لالہ موسی میں پھول سستے ہو گئے


کچھ دن پرے کا قصہ ہے جب لالہ موسی میں بڑے میاں صاحب کی آمد کی خبر گرم تھی۔ گلی، محلوں میں تھڑوں پر بیٹھے لوگ میاں صاحب کا ذکر کرتے سنائی دے رہے تھے۔ کچھ ان کے گن گا رہے تھا اور کچھ ان سے ناراض بیٹھے تھے۔ کہیں ان کے لیے آہ وفغاں بلند کی جا رہی تھی۔ کہیں لوگ اپنی بدحالی کا سبب میاں صاحب کو گردان رہے تھے۔ موچی، نائی، حلوائی، بزاز، ریڑھی بان غرض یہ کہ کسی کی زبان پر ایک ہی نام تھا۔ ایک ہی ذات کو زیر بحث لانے کا ہر کوئی مشتاق نظر آتا تھا۔

ٹی وی اور اخبارات میں بھی ان ہی کا شور وغوغا تھا۔ لالہ موسی کے داخلی اور خارجی راستوں پر بڑے بڑے بینرز آویزاںکیے جا رہے تھے۔ ہر کھمبے اور بل بورڈ پر کارکنوں نے اپنے لیڈر کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں۔ اسی شہر کے ایک محلے میں، چھوٹے سے گھر میں بارہ برس کا حامد بھی رہتا تھا۔ حامد، میاں صاحب کی شخصیت کا اسیر تھا۔ جب کبھی آتے جاتے ٹی وی پر میاں صاحب کا دیدار ہوتا وہ منہ کھولے بس ان کو ہی تکنے لگتا۔

حامد بڑے بڑے لوگوں کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے یہ تجسس تھا کہ آخر یہ بڑے لوگ قریب سے دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔ وہ اسی شش و پنج میں رہتا کہ کیا وہ ہماری ہی طرح کے گوشت پوست سے بنے ہیں یا پھر وہ کسی خاص مٹی کی پیداوار ہیں۔ وہ اپنے دل میں استقبال کے منصوبے بنا رہا تھا۔ اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے من اور دھن سے کوشش کر رہا تھا۔ یہ تیاریاں سرمایہ مانگتی تھیں۔ چار دن میں چالیس روپے کی بچت کرنا اس کے لیے آسان نہ تھا اس لیے ابا سے لیے گئے روز کے روپے اپنے غلے میں جمع کر رہا تھا جس میں کچھ بچت پہلے کی پڑی تھی۔ ان چالیس روپوں کی خاطر اس نے اپنے جی کی بڑی قربانی دی تھی۔ کبھی برف کے گولے دیکھ کر منہ موڑ لیتا تو کبھی بھنے ہوئے دانوں سے نظریں چراتا ہوا نکل جاتا۔ کبھی تخم لنگاہ دیکھتے ہی اس کے منہ میں پانی بھر جاتا۔ اور کبھی قلفی کی ریڑھی کو دیکھتے ہی اپنا راستہ بدل لیتا۔

اس کی دلی خواہش تھی کہ اپنی جمع پونجی سے پھولوں کی پتیاں لے کر میاں صاحب پر نچھاور کر دے۔ اس نےاماں ابا کو ساتھ چلنے کو کہا پر وہ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اس لیے حامد تنہا ہی نکل کھڑا ہوا۔ پہلے دوڑتا ہوا رشید چچا کی دوکان تک جا پہنچا۔ رشید چچا پھول بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ عام طور پر بیس روپے کا پتیوں سے بھرا لفافہ بیچتے تھے۔ اس دن چچا نے نرخ بڑھا دیے تھے۔ ایک لفافے کی رقم دگنی ہو چکی تھی۔ حامد نے بیس روپے پھولوں کے لیے رکھے تھے اور باقی اپنی پیٹ پوجا کے لیے۔ آدھا پتیوں سے بھرا لفافہ اسے میاں صاحب کے شایان شان نہیں لگ رہا تھا۔ کم مقدار سے اس کے دل کو تسلی نہ ہو رہی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے تمام رقم چچا کے ہاتھ پر دھر دی اور دوسرے ہاتھ سے پھولوں سے بھرا لفافہ تھام لیا۔ اپنے پیٹ کو تسلی سے بھرا اور ریلی کی جانب چل پڑا۔

