ڈونلڈ ٹرمپ، ترپ کے پتے اور جاری خسارہ


ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی پر پاکستان کا حسب توقع ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ایسا باور نہیں ہوتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بیان دیا ہے، پاکستانی قیادت اس کے بنیادی نکات سے بے خبر تھی۔ امکان ہے کہ رسمی طور پر اعتماد میں بھی لیا جا چکا تھا۔ ہمارے ریاستی موقف کا پہلے سے بڑی حد تک اندازہ تھا ۔ انحراف کے نکات البتہ بیان کرنا باقی ہیں۔ خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک آئینی ترمیم لانے کی تیاری ہے۔ پہلے خیال تھا کہ آئین کی شق 62، 63 میں ضیاء حکومت کے اضافہ کئے ہوئے حصے حذف کر دیے جائیں گے۔ پھر کسی نے کہا ہو گا کہ آئین کے ان حصوں پر اسلامی کا لیبل لگایا جا چکا ہے۔ یہ بحث بالکل الگ کہ آئین کی کس شق کو اسلامی سمجھا جاتا ہے اور کون سی شق دائرہ اسلام سے باہر ہے۔ ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا ہمارے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی ہے اور اگر ہے تو یہ ڈھانچہ کن شقوں میں بیان کیا گیا ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کبھی نہ کبھی یہ معاملات فیصل ہو جائیں گے۔ حالات کی موجودہ صورت یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت مملکت کے جس اعلیٰ منصب کے لیے نامزدگی سامنے آتی ہے متعلقہ شخص کے عقائد کا سوال اٹھا دیا جاتا ہے۔ معین قریشی، سرتاج عزیز اور شوکت عزیز اس مرحلے سے گزرے۔ کچھ اور مثالیں بھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آئین میں کہیں نہ کہیں ایسا ابہام ضرور موجود ہے کہ آباﺅ اجداد کے کوائف پیش کرنا پڑتے ہیں۔ دیگر ضروری ظواہر اور رسوم بھی ادا کی جاتی ہیں۔ اب تویہ بھی معلوم ہو چکا کہ آئین میں موجود صادق اور امین کی اصطلاحات پر جو پورا نہ اترے، اسے جمہور کی نمائندگی کا حق نہیں۔ چنانچہ سوچ بچار کی جا رہی ہے کہ آئین کی دفعات 62، 63 میں ایسی نااہلی کی مدت طے کر دی جائے۔ یہ بہت اچھا ہو گا یعنی طے شدہ مدت کے بعد مذکورہ بددیانت اور نااہل شخص پھر سے صادق اور امین ہو جائے گا۔

راندہ درگاہ ہم وطنوں کی درخواست ہے کہ اگر بددیانتی اور نااہلی کی میعاد طے کرنا ہیں تو، اے اختیار رکھنے والو، غداری کی مدت بھی طے کر دو۔ 1948 ءمیں ہمارے بزرگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی تھی۔ غدار قرار پائے۔ ون یونٹ میں شامل ہو گئے تو غداری ختم ہو گئی۔ ہمارے پرکھوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ شملہ معاہدہ کے بعد محب وطن قرار پائے۔ بلوچستان پر فوج کشی سے اختلاف کیا تھا۔ جنوری 1978 ءمیں ضیاالحق نے حیدر آباد سازش کیس کے ملزموں کو غداری کے الزام سے بری کر دیا۔ ہماری نسل نے افغان پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ سنا ہے اب ہر خرابی کی جڑیں جنرل ضیاء کی افغان پالیسی میں بیان کی جاتی ہیں۔ عرض ہے کہ غداری کی پاداش میں عقوبت کی حد مقرر ہونی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جرات انکار کا تاوان کتنی مدت تک ادا کرنا ہوتا ہے۔ انحراف کی قیمت معلوم ہو تو فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ اب کچھ لوگ قتل کرنے سے پہلے دیت کی رقم جمع کر لیتے ہیں۔ اہل حسن کی کرامات ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امریکی فوج کے کمانڈر ان چیف نے افغان کشمکش پر وقت کی قید ختم کر دی ہے۔ کہہ دیا کہ جب تک مناسب سمجھیں گے، یہاں بیٹھیں گے۔ ہم نے بھی جواب میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو دیکھ لیتے ہیں، کون کتنی دیر کھڑا رہے گا۔ اگر کراچی سے طورخم تک کے راستے بند کر دیے تو آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہو جائے گا۔ رسد روکنے کا نسخہ نیا نہیں۔ وہی گھات لگانے کی ترکیب ہے۔ مشکل اس میں یہ ہے کہ امریکی اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ بھارت بھی چھ فیصد سے زیادہ کی سالانہ شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ چین دنیا بھر سے تجارت کے راستے تعمیر کر رہا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ساڑھے تین سو میل چوڑی اور بارہ سو میل لمبی ایک زمینی پٹی ہے۔ گھات لگا کر بیٹھنا مشکل نہیں۔ اڑچن یہ ہے کہ گھات لگا کر بیٹھے تو ہم بھی وقت کی سوئیوں سے لٹک جائیں گے۔ ایک راہداری تعمیر ہو رہی ہے۔ گھات اور راہداری کے فلسفے باہم ٹکراتے ہیں۔ معیشت کی خبر بھی لینی چاہیے۔ اس برس جولائی کے مہینے میں پاکستان کے جاری اخراجات کا خسارہ دو ارب ڈالر کی حد پار کر گیا۔ اس سے اسٹاک ایکسچینج پر بہت برا اثر پڑا۔ یہ صورت جاری رہی تو مارچ یا اپریل 2018ء تک ادائیگیوں کا توازن اس قدر مخدوش ہو جائے گا کہ شاید پھر سے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینی پڑے۔ آئی ایم ایف میں امریکا کو بہت دخل ہے۔ اس پر غور کرنا چاہیے۔ ہم نے دھوپ کی آنچ محسوس ہوتے ہی سعودی عرب کا راستہ لیا۔ سعودی عرب ہمارے بل پر خلیج کے خطے میں اپنے عزائم پورے کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب سمیت کوئی ملک بھی ہماری مدد کرے گا تو اس کا عوضانہ مانگے گا۔ دیکھ لیجئے کہ چین اور روس نے کس ریاستی سطح پر ہماری تائید کی ہے۔ چین میں اسٹیٹ قونصلر نے بیان دیا ہے اور روس میں صدر پیوٹن کے نمائندہ برائے افغانستان گویا ہوئے ہیں۔ ہم اس ضمن میں وزارت خارجہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہمارا دفتر خارجہ فروری 1966ء سے بے دست و پا چلا ٓ رہا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ ڈھاکہ کے مضافات میں جو لڑائی ہاری جاتی ہے، شملہ کے پرفضا مقام پر اس کا ازالہ نہیں ہوتا۔ معیشت کی لڑائی بندرگاہ کی گودیوں میں طے پاتی ہے۔ ریاستوں میں تنازعات کشمیر کمیٹی کے وفود حل نہیں کر سکتے۔ 80 ءکی دہائی میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بمشکل 150 تھی۔ ہمیں افغانستان پر ایک سو سے زیادہ ممالک کی حمایت ملتی تھی۔ اب اقوام متحدہ میں کوئی مدعا اٹھا کے دیکھیں۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کے منظم گروہوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ واقعاتی شواہد سے وزیر خارجہ کی تصدیق ہوتی ہے لیکن یہ تو اور بھی خطرناک ہے ۔ گویا اب یہ امید بھی ختم ہوئی کہ قبائلی علاقوں میں، یا کہیں اور، ملک دشمنوں کے ٹھکانے ختم کر دیں گے تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ اب تو کابل اور لاہور میں دھماکے زمانی ترتیب کے ساتھ سنائی دیتے ہیں۔ ہم افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ غالباً افغانستان میں ملا فضل اللہ پاکستان کے دشمن طالبان کی قیادت کر رہا ہے۔ اس شخص نے 2005 ءسے 2009 ءتک سوات میں فتنہ اٹھا رکھا تھا۔ یہ غیر قانونی ریڈیو چلاتا تھا ۔ ہمارے شہریوں کو قتل کرتا تھا ۔ اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والوں کو امن دشمن قرار دیا جاتا تھا۔ پوچھنا چاہیے کہ یہ ہماری زمین سے فرار کیسے ہوا؟ کیا اس میں کہیں کوتاہی ہوئی؟ کیا اس شخص کی نشان دہی کرنے والے آج بھی غدار ہیں؟ سمجھنا چاہیے کہ ریاست کے موقف سے اختلاف کرنے والے لازمی طور پر غدار نہیں ہوتے۔ شمع کے ہوا خواہ ہوتے ہیں۔ جرم ان کا یہ ہوتا ہے کہ بحران سے پہلے بحران کی خبر دیتے ہیں۔ خبر دار کرتے ہیں کہ فلاں فلاں عوامل فیصلہ کن ہیں ۔ دوسروں نے اپنا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں بھی اپنے دور رس مفادات میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہنگامی فیصلے جو راستے کھولتے ہیں، وہ کچھ دور جا کر بند ہو جاتے ہیں۔ معیشت کا خسارہ جاری رہے تو قوم کا مستقبل مجروح ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).