس ضمن میں افغانستان کی علاقے میں موجود فورسز سے بھی رابطہ رکھا گیا۔ رابطے ہی سے یادآیا کہ نواز شریف نااہل قرار پا کر لاہور واپس پہنچ گئے ہیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ نواز شریف سے کوئی رابطہ نہیں اور رابطے کا ارادہ بھی نہیں ۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے البتہ فون پر میاں نواز شریف سے رابطہ کیا ہے اور محترمہ کلثوم نواز کی صحت یابی کے لیے نیک تمنائیں ظاہر کی ہیں۔

افغان پالیسی پر پاکستان کی سیاسی قیادت کا ردعمل فوراً سامنے آیا۔ عمران خان صاحب کہتے ہیں ’وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکا سے ڈومور کا مطالبہ کرے‘۔محترمہ شیری رحمن کی رائے ہے کہ اب ڈومور کسی اور کو کرنا پڑے گا۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ امریکا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے ۔ نیز یہ کہ پاکستان کی زمین پر کوئی منظم دہشت گرد گروہ موجود نہیں۔ وزیر خارجہ کے حسن بیان میں دو لفظ قابل غور ہیں ۔ ’منظم دہشت گرد گروہ‘۔ آپ کو یاد آیا کہ 2013 ءکی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نے فیصلہ دیا تھا کہ عام انتخابات میں ’منظم دھاندلی‘ نہیں ہوئی۔ معلوم یہ ہوا کہ منظم کا حقیقی مطلب تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور اے این پی اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ بلکہ خواجہ آصف بھی ’منظم‘کے مفہوم سے بے خبر نہیں ہیں۔

دوسرا اہم لفظ قربانی ہے۔ قربانیاں ہم نے بہت دے رکھی ہیں۔ آزادی کا اعلان ہو گیا تو ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ امیر محمد خان کالا باغ کہا کرتے تھے کہ جب ہمیں مقامی ڈپٹی کمشنر نے پاکستان بننے کی خبر سنائی تو ہم مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور ہر طرح کی قربانی دی۔ ہم نے الشمس اور البدر کی صورت میں مشرقی پاکستان میں قربانیاں دیں۔ کچھ قربانیاں تو بہار کے تیس لاکھ بدنصیب مسلمان آج تک بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں دے رہے ہیں۔ قربانیاں دینے کے لیے قائم ہونے والے کیمپ آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ ہم سے افغان جنگ میں قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا۔ ہم نے قربانیاں دیں۔ ہماری زمین پر خوفناک دھماکے ہوئے۔ کوئی آٹھ سو بار روسی ہوائی جہاز سرحدیں روندتے ہوئے ہماری حدود میں آن گھسے۔ پنڈی میں اوجڑی کیمپ پھٹا۔ بستی لال کمال میں سی ون تھرٹی جلا۔ شکوہ یہ رہا کہ فروری 1988ءکے جنیوا معاہدہ میں ہماری قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ قربانی کیسے تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں افغانستان میں مختلف مجاہدین کی مدد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہمیں کابل میں دوگانا نماز شکرانہ پڑھنا ہے۔

دنیا مانتی نہیں تھی۔ ہمارے عظیم مفکر حمید گل نے عسکری فلسفہ پیش کیا کہ افغانستان ہماری تزویراتی گہرائی ہے۔ معلوم ہو گیا کہ حمید گل کا مطالعہ وسیع تھا۔ تزویراتی گہرائی کا لفظ مارشل زخوف نے 1941 ءمیں ایجاد کیا تھا۔ مارشل صاحب کامریڈ سٹالن کو سمجھاتے تھے کہ جرمن فوجوں کو آگے بڑھنے دیا جائے۔ ماسکو اور برلن میں چار ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ یہ علاقہ روس کا اپنا ہے۔ ہم سب فصلیں جلا دیں گے ۔ قابل استعمال عمارتیں منہدم کر دیں گے ۔ اس اجاڑ ویرانے میں جرمن فوج کو آگے آنے دیا جائے ۔ موسم سرما شروع ہو گا تو اپنے مستقر سے چار ہزار میل دور جرمن فوجی بارش، کیچڑ اور کئی فٹ گہری برف میں مارے جائیں گے۔ ہم انہیں گھیرے میں لے کر ماریں گے۔ اس آزمودہ فارمولے کو حمید گل صاحب نے الٹا کر دیا۔ اپنے اور مفروضہ دشمن کے درمیان گہرائی پیدا کرنے کی صورت یہ نکالی کہ اپنے عقب میں افغانستان پر دعویٰ ٹھونک دیا جائے۔ ایسی گہرائی تو بالآخر اپنی ہی زمین پر کھائی بن جاتی ہے۔ افغانستان کو کشمکش کا میدان بنانا ہے تو صرف پاکستان ہی کیوں؟روس ، چین ، امریکا اور بھارت بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا ازلی دشمن ہے ۔ دوسرا ہمیشہ سے ناقابل اعتماد رہا ہے اور اب کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ تیسرے ملک کی سرد جنگ میں شکست کا سہرا ہم اپنے سر باندھتے ہیں۔ چوتھا ملک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے اور اسے سنکیانگ میں وہی مسئلہ درپیش ہے جس کا روس کو چیچنیا میں سامنا ہے۔ چین نے ماضی میں ہمارا اصولی ساتھ دیا تھا اور اب بھی اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی قربانیاں تسلیم کی جائیں ۔ دنیا میں ریاست کی دوستی معیشت سے ترتیب پاتی ہے۔

غور کیجئے ۔ بھارت اور چین میں سالانہ ستر ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے ۔ چین اور روس کی سالانہ تجارت ایک سو ارب ڈالر ہے۔ چین اور امریکا کی باہم تجارت کا حجم 578 ارب ڈالر ہے۔ بھارت اور روس بارہ ارب ڈالر کا لین دین کرتے ہیں۔ بھارت اور امریکا کی باہم تجارت باسٹھ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ روس اور امریکا میں 38 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ دنیا کے سب ممالک سے کل ملا کر پاکستان 65 ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ 43 ارب ڈالر کا سامان خریدا جاتا ہے اور 22ارب ڈالر کی اشیاءفروخت کی جاتی ہیں۔ یہی کل اثاثہ زندگی ہے، اسی کو زاد سفر کروں۔ سٹاک ایکسچینج کی خبر یہ ہے کہ اکتوبر 2016 ءکی نچلی سطح تک اتر آئی ہے۔ تب توسیع کے جھگڑے تھے ، اب تسلسل کے شاخسانے ہیں۔ ایک اچھا مشورہ ان حالات میں حسرت صاحب نے دیا تھا۔اردو پہ رحم فرما، پشتو میں لکھا کر تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).