سڑک کے کنارے لوگوں کا ہجوم تھا لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اس مقام پر ان کھڑا ہوا جہاں سے ہر گزرنے والی گاڑی کو بہت قریب سے دیکھ سکتا تھا۔ اب وہ میاں صاحب کے دیدار کے لیے بے چین تھا۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ پیاس سے حلق خشک ہو چکا تھا۔ بھوک اتنی چمک کر لگ رہی تھی کہ سورج کی روشنی اس کے آگے ماند لگنے لگی تھی۔ اس کا گھر کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ اگر وہ چاہتا تو لپک کر کچھ کھا پی آتا۔ مگر اس کے جنون نے اسے ایک لمحے کی غفلت کی بھی اجازت نہ دی۔

دور سے سائرن بجاتی گاڑیوں کا ایک قافلہ نظر آ رہا تھا۔ جس طرح وہ قریب آ رہا تھا۔ وہ اپنی مٹھی کو پھولوں کی پتیوں سے بھرتا جا رہا تھا۔ کئی بار تازہ مٹھی بھری کہ شاید اس بار ہاتھ میں پتیوں کی مقدار میں کچھ مزید اضافہ ہو جائے۔ جس جس طرح سائرن کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ لوگ آگے کی جانب امنڈ رہے تھے۔

وہ چوکس ہو کر کھڑا تھا۔ سڑک پر نظریں جمائے میاں صاحب کا منتظر تھا۔ اسے کھڑے ہوئے بہت دیر ہو چکی تھے۔ پر اب اس کی زندگی اور میاں صاحب کا انتظار دونوں ختم ہونے کو تھے۔ حامد نے ٹی وی پر دیکھ رکھا تھا کہ لوگ میاں صاحب کی گاڑی کو چوم رہے تھے۔ وہ بھی آگے بڑھ کر اس سعادت کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہجوم اس کو آگے کی طرف دھکیل رہا تھا اور وہ خود کو پیچھے کی جانب۔

اسی دھکم پیل میں حامد کیسے گاڑی سے ٹکرایا کچھ خبر نہیں۔ اس نے اٹھنے کا ارادہ بھی کیا۔ لیکن اسے اس کی مہلت ہی نہ ملی۔ ایک گاڑی اس کے اوپر سے گزر گی۔ اس کی چٹختی ہڈیوں اور بچی کھچی سانسوں نے گاڑی کو بھی کچھ ہچکولے دیے تھے۔ اس کے جوڑے پر بنی کڑھائی کی بیل کو اس کا خون سیراب کر چکا تھا۔ نہ کوئی کہرام مچا، نہ کوئی واویلا ہوا۔ نہ کسی ایمبولینس نے اسے دیکھ کر تھمنے کا نام لیا۔

حامد کا ارمان، سرخ پتیاں اور اس کا خون سڑک پر بکھرا پڑا تھا۔ حامد کے جسم سے جان نکلنے کو تیار تھی۔ وقت نے بڑی بے رحمی سے اس کے تجسس کی گتھی کو سلجھا ڈالا تھا۔ انمول مٹی سے بنے لوگوں کا فرق نمایاں واضح ہو گیا تھا۔ حادثہ کی صورت میں صاحبان دولت کے لیے ایمبولینس کی لمبی قطار تھی۔ زندگی اور موت کے درمیان جھولتے حامد کے لیے رکشہ میں بیٹھے شخص کی گود۔

زندگی کے آخری لمحات اس کو اس بات کا یقین کامل ہو گیا تھا کہ اس کا خون ارزاں اور ان کا افضل ہے۔ اپنی کمتری اور ان کی برتری کا احساس اسے مرتے مرتے اور مار رہا تھا۔ اسی سوچ میں الجھے رکشے میں ہچکولے کھاتے حامد کی آخری سانس آ ہی گئی۔

حامد کے والدین پر قیامت صغری ٹوٹ چکی تھی۔ باپ دکھی دل کے ساتھ سی سی یو کے بستر سے جا لگا تھا۔ بھائی پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ماں جھولی اٹھا اٹھا کر خاص مٹی سے بنے لوگوں کو کوسنے دے رہی تھی کہ تمہاری اولاد بھی ایسے ہی مرے۔ حامد اگر کچھ کہنے کی سکت رکھتا تو اپنی ماں سے ضرور کہتا کہ“ نہ اماں نہ یہ بد دعا نہ دے۔ گاڑی کے نیچے آنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے، اتنی تکلیف ہوتی ہے، اتنی تکلیف کہ جان ہی نکل جاتی ہے“ حامد کو مٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ حامد کے بھائی نے اس کی قبر پر ڈھیر ساری پھولوں کی پتیاں ڈالیں۔ کیونکہ چچا رشید نے میاں صاحب کے کارواں کے گزرتے ہی نرخ کم کر دیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).